دینی جماعتوں کے اتحاد کی ضرورت

ایم ایم اے کی تشکیلِ نو کے لیے ابتدائی اجلاس ہوچکے ہیں،زیرک سیاست دان اورقائد جمعیت مولانا فضل الرحمن کی ذاتی خواہش پرجماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کے درمیان اختلافات کی خلیج کو پاٹنے کی کوششیں شروع کی جاچکی ہیں۔،امیدکی جاتی ہےکہ اس سے مذہبی ووٹ تقسیم در تقسیم سے بچ جائے گا۔اس وقت خطے میں ایران کے توسیع پسندانہ عزائم،حال ہی میں پاکستان کے اندر گھس کراپنے مخالفین کو نشانہ بنانے کی دھمکی ،بلوچستان میں دہشت گردانہ کارروئیوں،بھارت نوازی اور کلبھوشن یادیو،عزیربلوچ جیسے ہائی پروفائل دہشت گردوں کے ایران سے تعلقات کے طشت ازبام ہوجانے کے بعد ایم ایم اے میں ایران نواز جماعتوں کواپنے ساتھ ملانے نہ ملانے کا فیصلہ انتہائی اہمیت اختیار کرگیا ہے،اس سلسلے میں کچھ کہنا تو قبل از وقت ہوگا،تاہم کسی بھی ملک کے لیے کام کرنے یا ان سے فنڈ لے کر ان کے توسیع پسندانہ عزائم کے لیے زمین ہموار کرنے والی جماعتوں سے یہ عہد ضرور لیا جانا چاہیے کہ وہ وطن عزیز کے مفاد کو ہر وابستگی سے مقدم رکھیں گی۔انتخابات کے قریب آتے ہی دینی قوتوں کے اتحاد کے سلسلے میں ہونے والی یہ پیش رفت اور مولانا فضل الرحمن کی دینی قوتوں کے درمیان اتحاد کے لیے کوششیں خوش آیند ہیں۔

دوسری طرف مولانا مضل الرحمن کے اپنے مسلک دیوبند سے وابستہ دینی جماعتوں کے باہمی اختلافات جوں کے توں برقرار ہیں،،ان کو اس سلسلے میں خود چل کر تمام راہ نماؤں کے پاس جانا چاہیے۔جمعیت علمائے اسلام کی صد سالہ کانفرنس میں تمام دیوبندی جماعتوں کی شرکت اور جھنگ کے ایم پی اے مولانا مسرور نواز جھنگوی کاجمعیت علمائے اسلام کے پیلٹ فارم سے سیاسی جدوجہد کرنے کے فیصلے کی صورت میں دیوبندی جماعتوں کے درمیان اتحاد کی جو ابتدائی امیدتو سامنے آئی تھی اس پر تاحال کوئی عملی پیش رفت نظر نہیں آتی،دینی ووٹ کو بچانے کے لیےاگر یہ تمام جماعتیں مشترکات کی بنیاد پر ایک ہوجائیں تو آنے والے انتخابات میں کلیدی کردار ادا کرسکتی ہیں،اس سلسلے میں مولانافضل الرحمن کو پہل کرتے ہوئےاپنی ہم مسلک تمام جماعتوں سے مذاکرات کرنے چاہییں۔مضبوط ووٹ بینک رکھنے والی جماعتوں میں جمعیت علمائے اسلام کے دھڑے اور کالعدم سپاہ صحابہ سرفہرست ہیں،ان جماعتوں کا
پنجاب میں بڑاووٹ ہے،جو ہر الیکشن میں تقسیم ہوجاتا ہے،اس کو بچانے کی فکر کرنی چاہیے،کالعدم جماعتوں کا زور ٹوٹ چکا ہے،ان کے کارکن مخلص ہیں اورموجودہ قیادت بھی سیاسی انداز میں کردار ادا کرنا چاہتی ہے،اس لیے ان سے مذاکرات ہونے چاہییں،”کچھ لواور کچھ دو”کی پالیسی کے تحت پنجاب کے دینی ووٹ کو تقسیم ہونے سے بچایا جاسکتاہے۔

اس با ت میں کوئی شبہ نہیں کہ دوسرے صوبوں کے مقابلے میں دینی قوتوں کے لیے سب سے بڑا امتحان بھی پنجاب کے دینی ووٹ کو تقسیم ہونے سے بچانا ہے۔اہل سنت بالخصوص دیوبند مکتبہ فکر کاووٹ وہاں جمعیت علمائے اسلام اور کالعدم سپاہ صحابہ(موجودہ اہلسنت)کے درمیان تقسیم ہوجاتا ہے اور اب تک ہونے والے انتخابات میں کالعدم سپاہ صحابہ اپنے ووٹ بینک کو مختلف لوگوں کی حمایت کی صورت میں بروئے کار لاتی رہی ہے۔پچھلے انتخابات میں اہلسنت کے سربراہ مولانالدھیانوی نے اپنی حمایت سے کام یاب ہونے والے جن اراکینِ اسمبلی کی فہرست پیش کی تھی،ان میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی مرکزی شخصیات حتیٰ کہ وزرائے اعظم تک شامل تھے،اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ پنجاب میں اس جماعت کا ووٹ بینک کتنا مستحکم ہے اور اس جماعت کے کارکنوں وہم دردوں کو جماعتی ڈسپلن کا کس قدر خیال ہے ،کہ جماعت جس حلقے میں جس جماعت یا آزاد امیدوار کی حمایت کا اعلان کرتی ہے،کارکنان وہم درد اپنا ووٹ اسی کو دیتے ہیں۔۔

بلاشبہ جمعیت علمائے اسلام مستقبل کی ایک بڑی سیاسی قوت بن کر ابھررہی ہے،موجودہ حالات میں مولانافضل الرحمن کی اہمیت دن بہ دن بڑھتی جارہی ہے،ایسے میں انھیں اپنے ہم مسلک ووٹ کو اپنے حق میں کرنے کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔یہ بھی اطمینان بخش امر ہے کہ مولانا فضل الرحمن کی تمام دینی راہ نماؤں کی نظر میں ایک وقعت وعظمت ہے۔واقفان حال کا کہنا ہے کہ جمعیت علمائے اسلام اور ان جماعتوں کی قیادت کو اس اتحاد پر کوئی اعتراض نہیں،البتہ مرکزی عہدوں پر براجمان کچھ شخصیات ہر جماعت میں ایسی ہیں ،جو اس قسم کے اتحاد کے خلاف ہیں،تمام جماعتوں کو اپنی صفوں میں موجود ان عناصر کو اس اتحاد کے فوائد وثمرات کو سامنے رکھتے ہوئے قائل کرنا یا ان سے جان چھڑانا ہوگا،اس کے بغیر یہ خواہش پوری نہیں ہوسکتی۔

زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ ماضی کے برعکس اب فضا کافی ساز گار ہوچکی ہے،کیوں کہ بیش تر دیوبندی جماعتوں کی زمامِ قیادت ایسے افراد کے ہاتھوں میں ہے، جو مفتی محمود کے شاگردوں میں سے ہیں اور مولانافضل الرحمن کی سیاسی بصیرت اورملکی منظر نامے پراثر انداز ہونے کی صلاحیت سے نہ صرف بہ خوبی آگاہ ،بل کہ اس کے معترف بھی ہیں،لہٰذا انھیں مولانا کے ساتھ چلنے میں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔
اگر وہ اپنے ہم مسلک ووٹ کو اپنے حق میں نہ کرسکے، تو اس کا براہ راست فائدہ ان کے سب سے بڑے حریف عمران خان کو ہوگا،خیبر پختونخوامیں اس کا

عملی مظاہرہ بھی متعدد بار ہوچکا ہے ،دینی طبقے کی ہم دردیاں حاصل کرنے کے لیے، باوجود مکمل لبرل جماعت ہونے کے ،تحریک انصاف حکومت نے کئی ایسے اقدامات کیے ہیں، جوایک ٹھیٹھ دینی اتحاد ہونے کے باوجود،ایم ایم اے کی حکومت بھی اپنے دورِ اقتدار میں نہیں کرسکی تھی۔ان اقدامات کے ”نقد فائدے”کو دیکھتے ہو ئے تحریک انصاف الیکشن سے پہلے اس نوع کے مزید اقدامات بھی کرسکتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے