شام میں پاکستانی رفاہی ادارے کی خدمات

عالم اسلام تقریباً ایک ارب ساٹھ 60کروڑ نفوس پر مشتمل ہے اور آبادی میں اضافے کی موجودہ شرح برقرار رہی تو مسلمان2050 تک ڈھائی ارب افراد سے تجاوز کرجائیں گے۔ اسی طرح آج مسلمانوں کی57 آزار ریاستیں ہیں جو اپنے رقبے کے اعتبار سے اندازاً دو کروڑ مربع کلومیٹر پر محیط ہیں۔ اسی طرح تیل کے عالمی ذخائر کا60فیصد اور گیس کے معلوم ذخائر کا70فیصد سے زائد حصہ ان کی ملکیت میں ہے۔ مسلمانوں کی ایک بہت بڑی اقتصادی و معاشی مارکیٹ ہے اور اس کے ساتھ ساتھ جغرافیائی طور پر بھی مسلمان پوری دنیا کے قلبی حصے میں موجود ہیں لیکن ان تمام تر خدا کی عطا کردہ نعمتوں کے باوجود مسلمان اپنی سیاسی، عسکری، اقتصادی اور بین الاقوامی حیثیت سے آج تک محروم ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ بعض حکمراں بدعنوان ہیں۔ کشمیر ہو یا فلسطین، ایران ہو یا عراق، افغانستان ہو یا یمن، یہ وہ سلگتے ہوئے مسلمان ممالک ہیں جن میں برسوں سے لگی آگ کے نہ بجھنے کی وجہ سے اس آگ نے موجودہ شام کو ہر طرف سے اس طرح گھیرے میں لے لیا ہے کہ اہلِ شام اپنوں اور اغیار کے ہاتھوں تباہ و برباد ہوچکے ہیں۔ اہلِ شام جن کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے آج ان پر تباہی و بربادی کے ان خونی لمحات میں خود مسلمان عرب ممالک نے اپنے دروازے بند کر دئیے ہیں۔ حالانکہ رسولِ اکرمؐ نے شام اور اہلِ شام کیلئے یہ دعا فرمائی:

’’اے اللہ تعالیٰ! ہمارے لئے ہمارے شام اور ہمارے یمن میں برکت فرما‘‘۔ اس پر صحابہؓ نے عرض کی:اے اللہ کے رسولؐ! اور ہمارے نجد میں بھی؟ (یعنی نجد میں بھی برکت کی دعا فرمائیں) اللہ کے رسولؐ نے دوبارہ دعا فرمائی:’’اے اللہ! ہمارے شام اور یمن کو ہمارے لئے بابرکت بنا‘‘۔ راوی کہتے ہیں کہ غالباً تیسری مرتبہ اللہ کے رسولؐ نے (نجد میں برکت کی دعا کی درخواست پر) فرمایا:’’وہاں زلزلے اور فتنے برپا ہوں گے اور وہیں سے شیطان کا سینگ برآمد ہوگا۔‘‘

آپؐ نے پورے شام کو رحمت کے فرشتوں کے رحمت بھرے پروں کے سائے تلے قرار دیا ’’شام کیلئے خوشخبری ہو‘‘۔ ہم نے کہا کہ اے اللہ کے رسولؐ! کس وجہ سے خوشخبری؟ تو آپؐ نے فرمایا:’’رحمان کے فرشتوں نے اپنے پَر شام پر پھیلائے ہوئے ہیں۔‘‘

ایک روایت میں رسول ؐشام کو اہل حق کا مرکز بتاتے ہوئے فرماتے ہیں:’’میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ اللہ کے حکم پر قائم رہیگا، ان کو رسوا کرنے والوں اور ان کی مخالفت کرنے والوں سے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا اور قیامت تک وہ اسی حالت پر ثابت قدم رہیں گے‘‘، (روایت کے راوی حضرت عمر بن ہانی مالک بن یخامر کی وساطت سے بیان کرتے ہیں کہ حضرت معاذؓ نے فرمایا یہ لوگ ملک شام میں ہوں گے) (بخاری3641)

رسول اللہؐ نے فرمایا:’’عنقریب معاملہ اتنا بڑھ جائے گا کہ بے شمار لشکر تیار ہو جائیں گے چنانچہ ایک لشکر شام میں ہوگا، ایک یمن میں اور ایک عراق میں، ابن حوالہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ! (صلی اللہ علیہ وسلم) اگر میں زمانے کو پائوں تو مجھے کوئی منتخب راستہ بتا دیجئے؟ آپ ؐنے فرمایا شام کو اپنے اوپر لازم کر لینا، کیونکہ وہ اللہ کی بہترین زمین ہے، جس کے لئے وہ اپنے منتخب بندوں کو چنتا ہے، اگر یہ نہ کرسکو تو پھر یمن کو اپنے اوپر لازم کرلینا، اور لوگوں کو اپنی حوضوں سے پانی پلاتے رہنا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے میرے لئے اہل شام اور ملک شام کی کفالت اپنے ذمے لے رکھی ہے‘‘ (مسند احمد17005)

رسول اللہ ؐنے فرمایا:’’قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک عراق کے بہترین لوگ شام اور شام کے بدترین لوگ عراق منتقل نہ ہوجائیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ تم شام کو اپنے اوپر لازم پکڑو‘‘ (مسند احمد22145)

رسول اللہﷺ نے فرمایا:’’شام حشر و نشر کی سر زمین ہے‘‘ (مسند بزار3965)

ان احادیث کی رُو سے ارضِ شام اہلِ اسلام کیلئے ایک ایسی سر زمین ہے، جسے اللہ نے تقدیس و برکت سے نوازا ہے، یہ کل مسلمانانِ عالم کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ اور بالخصوص مسلمان اہلِ ثروت اور فلاح و بہبود کے اداروں کی کہ وہ ملکِ شام کے موجودہ جنگی حالات میں اہلِ شام جن کیلئے نان و نفقہ اور ضروریاتِ زندگی کا حصول ناممکن ہو گیا ہے، ان کی بھرپور انداز میں مدد کریں۔ یہ ہمارے شامی مسلمان بھائی بہنیں، بچے، بوڑھے، معذور، بیمار اور زخمی ہیں۔ جنہوں نے اپنی زندگی کی سب سے خوفناک سردیاں، شدید برفباری کے موسم میں کھلے آسمان تلے بغیر کسی چھت اور آڑ کے گزاری ہیں۔ آج بھی یہ شامی مسلمان زمین پر مسلسل گولہ باری کا شکار اور آسمان سے سپر طاقتوں کے بے رحم جنگی جہازوں کی بمباری کا ہدف بنے ہوئے ہیں۔ شام میں تمام عالمی قوتیں مل کر شام کے مسلمانوں کا قتل عام کر رہی ہیں۔ خلیج کی جنگ ہو یا نائن الیون کا ڈرامہ، عراق پر جارحیت ہو یا افغانستان پر بمباری، لیبیا میں فساد ہو یا مصر میں فوج کا ناجائز قبضہ، شام میں خونریزی ہو یا معصوم شامیوں کا اپنے ارضِ وطن سے خروج، داعش کے دہشت گردوں کی تشکیل ہو یا فرقہ وارانہ فساد، عرب ممالک کی کچھ گروہوں کی سرپرستی ہو یا ایران کا دوسرے گروہ کی طرف جھکائو، کردوں کی ترکی کے خلاف امداد ہو یا ترکی میں طیب رجب اردوان کے خلاف بغاوت، یہ سب صہیونی سازشوں کا تسلسل ہے۔

اس تباہی اور بربادی نے ساٹھ لاکھ شامیوں کو اپنے گھروں سے دربدر کردیا اور ستر لاکھ شامی آج بھی پناہ گزینوں کے کیمپوں میں نہایت حسرت کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ حالات بظاہر نہایت مایوس کن ہیں کیونکہ مظلوم اہلِ شام کا ساتھ دینے والے مسلمان امت میں سے بہت کم نظر آتے ہیں لیکن بعض مثالیں قابلِ رشک اور لائقِ تقلید ہیں۔ ترکی کے موجودہ صدر رجب طیب اردوان پورے عالمِ اسلام میں وہ واحد مردِ مومن ہے جس نے بیرونی اور عالمی طاقتوں کی شدید مخالفت کے باوجود اہلِ شام کے استقبال اور ان کی مہمان نوازی کیلئے اپنی سرحدیں کھول دی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بعض دوسرے ممالک مثلاً کویت نے1,20,000جبکہ عراق نے 2,47,861شامی مہاجرین کو پناہ دی ہے لیکن ترکی دوسرے تمام ممالک سے سبقت لے چکا ہے۔ اب تک21,38,999 سے زیادہ شامی مہاجرین کو ترکی میں سرکاری سرپرستی میں سیاسی پناہ دی جا چکی ہے جبکہ بعض مغربی ممالک مثلاً جرمنی، برطانیہ وغیرہ نے اگرچہ شامی مہاجرین کو سیاسی پناہ دی ہے لیکن ان ممالک میں مسلمان پناہ گزینوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اس تناظر میں ترکی کی موجودہ حکومت نے جس ایثار کا ثبوت دیا ہے اور اپنے شامی مہاجر بھائیوں کی جس طرح عملی طور پر مدد کی جا رہی ہے وہ لائقِ رشک اور قابلِ تقلید ہے۔

اسلامی ممالک اور بالخصوص پاکستان سے جانے والے مخیر افراد اور فلاحی اداروں کو شام کے مہاجرین کے کیمپوں تک پہنچانے کا عمل نہایت حسن و خوبی اور منظم طریقے سے جاری و ساری ہے اور اس ضمن میں مہاجرین کی مدد کے لئے جو سامان لے جایا جارہا ہے اسے نہایت حفاظت سے اپنے مقام تک پہنچانے کا فریضہ ترکی حکومت کے اہلکار دیانت و امانت کے ساتھ سر انجام دے رہے ہیں۔ الحمدللہ۔ پاکستان سے کئی افراد اور ادارے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ہجرت کے اس المیے میں اپنے شامی بھائیوں تک بھرپور اور قانونی انداز میں اپنی امداد پہنچا رہے ہیں۔ سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل کے بارے میں عمومی تاثر یہ ہے کہ شاید ان کے رفاہی و فلاحی کاموں کا دائرہ کار صرف پاکستان کی حد تک محدود ہے لیکن سیلانی نے شام کے مہاجرین کی ہمہ جہتی امداد کے ذریعے اپنے انٹرنیشنل یا بین الاقوامی، فلاحی ادارہ ہونے کا بھرپور ثبوت دیا ہے۔ اس ضمن میں گزشتہ دنوں ترکی کے سرکاری ادارے (AFAD)کی دعوت پر سیلانی ویلفیئر ٹرسٹ انٹرنیشنل کا پانچ رکنی وفد برادر محترم محمد زبیر اشرفی صاحب اور عامر اقبال صاحب کی قیادت میں شام کے بھائیوں کی مدد کیلئے ترکی پہنچا اور اس نے استنبول، انقرہ اور دوسرے شہروں میں شامی مہاجرین کے کیمپوں کا تفصیلی دورہ کیا، مہاجرین سے ان کے مسائل کو دریافت کیا گیا اور جو مسئلے فوری نوعیت کے تھے انہیں وہیں حل کیا گیا۔ اور بقیہ مسائل کی تفصیلات مرتب کی گئیں ۔

تاکہ آئندہ منظم اور بھرپور طریقے سے اہلِ شام کی مدد کی جا سکے۔ اس وفد نے دو ہزار خاندانوں کا راشن ترکی کے بارڈر کے ذریعے شام کی سرزمین میں داخل ہو کر شامی مہاجرین کے کیمپوں میں مستحقین میں بڑے منظم انداز سے تقسیم کیا۔ آئندہ کیلئے شامی خاندانوں کی ماہانہ کفالت کی ذمہ داری اٹھانے کیساتھ ساتھ ان کے بچوں کی تعلیم و تربیت کیلئے اسکولوں اور اسپتالوں کے قیام کا منصوبہ سیلانی کے ترجیحات میں سرفہرست ہے۔ جس کو حتمی شکل دینے کیلئے سیلانی کے سرپرست اعلیٰ مولانا محمد بشیر فاروقی صاحب اس وقت (AFAD)کی دعوت پر ترکی کے دورے پر ہیں۔ بشیر بھائی نے شام سے مجھے وہاں کے حالات بتلائے اور شامی بھائی، بہنوں اور بچوں پر مظالم اور تکالیف سے آگاہ کیا۔میری اہلِ وطن سے دردمندانہ گزارش ہے کہ اپنے شامی بھائیوں سے بھرپور تعاون کیلئے سیلانی ویلفیئر انٹرنیشنل ٹرسٹ کے رفاعی و فلاحی منصوبوں میں بھرپور تعاون فرما کر اپنا اسلامی فرض ادا فرمائیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے