خالی جیب کا بھاری بوجھ اور دہشت گردی

یہ ڈکیت ہیں ،یہ دہشت گرد ہیں ،یہ جیب تراش ہیں ،آخر یہ سب لوگ کون ہیں ؟کیوں یہ سب اخلاقی قدروں کو بھول کر غیر اخلاقی رویوں کو اپنائے ہوئے معاشرے میں زندہ ہیں ،کیا یہ سب ذہنی بیمار ہیں ؟ کیا کبھی ہم میں سے کسی نے یہ سوچنے کی کوشش کی کہ آخر یہ سب لوگ کون ہیں ؟کیوں یہ ایسے کام کرنے پر مجبور ہیں ؟کیوں یہ دوسروں کو تکلیف دے کر خود راحت محسوس کرتے ہیں ؟

جس ملک میں بے روزگاری عام ہو وہ معاشرہ اس طرح کے لوگ پیدا کرتا ہے ۔اس معاشرے میں دانش بکھیرنے والے نہیں ڈکیت ہی پیدا ہوتے ہیں ۔بھوک ننگ عام ہو تو پھر تعلیم یافتہ نوجوان دماغ سے نہیں پیٹ سے سوچتے ہیں ۔

پاکستان اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا اس ملک کے بانیان کا خیال تھا کہ ایک ایسی ریاست بنائی جائے جہاں اسلامی اصولوں کے مطابق سب کچھ ہو گا جہاں کوئی کسی کی حق تلفی نہیں کرے گا ،انسانی قدروں کی پاسداری کی جائے گی ،بھائی چارے اور امن وامان کی فضا قائم کی جائے گی ،خلوص محبت ،نیک نیتی کے ساتھ ملک کو ترقی کی راہوں پر گامزن کیا جائے گا

افسوس ہوتا ہے موجودہ حالات دیکھ کر کہ جن تصورات کو ذہن نشین کر کے اس ملک کو معرض وجود میں لایا گیا تھا ان کا اب کہیں نام و نشان نظر نہیں آ رہا ،ان تصورات کی جگہ لٹو پھٹو اور بھاگو غالب ہو گئے ۔جو بھی حکمران آتا ہے وہ عوام کے بارے میں نہیں اپنی اولاد کے بارے میں سوچتا ہے ۔

غریب ،غریب تر اور امیرِ ،امیر تر ہوتا جا رہا ہے ۔دولت کی طبقاتی تقسیم نے ہمارے معاشرے کی جڑیں ہلا کر رکھ دی ہیں ،دولت چند خاندانوں تک محدود ہے اور اس کے فوائد وہی سمیٹ رہے ہیں عام آدمی غربت کی چکی میں پس رہا ہے ۔پہلے تو یہ ہوتا تھا کہ روٹی مل جایا کرتی تھی دال تلاش کرنا پڑتی تھی مگرآج دال کے ساتھ ساتھ روٹی کے بھی لالے پڑے ہوئے ہیں ،امیروں نے غریبوں کے منہ سے نوالہ چھین لیا ہے ۔

کہنے کو تو ہم فلاحی ریاست کے باشندے ہیں ،مگر فلاحی ریاست کے اثار دور دور تک نظر نہیں آتے ،دوسروں کے حق پر دن دیہاڑے ڈاکہ مارا جا رہا ہے فرائض کی پاسداری نہ کر کے ملک کو تباہی کے دہانے کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔اس ریاست کو چلانے والوں کو غریب کی نہیں بلکہ اپنی فکر ہوتی ہے ۔

ہمارے ملک میں وافر مقدار میں اہل علم لوگ اس وقت بیروزگاری کی دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔جس ملک میں اہل علم طبقہ دو وقت کی روٹی کو ترس رہا ہو ،جہاں ہنرمند افراد کا ہنر پہنچاننے والا کوئی نہ ہو وہاں یہ امید کیسے کی جاسکتی ہے کہ ملک میں بسنے والے ان پڑھ طبقے کو باعزت طریقے سے دو وقت کی روٹی میسر آئے گی۔

جب نوجوان صف اول کی جامعات سے ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد نوکری کی تلاش میں دھکے کھارہے ہوتے ہیں تو ان کا واسطہ ہر طرح کی اخلاقی اور غیر اخلاقی چیزوں سے پڑتا ہے ،انہیں ہر طرح کی معاشرتی ناانصافیوں اور سماجی برائیوں سے نبز آزما ہونا پڑتا ہے ،اور اس تگ ودو میں اگر کوئی ڈگمگا کر گر جاتا ہے تو اسے اٹھانے والا کوئی نہیں ہوتا

اکثر نوجوان جنہوں نے اپنے بوڑھے ماں باپ کا سہارا بننا ہوتا ہے وہ حالات سے ہار کر نشے اور دیگر برائیوں کی طرف مائل ہوجاتے ہیں ،اور والدین کے بڑھاپے کے سہارے ان کے لیئے بوجھ بن جاتے ہیں اور جو نوجوان یہاں ہمت نہیں ہارتے وہ دہشت گردوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں اور اپنی دنیا و آخرت دونوں برباد کر دیتے ہیں۔

گزشتہ کئی برسوں سے یہی سننے کو مل رہا ہے حکومت دہشت گردی سے نمٹنے کے لیئے منصوبہ بندی کر رہی ہے مگر حکومت ان تمام حالات اور ان تمام تر وجوہات سے بے خبر اور لاتعلق نظر آتی ہے ،جو دہشت گردی کو پروان چڑھاتے ہیں۔

کہا جاتا ہے بھوک کا کوئی دین ،مذہب یا درم نہیں ہوتا ،پیٹ یہ نہیں دیکھتا کہ روٹی حلال کی ہے یا حرام کی ہے،یہ کسی نیک صفت انسان کے ہاتھوں سے آئی ہے یا کسی دہشت گرد کے ،جب گھر میں کھانے کے لیئے کچھ نہ ہو ،بچے بھوک سے بلک رہے ہوں،تو پیٹ کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کرنے کے لیئے کوئی بھی راستہ ،کوئی بھی ذریعہ غلط نہیں نظر آتا۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے سیاستدان کب تک دہشت گردی کے خاتمے کی منصوبہ بندی کا نام لے کر سیاست کرتے رہے گے ؟،کب تک بچے بھوک سے مرتے رہیں گے ؟،کب تک ہماری نوجوان نسل دہشت گردوں کے لیئے استعمال ہوتی رہے گی؟اور کون نکالے گا ملک کو اس صورتحال سے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب ایک عام محب وطن پاکستانی مانگتاہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے