نذیر انجم،کمالِ نُطق سے قرضِ سُخن اُتار دیا

شاعری کا تعلق لطیف جذبات سے ہے۔شعراء بڑی بڑی ثقیل باتیں لطیف پیرائے میں بیان کرتے ہیں۔ شعرا کے کلام پر تبصرہ سخن شناس لوگوں کو ہی ذیبا ہے ۔میرے جیساایک طالبِ علم، کسی شاعر کے کلام پر تبصرہ لکھے تو تبصرے کا حق کیونکر ادا ہوسکتا ہے مگر بعض شعراء کا کلام ایسا دل موہ لینے والا ہوتا ہے کہ اُس کے حوالے سے اپنے جذبات اور احساسات کو الفاظ کا روپ دیے بِنا نہیں بنتی۔ میری یہی کیفیت کلیاتِ نذیر انجم بعنوان ’قرضِ سُخن‘ کا مطالعہ کرکے ہوئی۔

نذیر انجم مرحوم،خدا اُنھیں غریقِ رحمت کرے، اسمِ با مسمٰی تھے،جب میں اُن کی شاعری پڑھتا ہوں،اُن کی سوچ اور خیالات سے واقف ہوتا ہوں تو میرا دل چاہتا ہے اُنھیں ’تھے‘ کہ بجائے’ ہیں ‘لکھوں،کہ نذیرِ انجم جیسے لوگوں کا کام او ر کلام ہمیشہ بولتا رہتا ہے اور اُن کے امر ہونے پر دلالت کرتا رہتا ہے۔ نذیر انجم نے تقسیمِ جموں کشمیر سے ایک سال قبل اولیا کی دھرتی میرپور کے قصبے اکال گڑھ کو شرفِ پیدائش بخشا۔زمانہء طالبِ علمی میں اپنے وطن جموں کشمیر کی آزادی کی دیوی کی ذلفوں کے اسیر ہوگئے، طلباء سیاست کے میدان میں وطن دوستوں اور ترقی پسندوں کی صفوں میں نمایاں رہے، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں مگر کوئی خوف اُنھیں حرفِ حق کہنے سے باز نہ رکھ سکا۔

درس و تدریس کے پیشے سے وابستہ ہو کر عملی زندگی میں قدم رکھا،اپنے شعر کہنے کی خدادا صلاحیتوں اور خوبصورت افکار کی وجہ سے نامور شعراء اور ادیبوں میں نمایاں ہوگئے۔ بلا مبالغہ اگر ہمارے خطے میں کسی کو زمین کا نمک کہا جائے تو نذیر انجم جیسے لوگ ہی جھٹ سے اس معیار پر پورا اُترتے دکھائی دیتے ہیں۔ میری طرح ہزاروں ہوں گے جن کے لئے پروفیسر نذیر انجم کا پہلا تعارف اُن کے یہ اشعار ہوئے ہوں گے:

ظلم کو امن، عداوت کو وفا کہتے ہیں
کیسے نادان ہیں صرصرکو صبا کہتے ہیں

میرے کشمیر! ذرا جاگ کہ کچھ جاہ طلب
غیر کو تیرے مقدر کا خدا کہتے ہیں

نذیر انجم کے یہ اشعار میں نے لڑکپن میں پڑھے تھے، پھر کچھ اور اشعار بھی پڑھنے کو ملے مگرشاعری کا کوئی مجموعہ نہ مل پایا۔ میرا تواُن سے تعارف محض ایک شاعر اور قاری کا بھی بخوبی نہ رہا، اتنی میری قسمت کہاں کہ مجھے نذیر انجم جیسے بڑے لوگوں سے شرفِ ملاقات حاصل ہوتا۔ نذیر انجم چند سال قبل عدم کو سدھار گئے، یقین جانیئے میں اُن سے بہرصورت ملنا چاہتا اگر اُن کی زندگی میں ’قرضِ سُخن‘ مجھے مطالعہ کے لئے دستیاب ہوجاتی۔

پانچ سو گیارہ صفحات پر مُشتمل اُن کی خوبصورت شاعری کی یہ کتاب چھاپنے کا اعزاز وطن دوستی کی پاداش میں آئے روز عتاب کا شکار ہونیوالے سعید اسعد کے ادارے ’نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف کشمیر اسٹڈیز‘ (نکس) کو حاصل ہوا ہے۔ ’قرضِ سُخن‘ کے مطالعے نے میری بہت سی غلط فہمیاں دُور کی ہیں اور مجھے اپنی اس رائے پر نظرثانی پر مجبور کیا ہے کہ’ برصغیر کے دیگر خطوں میں بہت بڑے شعراء ہوگزرے ہیں اور ہمارے ہاں اُس پائے کے شعراء پیدا نہیں ہوئے‘۔ ’قرضِ سُخن‘ کا آپ جو بھی صفحہ کھولیں اور جو بھی غزل اور نظم اُٹھا کر دیکھ لیں ،اُسے پڑھے بغیر ورق اُلٹنے کوآپ کا جی نہیں کرتا۔

نذیر انجم نے روایتی شعراء کی طرح لب و رُخسار کے قصے بیان نہیں کیے ہیں،اُن کی شاعری کا حرف حرف اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ وہ ادب برائے ادب کے قائل نہیں ہیں بلکہ مقصدیت ہی اُن کا شعار ہے۔اُن کے کلام میں انسانیت کا درد جھلکتا ہے ،اُنھوں نے انسانوں کی محکومی اور محرومی کو موضوعِ سُخن بنایا ہے۔ شائد مجھے محض ’قرضِ سُخن‘ پڑھ کر نذیر انجم صاحب کی زندگی کے حوالے سے زیادہ جانکاری نہ ہو پاتی مگر بھلا ہو قمر رحیم کا کہ اُنھوں نے نذیر انجم اوراُن کے آزادی پسندساتھیوں کی جدوجہد کو ’آزادی کا سفر‘ کے نام سے ایک ناول کی صورت میں لکھ کر مجھ جیسے لوگوں کی اس حوالے سے تشنگی خوب مِٹائی ہے۔ جنابِ قمر رحیم کی تصنیف ’آزادی کا سفر‘ الگ سے تبصرے کی متقاضی ہے مگر غمِ روزگار نے موقع نہ دیا اور اگر کبھی کچھ لکھنے کی فُرصت ملی بھی تو یہ سوچ آڑے آئی کہ میں اور قمر رحیم ایک دوسرے کے حوالے سے کتنے آرٹیکلز لکھیں، آخر خطے کے دوسرے لکھاریوں کا بھی ہم پر حق ہے کہ ہمارے قلم اُن کے حوالے سے بھی اُٹھیں۔

قمر رحیم کی تصنیف ’آزادی کا سفر‘ بھی اُن کتابوں میں شامل ہے جن پر پاکستانی زیرِ انتظام کشمیر میں پابندی عائد کی گئی ہے۔ ہمارے ہاں آئے روز کتابوں پر عائد کی جانیوالی پابندیاں باعث صد تشویش ہیں ۔ معاشرے کے تمام اہلِ علم ، دانشوروں، طلباء سیاسی کارکنان اور قوم پرور سیاسی جماعتوں کو ان پابندیوں کے خلاف بھرپور طریقے سے آواز اُٹھانی چاہیے۔ بات دُور نکل گئی،مجھے تو یہاں محض قمر رحیم کا شکریہ ادا کرنا تھا کہ اُنھوں نے ’آزادی کا سفر‘ لکھ کر میرے جیسے لوگوں کے لئے ’قرضِ سُخن‘ کو اور معتبر کردیا اور یہ باور بھی کروایا کہ نذیر انجم محض ایک اعلیٰ پائے کے ترقی پسند شاعر ہی نہیں تھے بلکہ فیض احمد فیض کی طرح میدانِ عمل میں ڈٹے رہنے والے ایک انقلابی تھے ۔

نذیر انجم اپنی آخری عمر تک اپنی تحریر و تقریر کے ذریعے آزادی کے گیت گاتے رہے اور غاصبوں کو للکارتے رہے۔اُن کی وفات کے بعد میں نے سوشل میڈیا پر وائرل ہونیوالی اُن کی ایک تقریر سُنی تو بے اِختیار میرے منہ سے نکلا،’ہائے کیا لوگ تھے جو دامِ اجل میں آئے‘۔تقسیم جموں کشمیر کے وقت کونسے پڑوسی مُلک کا کیا طرزِ عمل رہا اور ریاست کو ہتھیانے کے لئے کون کون سے حربے استعمال کیے گئے،جب وہ ساری تاریخ نذیر انجم اپنی زبان سے بیان کرتے ہیں تو تب میرے جیسے عامیوں کی سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ نذیر انجم کس جُرم کی پاداش میں بار بار جیلوں کی ہوا کھاتے رہے۔ مجھے کہنے دیجیئے کہ جس نے نذیر انجم کی شاعری نہیں پڑھ رکھی اُس کا ہمارے ہاں پیدا ہونیوالے بڑے شعرا کا تعارف اُدھورا ہے۔

’قرضِ سُخن‘ میں قدرت اللہ شہاب،حبیب جالب ،محسن بھوپالی ،امجد اسلام امجد جیسے بڑے شعراء اور ادیبوں نے پروفیسر نذیر انجم کی شاعری کو جن الفاظ میں شرفِ پذیرائی بخشا ہے ،وہ الفاظ پڑھ کر ایک قاری سوچتا ہے ، ہمارے خطے کے حوالے سے کس قدر جھوٹ پھیلایا گیا ہے کہ یہ خطہ تحریر و تخلیق کے حوالے سے کوئی بانجھ خطہ ہے۔نذیر انجم جیسے شعراء کی شاعری پڑھنے کے بعد یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ شعر کا بھی نزول ہوتا ہے۔

میری دیانت دارانہ رائے ہے کہ ایسی شاعری ہمارے نصاب کا حصہ ہونی چاہیے۔ میری مختصر سی لائبریری میں موجود کتابوں میں سے وہ کتابیں جن کا میں ہرروز مطالعہ کرکے بھی بور نہیں ہوتا اُنھی میں سے ایک ’قرضِ سُخن‘ بھی ہے۔ میں آئے روز سوشل میڈیا پر نذیر انجم کے خوبصورت اشعار پوسٹ کرتا رہتا ہوں،میں نے چاہا کہ اس آرٹیکل کو بھی اُن کے چند اشعار سے مزین کرپاوں مگر اس کیفیت سے دوچار ہوکر ایسا نہیں کرپایاکہ کونسا شعرلکھوں اور کونسا چھوڑوں! لکھنے کا حق تو بس نذیر انجم جیسے لوگوں نے ادا کیا ہے، وہ خود ہی کس قدر بجا کہہ گئے ہیں:

بیاں کو لوچ تو لہجے کو اعتبار دیا
کمالِ نُطق سے قرضِ سُخن اُتار دیا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے