ٹرمپ خوش تو ہم خوش !

جب واٹر گیٹ اسکینڈل خطرناک مرحلے میں تھا تو رچرڈ نکسن اسرائیل کے دورے پر تھے۔ میزبان وزیرِ اعظم گولڈا مائر نے فقرہ دیا ‘ صدرِ محترم تو یہاں ہیں مگر دماغ کہیں اور ہے۔’واشنگٹن سے ائیر فورس ون کی پرواز سے قبل یہ سنگل کالم خبر آئی کہ ٹرمپ انتظامیہ نے اوباما دور کے ایران جوہری امن سمجھوتے کو یکسر سرد خانے میں ڈالنے کے بجائے اس کے بارے میں حتمی فیصلے کی معیاد میں غیر معینہ مدت کی توسیع کردی ہے۔ جب ائیرفورس ون واشنگٹن اور ریاض کے درمیان آدھا راستہ طے کرچکا تو یہ خبر آئی کہ ٹرمپ کے ہاتھوں برطرف ہونے والے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جمیز کومی روس کی انتخابی مداخلت کی بابت کانگریس کی تحقیقات میں گواہی دینے کے لئے آمادہ ہیں۔

جب ایرفورس ون ریاض ایرپورٹ پر اترا تو یہ خبر آئی کہ صدر ٹرمپ اس وقت محض اڑتیس فیصد امریکیوں میں مقبول ہیں۔اور جب ٹرمپ اور شاہ سلمان الیمامہ پیلس میں تین سو اسی بلین ڈالر کے سمجھوتوں پر دستخط کر رہے تھے تو خلیج کے دوسری طرف ایرانی صدر حسن روحانی سرکاری ٹی وی پر اپنے ووٹروں کا شکریہ ادا کر رہے تھے جنہوں نے ایران کا دنیا سے تعلق جوڑنے والی اعتدال پسند پالیسیوں کے حق میں ووٹ دے کر سخت گیری کو مسترد کردیا۔
ٹرمپ اور شاہ سلمان نے جس تجارتی پیکیج پر دستخط کئے اس میں سے ایک سو دس بلین ڈالر سعودی عرب کو امریکی اسلحے اور دفاعی ٹیکنالوجی کی اگلے دس برس میں فراہمی پر خرچ ہوں گے۔ یعنی گیارہ بلین ڈالر سالانہ۔
اس سے زیادہ کا امریکی اسلحہ تو اوباما نے آٹھ برس میں بیچ ڈالا تھا یعنی ایک سو پندرہ بلین ڈالر کا۔ پہلے اتنا اسلحہ اسرائیل پر غصے کے نام پر خریدا جاتا تھا اب ایران کی گونگی بدمعاشی کے نام پر بیچا جا رہا ہے۔ جنگ نہ اسرائیل سے ہوئی نہ ایران سے ہوگی ۔

ویسے بھی ادھ موئے یمنیوں کو مارنے کے لئے اتنے اسلحے کی ضرورت ہی نہیں۔ اور اردگرد کے ممالک میں متحرک مسلح ملیشیائیں، ایف پینتیس طیارے ، جنگی فریگیٹس اور میزائیل شکن نظام استعمال کرنے کی عادی نہیں۔ لہذا اس ڈیل کو امریکہ کی اسٹرٹیجک قربت اور مسلسل سیاسی حمایت خریدنے کے لئے دوستانہ سعودی اعانت کے طور پر لینا چاہئے۔ اگر چند لاکھ امریکیوں کے لئے دس برس کی روزی روٹی اور چند سوداگروں کے لئے کمیشن کا انتظام ہو جاتا ہے تو اس میں کڑھنے کی کیا بات ہے۔ رہا عالمِ اسلام اور امریکہ کی دوستی پر صدارتی لیکچر تو اس رسم کی بنیاد صدر اوباما نے قاہرہ کی امریکن یونیورسٹی کے طلبا سے دو ہزار نو میں خطاب کے ذریعے ڈالی تھی۔ بس اتنا ہوگا کہ مورخ کے بقول ٹرمپ نے بھی ریاض میں ایسا ہی ایمان افروز لیکچر سعودی امریکن مسلم ورلڈ اکیڈمی کے باون پچپن طلبا کی بھری کلاس میں دیا۔ کچھ طلبا نے سنجیدگی سے نوٹس لئے۔ کچھ نے منہ پر ہاتھ رکھ کے اباسیاں لیں۔ آخر میں پرزور تالیاں سب نے بجائیں اور دھشت گردی مردہ باد کے نعرے لگاتے منتشر ہو گئے۔ وزیرِ اعظم میاں نواز شریف کو بھی بیجنگ سے اسلام آباد پہنچتے ہی تھکن اتارے بغیر ریاض جانا پڑگیا۔ قیاس ہے کہ راستے بھر گنگناتے گئے ہوں گے،
اج ہونا دیدار ماہی دا ، اج ہونا دیدار۔۔۔۔

اس موقع پر خادمین کے حاسدین بھی اپنی حرکتوں سے باز نہیں آ رہے۔ وہ جان بوجھ کر بے حجاب امریکی خاتونِ اول میلانیا ٹرمپ سے شاہ سلمان کے مصافحے کی تصاویر سوشل میڈیا پر پھیلا رہے ہیں اور یہ طنزیہ آنکڑے بھی لگا رہے ہیں کہ شاید اب اس تصویر کے صدقے سعودی خواتین کو بھی محرم کے بغیر گھر سے باہر جانے کی اجازت نہ بھی ملے تو ڈرائیونگ کی اجازت ضرور مل جائے گی۔ مگر نکتہ چیں یہ بھول رہے ہیں کہ مسز ٹرمپ اور ان کی صاحبزادی ایوانکا بھی بنا محرم ریاض نہیں آئیں اور وہ جس گاڑی میں بیٹھیں اسے بھی شوفر چلا رہا تھا۔رہی بات سکارف نہ اوڑھنے کی تو ہمارے معاشرے میں مہمان پر انگلیاں اٹھانا اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ گھر اور دل جتنا بھی تنگ ہو مہمان کے لئے اتنا ہی کشادہ لگنا چاہیے۔ ٹرمپ کا اگلا پڑاؤ اسرائیل ہے۔ کچھ اسرائیلی وزرا ایئرپورٹ پر ٹرمپ کا استقبال نہیں کرنا چاہتے مگر وزیرِ اعظم نیتن یاہو نے ڈانٹ ڈپٹ کر معاملہ سیدھا کر لیا ہے۔ اسرائیلیوں کو یہ غصہ بھی ہے کہ انہوں نے داعش کے بارے میں جو حساس معلومات ٹرمپ انتظامیہ تک پہنچائیں وہ معلومات گذشتہ ہفتے ٹرمپ نے روسی وزیرِ خارجہ سے ملاقات کے دوران نادانی میں اگل دیں اور شام میں متحرک اسرائیلی سیکرٹ ایجنٹوں کی زندگی خطرے میں ڈال دی۔ مگر ٹرمپ کو بھی تمام سابق صدور کی طرح اسرائیل کو منانے کا گر آتا ہے۔ سعودی عرب سے انہوں نے تین سو اسی بلین ڈالر کے تجارتی سمجھوتوں کا جو بیعانہ پکڑا ہے اس کا ایک حصہ نیتن یاہو کی جیب میں ڈالنے سے وقتی گلے شکوے ، نخرے سب دور ہو جائیں گے۔ اسرائیل بھی خوش ، ٹرمپ بھی خوش اور شاہ سلمان تو ہیں ہی خوش اور شاہ سلمان کی خوشی میں ہم سب خوش۔
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے