تھینک یو تھینک یو، یس سر یس سر!

کل ہی ایک واقعہ پڑھنے کا اتفاق ہوا تو دل شکر گذاری کے احساسات سے لبریز ہو گیا اور یہ ادراک بھی ہوا کہ کتنی ایسی بہت سی نعمتیں ہیں جن کے لئے ہم اپنے خالق کے شکر گذار ہونا بھی پسند نہیں کرتے ۔

قصہ کچھ یوں ہے کہ ایک صاحب جو ویٹرنری ڈیپارٹمنٹ میں پروفیسر تھے نے اپنے ایک شاگرد کو ایک مزے کی بات سنائی اور کہا کہ حساس اداروں کے اہلکاروں نے ایک دن ان سے رابطہ کیا اور کہا کہ ’’امریکی خاتون سفیر کا اعلی نسل کا کتا بیمار ہے اور اس کے علاج کے لئے وہ آپ کی خدمات حاصل کرنا چاہتی ہیں، ہم نے تمام تر سیکورٹی انتظامات مکمل کر لئے ہیں اور اب آپ کے پاس آنا چاہتے ہیںَ ‘‘۔

المختصر امریکی سفیر اپنے کتے کے ہمراہ وہاں آئیں اور آگاہ کیا کہ ان کا یہ لاڈلا کتا ایک دو دن سے کچھ کھا نہیں رہا ، عجیب سا چڑچڑا اور بے زار ہو گیا ہے ، یہ کچھ کھاتا اور پیتا نہیں ہے اور اس کی نافرمانی اور بے اعتنائی ان سے برداشت نہیں ہو رہی ۔

پروفیسر صاحب نے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے خاتون کا کتا رکھ کر انھیں واپس جانے کو کہا تاہم یہ یقین دہانی بھی کروائی کہ کل تک یہ بالکل تندرست ہو جائے گا ۔

امریکی سفیر کے جانے کے بعد پروفیسر صاحب نے اپنے ایک کمدار کو ہدایت کی کہ اسے جا کر بھینسوں والے باڑے میں باندھ دیا جائے اور ساری رات بھوکا پیاسا رکھ کر اس کی چھترول کی جائے ۔کمدار نے حکم کی تعمیل کی، اگلے دن جب امریکی سفیر وٹرنیری ڈیپارٹمنٹ میں آئیں تو ان کے سامنے کتے کو پیش کیا گیا جو آتے ہی تشکر آمیز نگاہوں سے ان کی جانب دیکھتا ہوا ان کی گود میں سوار ہو گیا ،

خاتون نے نہایت استعجاب سے کتے کے ٹھیک ہو جانے کی وجہ پوچھی تو پروفیسر صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا ’’ ائیر کنڈیشنڈ روم ، اعلی پائے کی خوراک اور آپ کا بے انتہا پیار اور مہربانی پا کر یہ کتا اپنی اوقات بھول گیا تھا ، یہ خود کو مالک سمجھ بیٹھا تھا اور اپنے آقا کی پہچان فراموش کر دی تھی ، ایک دن کی بھوک پیاس اور مار پیٹ نے اسے آپ کا پھر سے شکر گذار بنا دیا ۔ ‘‘

میں سوچ رہی تھی کہ ہم روزمرہ زندگی میں معمولی سا احسان کرنے والوں کے سامنے کیسے تھینک یو تھینک یو یس سر یس سر کرتے ہیں اور اس سب میں اپنے انسانیت کے مرتبے سے گر کر اس خالق کی پہچان بھول جاتے ہیں جس نے ہمیں تمام تر نعمتیں دیں کیا ہمارے لئے سزا ضروری نہیں ؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے