پیپلز پارٹی کی حکمت عملی کیا ہے؟

آصف زرداری کے حالیہ دعوی کہ اگلا چیئرمین سینٹ بھی ان کا ہوگا نے سیاسی حلقوں کو تذبذب کا شکار کردیا ہے، کہ کیا وہ قبل از وقت انتخابات چاہتے ہیں یا ہارس ٹریڈنگ کا بازار سجائیں گے کیونکہ صوبائی اور قومی اسمبلی کی پارٹی پوزیشن کا جائزہ لیا جائے تو یہ بیان کچھ دیوانے کا خواب سا لگتا ہے لیکن مفاہمت کے بادشاہ کے اس بیان کو دیوانے کے خواب کی بجائے، سیاسی بساط کے گرو کے طور پر لیا جارہا ہے ۔ آصف زرداری کے اس دعوے سے 2008 کا ان کا اعلان بھی یاد آگیا جب انہوں نے گورنر ہاؤس لاہور میں پارٹی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بہت جلد ایوان صدر میں جئے بھٹو کے نعرے لگیں گے۔ اس وقت کی سیاسی اور عالمی صورتحال میں یہ دعوی بھی دیوانے کا خواب لگتا تھا لیکن پھر سب نے دیکھا کہ آصف زرداری نے جو کہا وہ ہوگیا اور وہ صدر مملکت کے عہدے پر براجمان ہوئے ۔

اگر پارٹی پوزیشن کا ایک سرسری جائزہ لیا جائے تو 2015کے سینٹ انتخابات میں پیپلز پارٹی نے اپنے ہوم گراؤنڈ سندھ اسمبلی سے گیارہ میں سے سات نشتیں اپنے نام کیں جبکہ ایم کیو ایم کے حصے میں چار نشتیں آئیں ۔ گذشتہ سینٹ اتخابات میں پیپلز پارٹی اور متحدہ کے درمیان انتخابی اتحاد تھا اور زیادہ تر امیدوار بلامقابلہ منتخب ہوئے اب کہ پیپلز پارٹی پرامید ہے کہ چونکہ اس نے کچھ ضمنی انتخابات جیتے ہیں اور ایم کیو ایم کے اراکین اسمبلی کی ایک بڑی تعداد پارٹی سے ناراض ہے تو پی پی پی بارہ میں سے باآسانی نو نشتیں حاصل کرلے گی اور دسویں نشست کا بونس بھی مل سکتاہے ۔

خیبر پختونخوا سے پی پی پی ، اے این پی اور جے یو آئی ف کے اتحاد نے ایک ایک نشست اپنے نام کی جبکہ پی ٹی آئی کے حصے میں چھ نشتیں آئیں جبکہ ان کے اتحادی جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق بھی سینٹر منتخب ہوگئے

اگرچہ توقع کے مطابق 2015 میں پنجاب کی تمام نشتیں مسلم لیگ ن نے اپنے نام کیں لیکن 8 نشتیں رکھنے والی پیپلز پارٹی کے امیدوار ندیم افضل چن نے 27 ووٹ لے لئے، سیاسی گرو کہتے ہیں کہ اگر تحریک انصاف کے اراکین پنجاب اسمبلی ندیم افضل چن کو ووٹ دے دیتے تو وہ سینٹر منتخب ہوجاتے ۔ اگر اسی صورتحال کو سامنے رکھا جائے تو پی پی پی ، پی ٹی آئی اتحاد انہیں پنجاب اسمبلی سے ایک نشست کی کامیابی دلوا سکتا ہے ۔

سب سے دلچسپ صورتحال بلوچستان اسمبلی کی ہوگی جہاں گذشتہ انتخاب میں 65 کے ایوان سے 28 نشتیں رکھنے والی مسلم لیگ ن صرف تین سینٹر کو منتخب کرواسکی جبکہ نیشنل پارٹی اور پختونخوا ملی عوامی پارٹی اپنے گیارہ اور چودہ اراکین اسمبلی کے ساتھ تین تین نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب رہے ۔

پیپلز پارٹی کے اس وقت 27 سینٹرز ہیں جن میں سے اٹھارہ ریٹائر ہونے جارہے ہیں ۔ اوپر بتائی ہوئی صورتحال کے مطابق بھی پیپلز پارٹی 22 یا 23 سینٹر ہی منتخب کروا پائے گی جبکہ مسلم لیگ ن باآسانی 30 نشستیں حاصل کرسکتی ہے ۔ تحریک انصاف بھی 13 نشستیں حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔ ایسی صورتحال میں پیپلز پارٹی تحریک انصاف کی حمایت کے بغیر سینٹ میں اپنی اکثریت برقرار نہیں رکھ سکتی جبکہ اسے دیگر جماعتوں اور فاٹا کے آزاد اراکین کے ووٹ بھی درکار ہوں گے ۔ اور شائد اس ہی دن کہ لئے آصف زرداری نے سینٹ میں محض پانچ نشتیں رکھنے والی جے یو آئی ف کے مولانا غفور حیدری کو اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر ڈپٹی چیئرمین سینٹ منتخب کروایا ۔ اب دیکھنا ہو گا کہ اس اہم سیاسی موڑ پر بیک وقت حکومت اور اپوزیشن کا مزہ لینے والے مولانا فضل الرحمن اپنا وزن کس پلڑے میں ڈالتے ہیں ۔

سوال یہ ہے کہ کیا تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کا سینٹ انتخابات میں اتحاد ہوپائے گا ۔ سیاسی حلقے اس حوالے سے پر امید دیکھائی دے رہے ہیں کہ اب کی بار تحریک انصاف کو پیپلز پارٹی سے اتحاد کرنا ہی ہوگا کیونکہ اتحاد نے ہونے کی صورت مسلم لیگ ن کو باآسانی چیئرمین سینٹ منتخب کروانے کی راہ ہموار کرنا ہوگا جس کے نتیجے 2018 کے عام انتخابات کے بعد قائم ہونے والی حکومت کو مسلم لیگ ن کے مرہون منت بنانا ہوگا اور پارلیمنٹ سے کسی بھی قانون سازی کے لئے مسلم لیگ ن کی حمایت درکار ہوگی۔ ایسی صورتحال میں تحریک انصاف کے پاس زیادہ مواقع نہیں رہتے ۔

پیپلز پارٹی کی حمایت تحریک انصاف کے لئے آسان فیصلہ نہ ہوگا اور اسی لئے پاکستان کی سیاسی شطرنج کے بادشاہ کہلانے والے آصف زرداری گرینڈ اپوزیشن الائنس بنانے کے لئے سرگرم عمل ہیں تاکہ پی ٹی آئی سے دوریاں کم کی جاسکیں۔ اس گرینڈ الائنس کا نعرہ تو گو نواز گو ہوگا لیکن اس کا اصل حدف سینٹ انتخابات ہی ہوں گے ۔ یہ اانتخابی اتحاد نہیں بلکہ اینٹی گورنمنٹ الائنس ہوگا جو کہ سینٹ اور چیئرمین انتخابات میں انتخابی اتحاد کی شکل اختیار کرجائے گا۔ واقفان حال بتاتے ہیں کے گرینڈ اپوزیشن الائنس کے لئے ابتدائی رابطے مکمل ہوچکے ہیں اور پی ٹی آئی سیمت پارلیمنٹ کے اندر کی نصف درجن کے قریب جماعتوں نے امادگی ظاہر کردی ہے جبکہ پارلیمنٹ سے باہر کی جماعتیں بھی اس کا حصہ بنیں گی ۔ گرینڈ الائنس کی تشکیل کے لئے آصف زرداری کے بااعتماد ساتھی اور ماضی میں ہر بحران میں سرگرم نظر آنے والی شخصیت ہی اس بار بھی رابطہ کار کا کام کررہی ہیں۔ دبئی، استمبول اور اسلام آباد میں مختلف جماعتوں کے اہم پارٹی رہنماؤں سے ملاقاتوں کے زریعے انہیں گرینڈ الائنس میں شمولیت پر امادہ کرچکےہیں ۔

واقفان حال بتاتے ہیں کہ پیپلز پارٹی نواز شریف کو گھر بھیجنا یا قبل از وقت انتخابات نہیں چاہتی البتہ سیاسی مومنٹم کے لئے اسپیس چاہتی ہے تاکہ پنجاب اور دیگر صوبوں میں اپنا وجود ثابت کرسکے اسی لئے مفاہمت کی سیاست کو پس پشت ڈال رہی ہے ۔ گرینڈ الائنس کی تشکیل کے لئے ماہ رمضان میں باقاعدہ ملاقاتوں کا آغاز ہوگا اور پاناما جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے تک ایجی ٹیشن کا ماحول بنا چکی ہوگی جس کی بنیاد پر یہ جماعتیں عام انتخابات کے میدان میں اترنے جائیں گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے