جالب امر ہوگیا

عوامی اور انقلابی شاعر حبیب جالب ساری عمر آمریت جبر و استحصال کے خلاف علم
بغاوت بلند کرتے رھے اس راہ میں تمام تر تکالیف اور مصائب برداشت کرتے رھے۔

ایوب دور کا ذکر ھے مری کے ایک مشاعرے میں جہاں اعلیٰ سول اور فوجی افسران سامعین تھے جالب جیب سے دستور نظم سنانے لگے تو سید ضمیر جعفری مرحوم نے جالب کا ھاتھ پکڑتے ھوئے درخواست کی جالب یہ موقع نہیں ،جالب نے ضمیر جعفری مرحوم کا ھاتھ جھٹکتے ھوئے جواب دیا میں موقع پرست نہیں ۔

واقعی جالب موقع سے فائدہ اٹھانے کے فن سے نابلد تھا آج کامیاب صحافی اور دانشور حکومت وقت سے فائدے اٹھانا اپنے فرائض
منصبی کا اھم جزو گردانتے ھیں ۔باقی انسانوں کی طرح جالب اپنے بچوں اور آنے والی نسلوں کا بہتر مستقبل چاہتا تھا، سرکاری ملازمت کے دروازے جالب پر بند تھے اور نامور وکیل اور کاروباری دوست جالب کو استعمال کرنا تو جانتے تھے لیکن جالب کی ضروریات پوری کرنے سے قاصر تھے ۔

میاں محمود قصوری محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابی مہم میں جالب کو پاکستان کے طول وعرض میں لئے پھرتے تھے لیکن جالب کو فکر معاش سے آزاد نہ کرسکے۔

جالب کی خواہش تھی کہ اسکا بیٹا ناصر وکالت کا پیشہ اختیار کر ے لیکن قید و بند کی صعوبتیں اور گھر کے آنگن میں پھیلی غربت اسکی معصوم خواہشوں کا مزاق اڑا رھی تھی جالب کی وفات کے بعد جالب کی اولاد گھریلو ذمے داریوں کے بوجھ تلے دب گئی ۔

ناصر جالب نے اپنے بیٹے امر جالب کو دادا کی خواہش کے مطابق پڑھایا، میری خوشی کی انتہا نہ رھی جب میرے دوست اور ممبر پنجاب بار کونسل جمیل اصغر بھٹی نے اطلاع دی کہ کل امر جالب کو وکالت کا لائسنس جاری کیا جائے گا۔

اس پر مسرت موقع پر جالب کے پوتے امر نے بتایا کہ وہ ناصرف دادا کی خواہش پر وکیل بنے ھیں بلکہ جالب کی سوچ کے مطابق غریبوں اور پسے ھوے طبقات کا کیس مفت لڑا کرے گا۔

ناصر جالب کی گفتگو سنتے ھوئے مجھے یہ خیال آیا کہ جو صحافی اور دانشور اپنے بچوں کے بھتر مستقبل کے لئے اپنا قلم حکمرانوں کے پاس گروی رکھواتے ھیں وہ تاریخ میں امر رھنے کو ترجیح نہیں دیتے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے