عہدے پر رہنے کا کوئی اخلاقی جواز نظر نہیں آتا: آئی جی سندھ

حیدرآباد: انسپکٹر جنرل (آئی جی) سندھ پولیس اللہ ڈنو خواجہ کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت کی جانب سے ان کی خدمات وفاق کے حوالے کرنے کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد انہیں صوبے کے پولیس سربراہ کا عہدہ سنبھالنے کا کوئی اخلاقی جواز نہیں دکھائی دیتا۔

حیدرآباد کے ایک نجی اسکول کے پروگرام میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اے ڈی خواجہ کا کہنا تھا کہ ‘جب تک میرے اور سندھ حکومت کے تعلقات خوشگوار رہے میں پولیس اصلاحات کے حوالے سے متعین ٹارگٹ کے حصول میں کامیاب رہا تاہم اب جبکہ حکومت کی جانب سے میری خدمات کی واپسی کا فیصلہ لیا جاچکا ہے میرے لیے ان کاموں کو مکمل کرنا مشکل ہوگا جن کا میں نے آغاز کیا تھا’۔

آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ وہ اپنا بیان عدالت میں جمع کراچکے ہیں جس میں درخواست کی گئی ہے کہ حکومت کو اپنی مرضی کے آئی جی کی تقرری کی اجازت دی جائے کیونکہ یہ درحقیقت حکومت کی صوابدید ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کے حکومت سے کبھی اختلافات نہیں رہے اور نہ مستقبل میں رہیں گے، ‘سندھ کے ایڈووکیٹ جنرل کا بھی عدالت کے سامنے یہی کہنا تھا کہ میرے حکومت کے ساتھ بحیثیت آئی جی کوئی تعلقات نہیں جبکہ کابینہ بھی فیصلہ لے چکی ہے لہذا اخلاقی طور پر کام جاری رکھنا مشکل ہوگیا ہے’۔

اے ڈی خواجہ کے مطابق کوئی آئی جی حکومتی مدد کے بغیر ادارے میں اصلاحات کا عمل مکمل نہیں کرسکتا تاہم انہوں نے ایک سال کے دوران طے شدہ ٹارگٹ میں 80 فیصد کامیابی حاصل کی، جبکہ بقیہ انتظامی امور پر مشتمل 20 فیصد کام مختلف وجوہات کی بنا پر ممکن نہیں ہوسکے۔

انہوں نے ان رپورٹس کو بھی مسترد کیا جن میں کہا جارہا ہے کہ وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی جانب سے انھیں کسی عہدے کی پیشکش کی گئی ہے اور انھیں سندھ کی حکمراں جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔

اے ڈی خواجہ نے کہا کہ ‘ایسا کچھ نہیں ہے، کسی نے میری ایف آئی اے میں تقرری سے متعلق کوئی بات نہیں کی، کوئی بھی اہل اور ایماندار افسر خود کو کسی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے سکتا’۔

ان کا کہنا تھا کہ صرف تاریخ اس بات کا فیصلہ کرے گی کہ میں سندھ پولیس میں قابل ذکر بہتری لانے میں کامیاب ہوسکا یا نہیں، آزادی کے بعد تاریخ میں پہلی بار پولیس میں میرٹ کی بنیاد پر تقرریاں ہوئیں، اہلکاروں نے فوج سے تربیت حاصل کی اور پولیس کا مورال بلند کرنے والے پروگراموں اور بہتر ٹیکنالوجی کی مدد سے تحقیقات کا معیار اچھا ہوا۔

اے ڈی خواجہ کا کہنا تھا کہ پولیس افسر کی حیثیت سے وہ کبھی ناامید نہیں ہوئے اور انہیں امید ہے کہ عدالت بھی ایسا فیصلہ کرے گی جس سے سندھ پولیس مزید بہتر ہوسکے۔

انہوں نے کہا کہ سندھ میں امن و امان کی بہتری کا کریڈٹ مشترکہ طور پر سندھ پولیس، پاکستان رینجرز، فوج اور سول سوسائٹی کو جاتا ہے۔

اے ڈی خواجہ نے نورین لغاری کیس میں پنجاب پولیس کے ساتھ بھی کسی رسمی رابطے کی خبروں کی بھی تردید کی۔

اس سے قبل اسکول کے سالانہ پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ طالب علموں کو غیرنصابی سرگرمیوں پر دھیان دینا چاہیئے، ساتھ ہی انہوں نے لڑکیوں کو سوشل میڈیا کا استعمال ذمہ داری سے کرنے کی تجویز بھی دی۔

اس حوالے سے نورین لغاری کا حوالہ دیتے ہوئے آئی جی سندھ کا کہنا تھا کہ نورین نے گمراہ ہو کر غلط راستے کا انتخاب کیا جس سے ان کے والدین اور سندھ متاثر ہوئے۔

اے ڈی خواجہ نے کہا کہ ‘اگر آپ کو کبھی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑے تو ہمت نہ ہاریں، جو لوگ محنت سے کام کرتے ہیں انہیں ہمیشہ مخالفت کا سامنا کرنا پڑتا ہے’۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے