پاک چین دوستی، سی پیک اورمستقبل کے اندیشے

پاکستان چین تعلقات کی تاریخ نصف صدی سے زیادہ عرصے پر محیط ہے ، پاکستان اسلامی دنیا کا پہلا اور دنیا کا تیسرا ملک تھا جس نے سنہ ١٩٥٠ میں تائیوان چین تنازعے کے فوراً بعد چین کو آزاد ریاست کے طور پر تسلیم کیا – تعلقات کا باقاعدہ آغاز سنہ ١٩٦٢ میں ہوا جو سنہ ١٩٦٦ میں مضبوط اقتصادی و فوجی تعاون میں بدلے اور پھر پاکستان کی بہترین سفارت کاری کی بدولت سنہ ١٩٧٠ میں امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر اور سنہ ١٩٧٢ میں امریکی صدر ر رچرڈ نکسن کی چین آمد کا سبب بنے

چین ملحد اکثریت والا جبکہ پاکستان اسلامی ملک ہے ، چین ایک مستحکم کمیونسٹ اور سرمایہ دار جبکہ پاکستان معاشی و سیاسی طور پر غیر سرمایہ دار ملک ہے ، چین دنیا کی فیکٹری ہے جب کہ پاکستان نہ تو ایک بہت بڑی مارکیٹ اور نہ ہی وسائل کا ایک بہت بڑا سپلائزر لیکن اس کے باوجود دونوں ممالک کے تعلقات کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ ” ہمالیہ سے بلند ، سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی دوستی ہے ” –

چینی سب کے ساتھ بہتر تعلقات رکھنا چاہتے ہیں مگر چینی ثقافت میں لفظ ” دوستی ” کے متعلق ساری دنیا سے مختلف رائے پائی جاتی ہے ، چینیوں کے نزدیک دوست وہ ہوتا ہے ” جو آپ کے ساتھ اس وقت کھڑا ہو جب آپ گرے ہوئے ہوں ” – شاید اسی لیئے چین پاکستان کو دیگر ہمسائیوں پر فوقیت دیتا ہے –

سنہ ١٩٧٨میں چین اور پاکستان کے درمیان زمینی راستے قراقرم ہائی وے کا افتتاح ہوا ، سنہ ١٩٨٤ میں پاکستان اور چین کے درمیان جوہری توانائی کر پروجیکٹز میں تعاون کا سمجھوتا ہوا اور پھر دونوں ممالک کے درمیان فوجی تعاون کے اہم منصوبوں کے حوالے سے سنہ ٢٠٠١ میں الخالد ٹینک ، سنہ ٢٠٠٧ میں لڑاکا طیارے ” جے ایف ١٧ تھنڈر” ، سنہ ٢٠٠٨ میں ایف ٢٢ پی فریگیٹ اور کے ٨ پی قراقرم تربیتی طیاروں کی تیاری اور دفاعی میزائل پروگرام میں قریبی تعاون و اشتراک کے سمجھوتوں پر دستخط ہوئے –

پچھلے سال سنہ ٢٠١٦ میں چینی صدر شی چن پنگ نے پاکستان کا دو روزہ دورہ کیا جس میں چین کی طرف سے پاکستان کے لیے ٤٦ ارب ڈالر مالیت کے توانائی اور انفراسٹرکچر کے منصوبوں پر مشتمل سرمایہ کاری کا پیکج دیا – اس پیکج میں جسے سی پیک کا نام دیا گیا ہے 10400 میگاواٹ بجلی کے پروجیکٹ ، 832 کلومیٹر شاہراؤں کی تعمیر ، 1736 کلومیٹر ریلوے لائن کی تعمیر اور گوادر کی بندرگاہ سمیت متعدد ترقیاتی اور تعمیراتی منصوبے شامل تھے –

پاک بھارت جنگوں ، زلزلے اور سیلاب میں مدد کے علاوہ بین الاقوامی فورم پر بھی چین نے ہمیشہ پاکستان کا خیال رکھا ہے ، اقوام متحدہ کے فورم پر مسلہ کشمیر ہو یا پھر دہشت گردی کے خلاف پاکستان کا موقف چین ہمیشہ ہندوستان کے مقابلے میں پاکستان کے ساتھ کھڑا نظر آیا ہے –

چین کی ٤٦ ارب ڈالر مالیت کی سرمایہ کاری پاکستان آ رہی ہے جسکے ساتھ یقینا” چین کی ” سکلڈ ورک فورس ” بھی پاکستان آئے گی ، آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے اب چین صرف اپنے ملک میں ہی اندسٹریل لیبر کو نہیں کھپاتا اس لیئے انڈسٹری آئے گی تو لیبر بھی آئے گی ، اس کے علاوہ دو مختلف تہذیبوں کا باہمی ملاپ ہو گا تو اس کے اثرات اقتصادیات کے ساتھ ساتھ معاشرت پر بھی پڑیں گے ، اور مجھے یقین ہے کہ ہمارے ارباب اختیار نے حسب معمول ابھی تک معاشرے پر ان اثرات کے لیئے کوئی پیش بندی نہیں کی ہو گی –

گدھے اور کتے کا گوشت تو ہم کھا ہی رہے ہیں لیکن اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے جو چینی اپنے ساتھ لائیں گے ( ان کا ذکر پھر کبھی سہی ) مگر میں اس وقت چین کی ان چیزوں کے متعلق بات کرنا چاہوں گا جو اس وقت ہماری مارکیٹ میں موجود ہیں –

فوڈ سپلیمنٹس ، اینرجی ڈرنکس ، چاکلیٹس ، ٹافیاں –

پاکستان اس وقت چائنیز فوڈ سپلیمنٹس ، اینرجی ڈرنکس اور چاکلیٹس وغیرہ کی بڑی مارکیٹ بن چکا ہے ، میڈیا پروجیکشن ، عطائیوں کی بھر مار اور کم قیمت ہونے کی وجہ سے غیر معیاری فوڈ سپلیمنٹس اور وٹامنز محلے کی عام دوکان سے لے برینڈڈ میڈیکل سٹوروں سمیت ہر جگہ دستیاب ہیں – چین سے درآمد کیئے گئے ان سپلیمنٹس کو بنانے میں جو بنیادی چیز استعمال ہوتی ہے وہ ” خنزیر ” کی چربی ہے – خنزیر کی چربی میں ” Creatine ” نامی سبسٹانس پایا جاتا ہے جو پٹھوں کی مضبوطی کے لیئے اہم سمجھا جاتا اور ایسے تمام سپلیمنٹس جو باڈی بلڈر استعمال کرتے ہیں ان کا مین سورس ” Creatine ” ہی ہوتا ہے – اس کے علاوہ چاکلیٹوں اور ٹافیوں میں خنزیر کی چربی اور دودھ دونوں استعمال کی جاتی ہیں اور یہ سب کچھ ہماری عام مارکیٹ سمیت پوش علاقوں کی مارکیٹ میں دستیاب ہے –

صابن ، کاسمیٹیکس ، میک اپ کا سامان –

اس وقت بین الاقوامی کاسمیٹک مارکیٹ کا حجم تیزی سے بڑھ رہا ہے جو ایک اندازے کے مطابق سنہ ٢٠١٦ سے ٢٠٢٢ تک ٤٢٩.٨ بلین ڈالر کی حدود کو چھو لے گا ، اور اس میں اس وقت چائنہ ٢٠٤.٩ بلین رمب کا حصہ دار ہے اور جس میں سالانہ ٦ سے ١٠ فیصد تک اضافہ ہو رہا ہے – اس وقت پاکستانی مارکیٹ میں چائنہ کی جو مصنوعات موجود ہیں ان میں سکن کیئر پروڈکٹس ، شیمپو ، صابن ، میک اپ پروڈکٹس ، چلڈرن کیئر پروڈکٹس ، اینٹی ایج پروڈکٹس اور سپورٹس کاسمیٹکس شامل ہیں – ان مصنوعات میں خنزیر کی چربی میں سے جو چکناہٹ استعمال ہوتی ہے اسے ” Lard ” کہا جاتا ہے اپنے ہلکے رنگ اور جلنے کے لیئے ہائی درجہ حرارت رکھنے والی اس چکناہٹ کو کیمسٹری کی زبان میں ” triglycerides ” بھی کہتے ہیں اور کلینکل کاسمیٹک سرجری کے لیئے خنزیر کے چمڑے کے اجزا استعمال کیئے جاتے ہیں –

چمڑے کی مصنوعات –

پاکستان خود چمڑے کی معیاری مصنوعات کی ایک بڑی مارکیٹ سمجھا جاتا ہے مگر گزشتہ کچھ سالوں سے مختلف وجوہات کی وجہ سے پاکستانی صنعتکار پروڈیکشن کے بجائے خام مال برآمد کر رہے ہیں جس کی وجہ سے لوکل مصنوعات کم اور مہنگی ملتی ہیں ، مارکیٹ میں چمڑے کی مصنوعات کی کمی کو پورا کرنے کے لیے ہمارے ہاں چائنہ سے چمڑے کی چھوٹی بڑی بے شمار چیزیں درآمد کی جاتی ہیں جن میں چمڑے کے دستانے ( بمعہ سیفٹی گلوز ) ہینڈ بیگ ، مردانہ پرس ، بیلٹ ، جوتے ( سیفٹی شوز وغیرہ ) ٹوپیاں اور ڈائریوں کے لیدر کور وغیرہ شامل ہیں ، چائنہ کی یہ سستی چمڑے کی مصنوعات اصل میں کتے ( dog ) کی چمڑے سے بنی ہوتی ہیں جن سے چھوٹے اور غریب ملکوں کی مارکیٹ ٹارگٹ کی جاتی ہے اور بد قسمتی سے پاکستان اس وقت چین سے آئی کتوں کے چمڑے کی ایک بڑی مارکیٹ بن چکا ہے – بی بی سی پر china dog leather industry کے نام سے رپورٹ بھی چل چکی ہے –

ادویات –

ہیپٹائٹس کے انجکشنوں سمیت مختلف روایتی چینی ادویات اس وقت پاکستان کی مارکیٹ میں دستیاب ہیں جن میں سلمنگ ، قد لمبا کرنے اور سیکس کے متعلق وغیرہ شامل ہیں جن کی ہمارے میڈیا میں تشہیر کر کے لوگوں کو بیوقوف بنا کر ان کی صحت سے کھیلا جا رہا ہے ، چائنہ سے آنے والی ان روایتی ادویات کا سورس بندر ، کھیچوے اور پینگولین کے اجزاء ہوتے ہیں – انگریزی جریدے ڈیلی کوز میں گزشتہ سال اپریل میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق چائنہ میں روایتی ادویات بنانے میں مختلف قسم ١٥ سو جانور استعمال کیئے جاتے ہیں اور ان ادویات کو غریب ممالک میں سمگلنگ کر کے کثیر پیسہ کمایا جا رہا ہے –

اگرچہ اس وقت عالم اسلام اپنے وسیع تر مفاد میں چین کے صوبہ سنکیانگ میں مسلمانوں پر ہوتے مظالم کو نظر انداز کیئے ہوئے ہے ، پاکستان چین دوستی بھی عروج کی بلندیوں کو چھو رہی ہے اور ہم اپنا سب کچھ چین کی گود میں ڈالنے کو بے تاب بھی ہیں مگر اس سب کے باوجود یہ چیز بھی نظر انداز نہیں کی جانی چاہیئے کہ کہیں ایک نئی ایسٹ انڈیا کمپنی کا قیام تو نہیں ہو چکا ، کیا کہیں چین کی انڈسٹری ہماری انڈسٹری کی چلتی آخری سانسیں بھی تو نہیں چھیننے جا رہی ، کیا کہیں ہمارا مزدور اپنے ملک میں ہی چین کے مزدور کے مقابلے میں مہنگا ہو کر بیروزگار تو نہیں ہونے جا رہا – ارباب اختیار توجہ فرمائیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ بلکل اسی طرح جیسے ہمیں بیس پچیس سال پہلے پرائی جنگ میں کودنے اور گھر لانے کے بعد اب واپس نکلنے کا راستہ نہیں مل رہا اگلے بیس سال بعد ہمارے پاس چین کے چنگل سے بھی بھاگنے کا کوئی محفوظ راستہ نہ ہو –

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے