معاصر جہادی تحریکوں کا المیہ

معاصر جہادی تحریکیں، خواہ ان کا تعلق کسی بھی مذہبی گروہ سے ہو اور وہ مختلف خطوں میں کتنے ہی مختلف حالات میں کام کر رہی ہوں، بنیادی طور پر مذہبی عناصر کی اس خواہش کی تجسیم ہیں کہ انھیں سیاسی اقتدار حاصل ہونا چاہیے۔ اس خواہش کا محرک خالص مذہبی جذبے کو کس حد قرار دیا جا سکتا ہے، یہ ایک الگ بحث ہے، لیکن اگر مذہبی عناصر کے نزدیک سیاسی طاقت اور اقتدار حاصل کرنا کوئی مذہبی مقصد ہے تو سنی اقتدار پسندوں کو اس معاملے میں خلیج اور شرق اوسط کی شیعہ قیادت سے راہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔

ایرانی قیادت نے گزشتہ تیس سال کے عرصے میں نہ صرف اپنے ملک کا تحفظ کیا اور امریکا، عراق اور عرب ممالک کے ساتھ سیاسی مخاصمت کے باوجود اپنے وجود کو برقرار رکھا ہے بلکہ خطے میں اپنے سیاسی اثر ونفوذ کو بھی مستحکم کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔ عراق کی شیعہ مرجعیت نے امریکی حملے پر جذباتی اور سطحی رد عمل ظاہر کرتے ہوئے شدت پسند عناصر کا ساتھ دینے کے بجائے اسے عراقی اہل تشیع کے سیاسی حقوق اور سیاسی کردار کی بحالی کا ایک موقع سمجھتے ہوئے حملہ آور طاقت کے ساتھ تعاون کرنے اور اقتدار میں شریک ہو جانے کا مقصد حاصل کیا ہے اور لبنان کی حزب اللہ ابتدائی جذباتی مرحلے سے گزرنے کے بعد عملی بصیرت اور فراست کا اظہار کرتے ہوئے لبنان کی ایک ایسی سیاسی قوت کا روپ دھار چکی ہے جسے کسی حال میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔

دوسری طرف سنی سیاسی اسلام کے علم برداروں کی کیفیت یہ ہے کہ ربع صدی کی قربانیوں کے بعد وہ ایک غریب اور کمزور سی امارت اسلامیہ قائم کرنے میں کامیاب ہوئے، لیکن ان کی بصیرت اور فراست چھ سال سے زیادہ اس کی حفاظت کا بوجھ اٹھانے کی متحمل نہ ہو سکی۔ (اور پھر ”غلبہ اسلام“ کے وہی چیمپئن جو افغانستان کی امارت اسلامیہ کے سقوط کا سبب بنے، پاکستان کے عوام کو بھی یہ پیغام دینے لگے کہ یہ ایک ”غیر اسلامی“ ریاست ہے، اس لیے ”شریعت کی بالادستی“ کے نام پر اٹھو اور یہاں مسلمانوں اور اہل مذہب کو پرامن ماحول میں کام کرنے کے جو مواقع میسر ہیں، انھیں برباد کر کے ”کامیابی“ کا ایک اور تمغہ ہمارے سینے پر سجا دو۔)

مجھے اس تشبیہ پر معاف رکھا جائے، لیکن صاف دکھائی دیتا ہے کہ علی کے نام لیوا تو ان کی شجاعت وبسالت کے ساتھ ساتھ معاویہ کی فراست وبصیرت سے بھی پورا فائدہ اٹھا رہے ہیں، لیکن ہمارے ان کرم فرماوں کے ذہنوں میں ”دینی جدوجہد“ کا جو معیاری ماڈل موجود ہے، اس پر اگر پورا اترتا ہے تو صرف خوارج کا انداز فکر جس میں نہ علی کی اخلاقیات جنگ کا کوئی وزن ہے اور نہ معاویہ کی حکمت وفراست کے لیے کوئی مقام۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے