کیا یہ مست توکلی کا بلوچستان ہے؟

بلوچستان میں بلوچ روایتوں پر تب سے سوال اٹھائے جا رہے ہیں جب سے غیر بلوچ لوگوں کا قتل عام شروع ہوا اور اساتذہ کو مارا جانے لگا۔ بلوچستان کی ترقی اور تعلیم میں جتنا غیر بلوچ لوگوں کا کردار رہا ہے شاید ہی کسی بلوچ نے اتنا کام بلوچ عوام اور ان کی تعلیم کے لیے کیا ہوگا۔ ا یک وقت تھا جب بلوچستان میں بلوچ، غیر بلوچ، غیر مسلم اکٹھے رہا کرتے تھے۔ نہ مذھب کی پابندی تھی نہ مسلک کا کوئی فرق۔ استاد اور خواتین کی ایسی عزت و احترام ہوا کرتا تھا جیسے کوئی آسمانی کتاب۔

پھر کچھ یوں ہوا کہ مسلک اور ذات پات کی نفرت کی ایسی ہوا چلی کہ اب تک رکے جانے کا نام نہیں لیتی۔ صوبہ سندھ کے10 مزدور اپنی روٹی روزی کمانے کے لیے گوادر گئے کہ وہ وہاں سے پیسے کما کر اپنے گھر آئیں گے اور اپنے گھر والوں کے معاشی حالات بہتر کرنے میں مدد کریں گے ۔ مگر ایسا ہونے کے بجائے ان 10 مزدوروں کو گولیاں مار کر ان کی لاشیں ان کے آبائی گاؤں بھیجی گئیں کہ اگر بلوچستان میں روزی روٹی کمانے آؤ گے تو زندہ نہیں جاؤ گے۔

اس طرح کے مزدورں کی لاشیں پہلی دفعہ سندھ میں نہیں آئی ہیں۔ اس سے پہلے بھی سندھ کے غریب مزدوروں کی لاشیں آتی رہی ہیں۔ مگر پیٹ کی بھوک شاید دھشت کی گولیوں سے نہیں ڈرتی ہے۔ بلوچستان پاکستان کا وہ صوبہ ہے جس کی سرحدیں افغانستان اور ایران سے ملتی ہیں اور بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے مگر اس کی اکثریت آبادی مالی اور معاشی لحاظ سے سرداروں کے زیر اثر رہی ہے۔

مگر بلوچستان اپنی روایتوں، پیار و محبت، اور خلوص کی داستانوں سے مالا مال ہے۔ پھر اچانک ہی دہشگردی، مذھبی انتہا پسندی اور لسانیت کی ایسی شروعات ہوئیں کہ ہزارہ برادری اور غیر بلوچ کو چن چن کے مارا جانے لگا۔ اور خون کی ایسی ہولی کھیلی جا رہی ہے جس میں نا تو بلوچ محفوظ ہیں نا ہی غیر بلوچ ۔ کہا تو یہ جا رہا ہے کہ بلوچستان میں لگی یہ آگ پڑوسی ممالک سے جلائی جا رہی ہے جس میں اب کوئی محفوظ نہیں ہے۔ اس جنگ میں قائد اعظم کی زیارت ریذیڈنسی کو بھی ان ظالموں نے نہیں چھوڑا اور نفرت کی آگ میں جلا کر رکھ دیا۔

آئے روز بم دھماکوں، قتل و غارت نے تو اب بلوچ روائتوں کو بھی غیر محفوط بنا دیا ہے ۔ دن دھاڑے مرد و خواتیں اساتذہ، شعراء اور انسانی حقوق کی علمبرداروں کو مارا جا رہا ہے۔ اور اسی ڈر و خوف سے وہ غیر بلوچ لوگ جنہوں نے کوئٹہ کو بنایا تھا وہ کوئٹہ چھوڑ کے چلے گئے۔ یقینناً اس دن بلوچستان کے درویش شاعر مست توکلی کی روح تو خوب تڑپی ہوگی۔ جس دن مذھب اور مسلک کے نام پر قتل عام کیا گیا ۔

ایک دہائی سے زائد عرصے سے بلوچستان میں قتل و غارت کا بازار گرم ہے۔ مسخ شدہ لاشوں کے انبار لگ چکے ہیں مگر امن و امان کا نام و نشان نہیں ہے۔ مار دھاڑ اور نفرتوں کا خاتمہ تو پاکستان پیپلز پارٹی کا آغاز حقوق بلوچستان بھی نہ کر پایا، نہ ہی بلوچستان میں قائم بلوچ پشتون قوم پرستوں کی حکومت۔ لیکن ابھی تک وہ نادیدہ طاقتیں بلوچستان کے امن و امان کو نظر لگائے بیٹھی ہیں۔ پاکستان کی طرح بلوچستان کے غریب عوام کو صرف اور صرف امن، پیار و محبت اور بھائی چارے کی ضرورت ہے جو ان کو صرف صوفی بزرگ مست توکلی کےفلسفے اور اپنی روائتوں سے ملے گا۔

بلوچستان کے پر خلوص اور امن پسند لوگ تو ابھی تک ڈاکٹر شازیہ کے ساتھ ہونے والے زیادتی کو بھی نہیں بھولے ہیں، نہ ہی کوئٹہ یونیورسٹی کی پروفیسر ناظمہ طالب، پروفسر صفدر کیانی، پروفیسر خورشید انصاری، پروفیسر مرزا امانت بیگ کے بہیمانہ قتل کو بھولے ہیں، نہ ہے سندھ سے آئے ہوئے روزگار کے تلاش میں ان مزدوروں کو بھولے ہیں۔ کیوں کہ یہ قتل و غارت، نفرتیں، دھشتگردی اور مذھبی انتہا پسندی کا دور دور تک بلوچ روائتوں اور لوک ادب اور صوفی فلسفے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے