ایران میں قدامت پسند سوچ کو شکست

اعتدال پسند ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا ہے کہ انتخابات میں ایک بار پھر ان کی کامیابی یہ ثابت کرتی ہے کہ ووٹروں نے سخت گیر سوچ کو رد کردیا ہے اور وہ بیرونی دنیا سے روابط استوار کرنا چاہتے ہیں۔ صدر روحانی کو 57 فیصد ووٹ ملے اور انہیں انتخابات کے پہلے ہی دور میں جیت حاصل ہوئی۔ اڑسٹھ برس کے حسن روحانی ایران کے جوہری پروگرام میں کمی لانے والے معاہدے کے حامی ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اس فیصلہ کُن جیت کے بعد اُنہیں ملک کی معیشت اور اصلاحات لانے کا مضبوط منشور ملا ہے۔

ایران کے سرکاری ٹی وی پر جیت کے بعد خطاب کرتے ہوئے صدر روحانی نے کہا کہ ‘انتخابات ختم ہوچکے ہیں میں ملک کا صدر ہوں۔ مجھے ایران کے ہر ایک شہری کی مدد چاہیے چاہے وہ میری پالیسیوں کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔’
حسن روحانی نے سابق اصلاح پسند صدر محمد خاتمی کا شکریہ ادا کیا اور ایسا کرتے ہوئے اُنہوں نے بظاہر سابق صدر کے نام لینے پر عائد پابندی کی خلاف ورزی کی۔ انتخابات میں عوام کی بڑی تعداد نے حصہ لیا اور ووٹروں کی کل تعداد کے 70 فیصد نے ووٹ ڈالا۔ اس کا فائدہ صدر روحانی کو ہوا جنہیں چالیس لاکھ میں سے 23 لاکھ ووٹ ملے۔ حسن روحانی کے اہم حریف ابراہیم رئیسی کو 38.5 فیصد ووٹ حاصل ہوئے جو انتخابات کو دوسرے دور میں لے جانے کے لیے کافی نہیں تھے۔

ایران کے رہبر اعلٰی آیت اللہ علی خامنئی نے ٹوٹر پر اپنے پیغام میں کہا کہ انتخابات نے دکھایا ہے کہ ایرانی قوم تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ایران دوسرے ممالک کے ساتھ تعلقات کے معاملے میں اپنے ‘قومی وقار’ اور ‘دانشمندی’ کا مظاہرہ کرے گا۔ مگر ایران کے رہبر اعلی نے حسن روحانی کو کامیابی پر مبارکباد نہیں دی۔ ایران کے دارالحکومت تہران میں خوشیاں منائی گئیں۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق شہر کے ولی عصر سکوائر میں نوجوان لوگوں نے ناچ کر اور گانے گا کر جشن منایا جبکہ پولیس نے انہیں ہٹانے کی کوشش کی۔

[pullquote]چیلنجز کیا ہیں؟[/pullquote]
معیشت سب سے اہم مسئلہ نظر آتی ہے۔ عام شہریوں کا کہنا ہے کہ اُنہیں 2015 میں امریکہ اور دوسرے ممالک کے ساتھ جوہری پروگرام کم کرنے والے معاہدے کے نتیجے میں عالمی اقتصادی پابندیاں اُٹھائے جانے کے بعد بھی معاشی طور پر کوئی فائدہ نظر نہیں آرہا۔ گو کہ تیل کی برآمدات میں بہتری آئی ہے اور افراطِ زر میں خاطر خواہ کمی آئی ہے مگر نوجوان نسل میں بے روزگاری کی شرح اب بھی بہت زیادہ ہے۔

انتخابی مہم کے دوران صدر روحانی نے بیرونی دنیا کی طرف ہاتھ بڑھانے اور ایک معتدل ایران کا وعدہ کیا اور اپنے جلسوں میں کھلے عام قدامت پسند عدلیہ اور سکیورٹی اداروں کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ مگر صدر روحانی کے اختیارات ایران کے رہبر اعلی کے مقابلے میں محدود ہیں اور اہم فیصلے آیت اللہ علی خامنئی کرتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق ایک اور چیلنج بیرونی دنیا سے تعلقات ہیں جن میں امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ تعلقات بھی ہیں۔ امریکی صدر جوہری معاہدے کے خلاف ہیں اور اُنہوں نے اسے ‘بدترین معاہدہ’ قرار دیا ہے۔ مگر تمام تر اعتراضات کے باوجود وائٹ ہاؤس نے اس ہفتے معاہدے کی تجدید کردی۔

ایران کے سخت گیر حلقے نے بھرپور کوشش کی اور جتنے لوگوں کو باہر لا سکے لے آئے مگر طاقت کے اہم مرکز ایگزیکیٹیو برانچ پر کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش میں ناکامی ہوئی۔
کسرا ناجی، بی بی سی فارسی , ‘سخت گیر حلقے سے بدلہ’

[pullquote]کیا ردعمل سامنے آیا؟[/pullquote]

انتخابات کے نتائج کا اعلان اُس وقت کیا گیا جب صدر ٹرمپ اپنے پہلے بیرونی دورے پر سعودی عرب پہنچے جو خطے میں ایران کا سب سے بڑا حریف ہے۔ ریاض میں وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن نے کہا کہ وہ امید کرتے ہیں کہ صدر روحانی اپنی نئی مدت میں ‘دہشت گردی کے نیٹ ورک اور اپنے بلسٹک میزائیل پروگرام کو ختم کریں گے’

مگر ایران کسی قسم کی دہشت گردی میں ملوث ہونے کے الزامات سے انکار کرتا ہے اور کہتا ہے کہ ان کا میزائیل پروگرام جس کی وجہ سے صدر ٹرمپ کی طرف سے نئی پابندیاں لگی ہیں اقوام متحدہ کی قردادوں کی خلاف ورزی نہیں کرتا۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ نے انتخابات کو ‘اندرونی معاملہ’ قرار دیا اور کہا کہ ایران عرب ممالک میں دخل اندازی کر رہا ہے اور شدت پسند گروہ القاعدہ کی مدد کر رہا ہے۔ دوسری جانب یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی چیف فریڈریکا موگھرینی نے صدر روحانی کو بھاری اکثریت سے لوگوں کا اعتماد حاصل ہونے پر مبارکباد دی اور کہا کہ یورپ ‘بہتر تعلقات’ اور ‘خطے میں امن’ کے لیے کام کرنے کے لیے تیار ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے