خوش فہم کو ہیں ”پاناما ”سے اُمیدیں

ٓٓ”میں”آخری وقت تک یہی سمجھتا رہا کہ رضیہ اُس کی ہے۔اور رضیہ کے حوالے سے ”میں”سارے مشورے اور رہنمائی ”شیطان” سے لیتا رہا۔ ”شیطان”بصد خلوص اسے رضیہ کا دل جیتنے کے لیئے نت نئے مشوروں سے نوازتا تھا۔ لیکن کب ”شیطان” رضیہ کو لے اُڑا ”میں”کو پتا ہی نہ چلا۔ آج کل کے سیاسی کینوس پر بکھرے رنگ دیکھ دیکھ کر مجھے ”شیطان”کا خیال آتا ہے۔شفیق الرحمن کو پڑھنے والے شیطان ، میں اور رضیہ سے بخوبی واقف ہیں۔ لیکن میں جانتا ہوں میرے اس کالم کے بعد کوئی شفیق الرحمن کو اس طرح نہیں پڑہے گا جس طرح پاناما کے بیس سال تک یاد رہ جانے والے فیصلے کے بعد لوگوں نے گاڈ فادر دیکھی۔اور میرا قیافہ کہتا ہے کہ تین چار بار میاں صاحب نے خود بھی دیکھی اور اردو میں ڈب کی ہوئی دیکھی ہے۔میاں صاحب کے مزاج شناس تائید کریں گے کہ اب میاں صاحب اپنے تئیں گاڈ فادر ہی ہیں۔

ایک موقع پر گاڈ فادر اپنے بیٹے کو سرزنش کرتے ہوئے کہتا ہے کبھی کسی کو مت پتا چلنے دو کہ تم اپنے فیملی بزنس کے بارے میں کیا سوچ رہے ہو۔یہ لائین آج کل میاں صاحب کی پسندیدہ ہے۔ میاں صاحب ہمیشہ سے فلموں، ڈائیلاگز ، اداکاروں اور موسیقی کے مداح ہیں۔رنگیلا مرحوم کی ایک دو فلموں میں طبع آزمائی بھی فرما چکے ہیں۔( بار ثبوت ہمائیوںگوہر صاحب پر)۔لیکن میاں صاحب کے علاوہ بھی بہت سے کیریکٹرز اب لاشعوری طور خود کو گاڈ فادر ہی سمجھنے لگ گئے ہیں۔ان کی نشست و برخاست اور گفتگو سے صاف چھلک رہا ہے۔

یہ گاڈ فادر کیوں بنتے ہیں؟خصوصا ہمارے ہاں۔کیوں کہ ہم بناتے ہیں۔ہم میں میڈیا بھی شامل ہے۔میڈیا کی کوریج بند ہو جائے تو اسی فیصد لگنے والی سرکسیں اپنی موت آپ مرجائیں۔ لیکن بہت کامیابی سے چل رہی ہیں۔ہر میدان میں ہمیں گاڈ فادر چاہئیے۔ مذہبی معاملات میں پیروں فقیروں اور مرشد کی شکل میں ۔اور باقی دنیاوی معاملات میں بھی کوئی نہ کوئی چمچہ ہم گاڈ فادر بنا کر رکھتے ہیں۔ کسی چھوٹے سے محلے میں بھی کوئی نہ کوئی کھڑپینچ مل جاتا ہے۔کیا ہم ذہنی طور پر غلام ہیں۔ کیا ہم تن آسانی کی آخری حدوں پر ہیں ؟ نہیں ہم ذہنی اور اخلاقی پستی کی حدوں سے بھی پار ہو چکے ہیں۔ہم شخصیت پرست بھی ہیں اور گراوٹ کی انتہائی بلندیوں پر ہیں۔

ٍ نبی کریم رسول اکرم اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے ” اللہ تعالی فرماتے ہیں میں اللہ ہوں۔ میرے سوا کوئی معبود نہیں بادشاہوں کا مالک ہوں اور بادشاہوں کا بادشاہ ہوں۔ بادشاہوں کے دل میرے ہاتھ میں ہیں۔میرے بندے جب میری اطاعت کرتے ہیں میں ان کے بادشاہوں کے دل ان کی طرف رحمت اور شفقت سے متوجہ کردیتا ہوں اور بندے جب میری نافرمانی کرتے ہیں میں ان کی طرف بادشاہوں کے دل غصہ اور انتقام سے متوجہ کردیتا ہوں سو وہ انہیں سخت عذاب چکھادیتے ہیں اس لیئے خود کو بادشاہوں پر بددعا میں مشغول نہ کرو بلکہ خود کواللہ کے ذکر میںمشغول کرو تاکہ میں تمہیں تمہارے بادشاہوں کے مظالم سے محفوظ رکھوں.”(مشکوة) ایک اور جگہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ” اعمالکم عمالکم” یعنی جیسے تمہارے اعمال ویسے تمہارے حکمران۔ اورسورة الشوریٰ میں باری تعالی کا ارشاد ہے ”اور تمہیں جو کوئی مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے اپنے ہاتھوں سے کیئے ہوئے کاموں کی وجہ سے پہنچتی ہے اور بہت سے کاموں سے تو وہ درگزر ہی کرتا ہے”۔

ہمارے حکمران ڈاکو ہیں۔ ہمیں لوٹ کر کھا گئے ہیں۔ یہ آوازیں لگا لگا کر ہمارے گلے رندھ گئے ہیں۔لیکن ہم سب اپنی اپنی جگہ ایک ڈاکو ہیں۔حسب تو فیق ، حسب استطاعت۔ جس کا جہاں اور جتنا ہاتھ پڑ رہا ہے۔ وہ موقع جانے نہیں دے رہا۔ حکمرانوں کی لوٹ مار کے خلاف ہم جلسہ کرتے ہیں ۔ اور اسی جلسے میں جہاں داﺅ لگتا ہے خود بھی لوٹ مار کرتے ہیں۔ زیادہ پرانی بات تو نہیں ۔ گجرانوالہ میں حکمرانوں کی کرپشن کے خلاف مظاہرہ تھا ۔مظاہرین نے پیپسی کا ٹرک لوٹ لیا تھا۔۔ جتنی اوقات تھی اس کے مطابق ۔ حکمرانوں کی جتنی پہنچ ہے وہ اس کے مطابق ۔

آئیے کوشش کرتے ہیں کہ حکمرانوں پر چلانے کے بجائے اور صرف دوسرے کو برا کہنے اور ثابت کرنے کے بجائے ذرا اپنے گریبان میں جھانکیں۔ حکمرانوں کا احتساب ذرا موئخر کر دیتے ہیں۔ پہلے اپنا احتساب کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہماری گلیوں میں خدا ترس لوگوں نے پانی کے کولر نسب کر کھے ہیں لیکن ہمارا کردار ان کے گلاسوں کے ساتھ بندھی زنجیریں بتا دیتی ہیں۔ ہماری مسجدوں کے تالے آذان سے چند منٹ پہلے کھلتے ہیں اور نماز کے بعد دوبارا لگ جاتے ہیں۔ اور مسجدوں کی لیٹرینوں میں لوٹے آہنے زنجیروں کے ساتھ باندھے ہوئے ہیں۔ یہ ہے ہماری حالت اور ہمارا کردار۔اور ہم للکارتے ہیں امریکہ کو اور یوروپ کو۔ جو تعلیم اور اخلاق میں ہم سے بہتر ہیں۔ میں نے ملائشیا میں کسی ایک آدمی کو بھی اپنے دفتر میں موجود ٹیلیفون کا ذاتی استعمال کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔ کو ئی دیکھنے والا بھی نہیں لیکن ذاتی فون وہ دفتر سے نکل کر پبلک بوتھ سے کرتے ہیں یا اپنے موبائل سے۔

بم دھماکے ، قتل و غارت گری،قسم قسم کی عجیب و غریب بیماریاں، رزق میں بے برکتی،بحران ہی بحران،اپسی اختلافات اور کفر کے فتوے، ظالم اور کرپٹ حکمران، اپنے ہی محافظوں کی ڈکیتیاں ، آسمان سے باتیں کرتی مہنگائی یہ سب ہمارے برے اعمال کا نتیجہ ہیں۔ یاد رکھیئے اللہ کریم ہے اور منصف ہے۔ اس کے ہاں نا انصافی نہیں ہے۔ ہم اپنے آپ کو ٹھیک کر لیں وہ ہمارے حالات ٹھیک کردے گا۔ پاناما کا فیصلہ کبھی ہماری مرضی کا نہیں آئے گا جب تک ہماری گاڑیوں سے ”شہد”کی بوتلیں برامد ہونا بند نہیں ہونگی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے