رائٹ ٹو انفارمیشن لاء کسی کو یاد ہے؟

اب ایک عام شہری کسی بھی عوامی ادارے کے افسر سے سوال کر سکتا ہے۔ ہر ادارہ اپنی معلومات اپنی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرے گا۔ جو بھی سوال ہو گا اس کا جواب دینا لازم ہو گا۔۔ کہا تو یہی جا رہا ہے کہ پاکستان میں یہ ہو گا۔ کیونکہ باہر کے ممالک میں تو یہ کب سے ہو رہا ہے۔سن کے اچنھبا لگ رہا ہو گا کہ بچپن سے ہم جس سرکاری افسر اور افسر شاہی کے حوالے سے کئی ضرب المثل سنتے آئے ہیں اورجس طبقے کو یہ استثنی حاصل ہے کہ ان سے سوال نہیں کیا جا سکتا۔

ہماری نانیاں دادیاں جب دعا دیتی تو کہتی جا پت اللہ سائیں تجھے سرکاری افسر بنا دے۔ کیونکہ سرکاری افسر کے سامنے عام شہری کوچوں چرا کرنے کی بھی اجازت نہیں۔ جیسے یہ خود یس سر کے عادی ہیں ویسے ہی جی جناب اور جی حضوری اپنے لیے بھی چاہتے ہیں۔ سرکاری دفتر میں فائلوں میں غرق ، حساب کتاب کرتے ہوئے افسر سے اگر آپ پوچھیں کہ سر آپ ہمیں اپنے ڈپارٹمنٹ کے بجٹ کی تفصیلات سے آگاہ کریں یا اپنے افسران کے بیرونی دوروں کا ریکارڈ پیش کریں تو یقینا وہ آپ کو ایسے دیکھے گا جیسے آپ نے اس کے موبائل کی کنٹیک لسٹ یا تنخواہ پوچھ لی ہو۔ ان دنوں ایسے طبقے کو لائن پر لانے کے لیے پاکستان میں معلومات تک رسائی بل کا ڈھول پیٹا جا رہا ہے۔

رائٹ ٹو انفارمیشن، Access to information، یا فریڈم آف انفارمیشن لا نام جو بھی ہو پوری دنیا میں اس کا کام ایک ہی ہے یعنی معلومات عوام کی دسترس میں ہو۔ اقوام متحدہ کے چارٹر کے مطابق معلومات تک رسائی انسان کا بنیادی حق ہے اور تمام ممبر ممالک پابند ہیں کہ وہ اپنی شہریوں کو معلومات تک آزادانہ رسائی کو ممکن بنائیں۔ معلومات تک رسائی کے حق کو سب سے پہلے سویڈن نے 1766 میں قانون کے طور پر منظور کیا۔ 2013 تک تقریبا 95 ممالک نے فریڈم آف انفارمیشن کاقانون منظور کیا۔

اگر ہم ایشیاکی بات کریں تو 49 ممالک میں صرف 15 ممالک میں معلومات تک رسائی کو قانونی حیثیت حاصل ہے۔خوش قسمتی سےان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے۔2002 میں پہلی بار معلومات تک رسائی بل مشرف دور میں پیش کیا گیا۔ پھر جمہوری حکومتوں نے اس بل سے آمریت کا ٹھپا ہٹا کر اپنی اسٹمپ لگانی شروع کر دی۔ پیپلز پارٹی نے من پسند ترامیم کرکے اس بل کو اسمبلی میں پیش کیا۔

ن لیگ حکومت آئی تو اپنا تیار کردہ مسودہ پیش کرنے کا اعلان کیا۔بل پیش ہونے کے 15سال کے بعد بھی ابھی تک معلومات تک رسائی بل کو آئینی و قانونی حیثیت کے باوجود قابل عمل نہیں بنایا جا سکا۔ بل پیش کرنے والی ہر حکومت بھولی عوام کو باور کراتی ہے کہ معلومات تک رسائی بل سے کرپشن اور انسانی حقوق کی معلومات کو خفیہ نہیں رکھا جا سکے گا اور تمام سرکاری ادارے عوامی مفادسے متعلق معلومات کو پبلک کرنے کے پابند ہو نگے۔ تمام شخصیات کو ملنے والی زمینوں ، پلاٹس ، مراعات ، الائونسز کے بارے میں بھی پوچھا جا سکے گا اور متعلقہ ادارے اس قسم کی تمام معلومات کو ظاہر کرنے کے پابند ہوں گے ۔شہریوں کوحراست میں رکھنے ، انہیں عقوبت خانون میں لے جانے یا گھروں سے اٹھانے کے واقعات کی بھی آگاہی دینا ضروری ہوگا۔پبلک مقامات کی سی سی ٹی وی ویڈیو درخواست دینے پر شہریوں کو فراہم کی جاسکے گی۔

اگر کوئی ادارہ معلومات نہیں دے گا تو درخواست گزار تین رکنی بااختیار قومی کمیشن کو شکایت کر سکے گا، یہ کمیشن ریٹائر بیوروکریٹ، ریٹائر جج اور سول سوسائٹی کے رکن پر مشتمل ہوگا۔اس کمیشن کے اراکین کو وزیراعظم بھی نہیں ہٹا سکیں گے۔ اراکین کی معطلی کا اختیار صرف پارلیمنٹ کو ہوگا، تاہم ملکی مفادات اور معیشت کو نقصان پہنچانے والی معلومات ظاہر نہیں کی جاسکیں گی۔یہی نہیں بلکہ ملکی دفاع اور سیکیورٹی سے متعلق معلومات ظاہر نہیں کی جاسکیں گی۔

لیکن یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ حال ہی میں وزارت داخلہ نے کرایہ دار کا ڈیٹا متعلقہ تھانوں میں جمع کرانے کا آرڈر جاری کیا تو تھانوں میں فارمز اور درخواستوں کے ڈھیر لگ گئے ہیں لیکن تھانوں میں ڈیٹا منیجمنٹ کا کوئی نظام ہی نہیں اور نہ ہی ان کو وسائل فراہم کیے گئے ہیں۔ اب اگر ہم دنیا بھر سے معلومات تک رسائی ایکٹ کے ثمرات دیکھیں تو سب سے پہلے پڑوسی ملک بھارت کی بات کرتے ہیں جہاں پچیس سال کی قانونی جنگ کے بعد2005 میں فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ نافذ ہوا۔ جس کے بعد اب تک سٹیٹ اور انفارمیشن کمیشن کو بیس لاکھ سے زیادہ درخواستیں موصول ہو چکی ہیں۔ لیکن اس پر تنقید یہ ہے کہ معلومات کے چھپانے پرکسی کو سزا نہیں ملی۔

کونسل آف یورپ کی معلومات تک رسائی کی کنونشن نے یورپ میں ماحولیاتی معلومات کع معلومات تک رسائی بل کا اہم حصہ قرار دیاہے۔ فروری 2007 میں یو کے انفا رمیشن کمیشن نے فریڈم آف انفارمیشن ایکٹ کے تحت اراکین پارلیمنٹ خاص طور پر وزیر اعظم گورڈن برائون اور ٹونی بلئیر کے بے جا سفری اخراجات کی ریلیز پر سماعت کی۔امریکا میں سول رائٹس گروپس نے معلومات تک رسائی ایکٹ کے تحت سزائے موت کے قیدیوں کا ڈیٹا پبلک کرنے کا مطالبہ کیا۔ میکسیکو میں معلومات تک رسائی کے قانون کے تحت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ریکارڈز کئی بار کھلوائے جا چکے ہیں۔

اس کے علاوہ دنیا بھر میں معلومات تک رسائی بل طاقت کے بے جا استعمال کے سدباب، سروسز کی بہتر فراہمی اور پبلک ہیلتھ اینڈ ویلفئیر کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ اب اگر ہم پاکستان کے حوالے سے بات کریں تو مجوزہ بل کے حوالے سے کئی تحفظات، خدشات اور امکانات ایک عام شہری کی سمجھ سے بالاتر ہیں۔ مثلا موجودہ معلومات تک رسائی بل کتنا پریکٹیکل ہے؟؟ اور موجودہ حالات میں جبکہ ملک میں پاناما کیس چلتا ہی جا رہا ہے۔ کرپشن ، منی لانڈرنگ اور معلومات چھپانے کا شور ایک پارٹی سے دوسری پارٹی تک پہنچ گیا ہے۔ ایسے میں یہ بل عام شہری کے لیے کتنا قابل عمل ہو گا؟کیا یہ بل ہمارے سرکاری اداروں میں ہر چیز کو خفیہ رکھنے کی روایتی سوچ کو تبدیل کر پائے گا؟ کیا حکومت نے بل پیش کرنے سے پہلے کوئی لائحہ عمل یا سسٹم بنایا ہے جس کے ذریعے اس بل کو قابل عمل بنا یا جا سکے؟ متعلقہ افسران اور انفارمیشن کمیشن کیسے کام کرے گا اور ان کا دائرہ کار کیا ہوگا۔

ایک ایسا ملک جہاں محمود الرحمن کمیشن رپورٹ، سانحہ ماڈل ٹاون ، ایبٹ آباد کمیشن رپورٹ اور ڈان لیکس رپورٹ پبلک ہوئیں نہیں تو اس بل کے ذریعے عام شہری کو معلومات تک رسائی کیسے ممکن ہو گی؟وفاق یا سینٹ سے بل کی منظوری اس وقت تک سود مند نہیں ہو سکتی جب تک کہ صوبائی حکومتیں اس کو نافذ العمل نہ بنائیں ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ سندھ اور بلوچستان میں کرپشن کا بازار گرم ہے لیکن وہاں یہ بل منظور نہیں ہوا ۔ جبکہ خیبرپختونخواہ حکومت پر تنقید کرنے والوں کو یہ بھول جاتا ہے کہ خیبرپختونخواہ حکومت نے سب سے پہلے معلومات تک رسائی بل منظور کیا اور پاکستان میں اب تک کا سب سے بہترین ماڈل ہے ۔

معلوما ت تک رسائی بل پر ناقدین کا یہ بھی اعتراض ہے کہ انفارمیشن کمیشن کے نام پر ایک اور کمیشن تشکیل کرنے کی تیاری ہے۔ جس کے بعد بندر بانٹ اور مراعات کا ایک اور سلسلہ جاری ہو جائے گا۔ ایک مجبور و لاچار جس کا کام صرف نظر رکھنا یا درخواست کرنا ہے۔ وزیر اعظم اس کے ممبرز اپوائنٹ کریں گے تو پھر یہ کمیشن با اختیار کیسے ہو گا؟ سب سے بڑا اعتراض یہ اٹھا یا گیا ہے کہ موجودہ بل کی شق 16 اے کے مطابق سرکاری ادارہ ایسی کوئی بھی معلومات فراہم کرنے سے انکار کر سکتا ہے جو حساس اور مثتثنی معلومات کے زمرے میں آتی ہو یا ایسی معلومات جو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے مفاد یا بین الاقوامی تعلقات کو نقصان پہنچانے کا باعث ہو ۔ کیا اس شق کو جواز بنا کر سرکاری افسر معلومات فراہم کرنے سے انکار نہیں کرے گا؟

لیکن پیوستہ رہ شجر کے مترادف ان تمام شکوک و شہبات کو دور کرتے ہوئے اگر نواز حکومت اس بل کو نافذ العمل بنا نے میں کامیاب ہو جائے گی تو یقینی یہ اس کی بڑی کامیابی ہو گی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے