ایسا واقعہ جو آپ کی سوچ بدل دے

ss

حافظ صفوان محمد

ملتان

۔ ۔ ۔

سن 89 میں قائدِ اعظم یونیورسٹی میں الیکٹرانکس میں داخلہ ہوا تو شروع شروع کے دنوں میں جن کلاس فیلوز سے قریبی تعلق ہوگیا ان میں کراچی کا ایک دوست حنیف بھی تھا ۔  بہت محنتی اور ملنسار تھا اور پڑھائی اور اسائنمنٹس مکمل کرنے میں بہت ساتھ دینے والا۔ ہم لوگ رات گئے تک پڑھتے۔ ہم کلاس فیلوز سارے پاکستان سے دور دور سے آئے تھے اور ہمارے کچھ کلاس فیلو اردن، شام، فلسطین، سعودیہ، مصر وغیرہ کے بھی تھے۔

حنیف کی ایک خوبی یہ بھی تھی کہ ہر ایک کے کام آنے کی کوشش کرتا۔ کبھی اس کے کمرے میں گئے تو معلوم ہوا کہ فلاں دوست کے ساتھ ڈسپنسری گیا ہوا ہے یا فلاں کی دوا لینے کے لیے آبپارہ مارکیٹ گیا ہوا ہے۔ کوئی گھر سے آ رہا ہے اور اس کا سامان زیادہ ہے تو اسے لینے سٹیشن گیا ہوا ہے (اس دور میں ریل سے سفر ہوتا تھا)۔ ایک مرتبہ ایک اردنی کلاس فیلو کو لے کر سفارت خانے جاتا پایا گیا۔ ایک دن میں لیٹ ہو رہا تھا تو مجھے کہنے لگا کہ مولوی تو باتھ روم میں گھس، میں تیرے کپڑے استری کرکے تجھے وہیں پکڑا دیتا ہوں۔ رات کو کنٹین بند ہوجاتی تو اس وقت جاگ کر پڑھنے والے الوؤں کے لیے اس کے کمرے میں کچھ نہ کچھ کھاجہ ضرور مل جاتا۔ ان الوؤں کو نائٹ رائیڈرز کہا جاتا تھا جو ان دنوں ٹی وی پر چلنے والی ایک امریکی سیریل Knight Rider کی نقلِ صوتی تھی۔

ابھی دو ماہ بھی نہ گزرے تھے اور ہم لوگوں کو ابھی تک ہوم سکنیس بھی ہوا کرتی تھی کہ حنیف نے سارا اسلام آباد اور اس کے بیشتر دفاتر چھان مارے اور ہر جگہ اس کا تعلق بن گیا۔

ایک دن یہ انکشاف ہوا کہ حنیف مرزائی ہے۔ سب لوگوں کی نظریں بدل گئیں۔

یہ انکشاف میرے لیے بھی بہت صدمے کا باعث تھا۔ اب میں دوراہے پر تھا۔ مجھے یہ فیصلہ کرنے میں ایک آدھ منٹ لگا کہ میں حنیف کو خود سے کاٹ دوں یا اسے ساتھ لیے رکھوں۔ میں نے دوسرے والا فیصلہ کر لیا تھا۔

اس رات بھی ہم پڑھنے کے لیے بیٹھے۔ اپریل کا آغاز تھا اور موسم ابھی خاصا خنک تھا۔ میں نے حنیف کو یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ مجھ تک یہ خبر پہنچ چکی ہے۔ رات بھر بیٹھے پڑھتے رہے۔ میں کوشش کرتا تھا کہ اگر پڑھتے پڑھتے رات کے تین بج جائیں تو فجر خراب نہ کروں بلکہ کسی طرح فجر کا وقت داخل ہوتے ہی نماز پڑھ کر پھر سوؤں۔ اس رات بھی فجر کی اذان ہونے تک جاگے۔ میں نے بڑے بھولپن سے اسے کہا کہ یار آج مسجد میں چل کر نماز پڑھتے ہیں۔ اس نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا کہ مولوی تو مجھے مروائے گا۔ میں نے کہا کہ میں ساتھ ہوں۔ کچھ نہیں ہوگا۔ اسے یقین ہوگیا تھا کہ مجھے کیمپس میں چلنے والی اس خبر کا کچھ پتہ نہیں ہے۔

ہم فجر کے لیے گئے۔ نماز ختم ہوتے ہی کئی لوگوں نے اسے کچا کھا جانے والی نظروں سے گھور گھور کر دیکھنا شروع کر دیا۔ دعا ہوئی اور ہم فوراً مسجد سے نکلے۔ قاری عطاء الرحمٰن صاحب کو اللہ خوش رکھے، وہ جلدی سے میری طرف کو بڑھے۔ میں نے انھیں عرض کیا کہ میں رات بھر نہیں سویا ہوں اس لیے دوپہر کو ملیں گے۔ انھوں نے یہ عذر قبول کر لیا۔

کمرے میں پہنچتے ساتھ ہی حنیف نے کہا کہ مولوی تو نے بڑی بے عزتی کرائی ہے میری۔ میں انجان بنا رہا۔ کہنے لگا کہ کل سے میرے بارے میں یہ بات پھیلائی جا رہی ہے کہ میں مرزائی ہوں۔ اور تو بدھو ہے کہ تجھے معلوم ہی نہیں، اور مجھے مسجد میں گھسیٹ لے گیا ہے۔ میں نے تاسف کا اظہار کیا اور سونے کے لیے اپنے کمرے میں چلا آیا۔

یہ دوپہر اور شام بہت اہم (critical) تھی۔ حنیف کا ایک طرح سے سوشل بائیکاٹ ہوگیا تھا۔ لیکن میں معمول کے مطابق اس کے کمرے میں گیا اور اس موضوع پر بالکل کوئی بات نہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا رہا۔ چند دن میں حالات معمول پر آگئے لیکن اس کا فاصلہ بیشتر لوگوں سے بڑھ گیا تھا اگرچہ میرے ساتھ ٹھیک رہا۔

میں کبھی سہ روزے پر جاتا تو وہ مقامِ تشکیل پر مجھے ملنے ضرور آتا۔ میں نے یونیورسٹی میں پورا باقی عرصہ اس سے کوئی مذہبی بحث نہیں کی بلکہ ان موضوعات کو سختی سے سوئچ آف کیے رکھا۔

اس وقت نہ موبائل فون تھا اور نہ ای میل۔ یونیورسٹی سے فراغت ہوئی اور نوکریاں شروع ہوئیں تو ایک دن اس کا فون آیا۔ کہنے لگا کہ میرا سکالرشپ ہوگیا ہے اور میں چائنہ جا رہا ہوں، تو مجھ سے ایک بار کہیں مل لے۔ ہم لاہور میں ملے۔

حنیف نے کہا کہ "میں خاندانی مرزائی ہوں ورنہ میں مرزے پہ ل ع ن ت بھیجتا ہوں۔ میں مسلمانوں کے درمیان رہتا ہوں اور نماز روزہ کرتا ہوں لیکن جہاں میرا خاندانی تعلق سامنے آتا ہے، سب مجھے الگ کر دیتے ہیں۔ میں ان حالات سے سکول کے زمانے سے گزر رہا ہوں۔ یار مولوی، تو گواہ رہنا کہ میں مسلمان ہوں۔ میرا باپ اس وقت فوت ہوا تھا جب میں دس سال کا تھا اور میری مجھ سے چھوٹی چار بہنیں ہیں۔ ہم اس لیے مرزائی ہیں کہ میری اور میری بہنوں کی شادی اس وقت تک نہیں ہوسکتی جب تک ہم مرزائی نہ ہوں۔ آج میرا ملک سے باہر جانے کا سلسلہ بن گیا ہے۔ اب میں مڑ کے پاکستان کبھی نہیں آؤں گا۔ میں اپنی ماں اور بہنوں کو وہیں بلاؤں گا اور وہیں بہنوں کی شادیاں کروں گا۔ بس تو صرف یہ کرنا کہ ہر چھے مہینے بعد چین آنے والی کسی جماعت کو میرا اور  میری یونیورسٹی کا نام لکھ کے دے دیا کرنا۔” یہ 1994 کی بات ہے۔

میں نے اس کا نام رائے ونڈ کے کچھ متعلقہ لوگوں کو دیا۔ لیکن اس وقت چین جانے والی جماعتیں نہ ہونے کے برابر ہوتی تھیں، اور نہ کوئی چین سے جماعت میں آتا تھا۔ یہ وہ وقت تھا کہ ابھی ڈیڑھ سال کی جماعتیں بھی چلتی تھیں۔ پورے سال میں سو سوا سو جماعتیں بمشکل رائے ونڈ سے نکلتی تھیں۔

اکا دکا جماعتیں بھی حنیف سے ملیں۔ میرا رابطہ پھر نہیں ہوا۔ میں بھی مصروف تر ہوتا چلا گیا اور حنیف بھی زمانے کی گرد میں کھو گیا۔

پچھلے سال رمضان میں حنیف نے مجھے گوگل کرکے اور لنکڈ اِن سے دریافت کیا۔ آج وہ ایک بڑے یورپی ملک میں ایک بڑی کمپنی کا کنڑی منیجر ہے۔ اس نے اپنے بارے میں جو باتیں بتائیں ان کا خلاصہ یہاں لکھتا ہوں

"میں چائنہ جانے سے پہلے یہ طے کر چکا تھا کہ مجھے اپنی ماں اور بہنوں کو کسی کافر ملک میں سیٹل کرنا ہے۔ پی ایچ ڈی مکمل کرکے میں پاکستان نہیں آیا بلکہ برطانیہ جا سیٹل ہوا۔ ماں اور بہنیں آگئیں۔ میں نے شادی ایک کورین عیسائن سے کی۔ چاروں بہنوں کی شادیاں چار یورپی ملکوں میں غیر پاکستانی اور غیر ہندوستانیوں سے کیں۔ پاکستان اور سارے اسلامی ممالک میں ہم لوگ آؤٹ کاسٹ تھے، ان ملکوں میں ہم ان ممالک کے شہری ہیں۔ پاکستان میں ہم پانچ مرلے کے مشترکہ گھر میں رہتے تھے اور محلے کے کئی مسلمان دکاندار ہمیں سودا بھی نہیں دیتے تھے۔ یہاں آکر میرے اور میری بہنوں کے اپنے اپنے گھر ہیں۔ ہمیں اپنی پچھلی کسی شناخت کی ضرورت نہیں ہے۔ میرے بچوں اور بھانجے بھانجیوں میں سے کسی کو ہم نے اردو نہیں سکھائی اور وہ اپنے اپنے باپوں کی زبانیں بولتے ہیں۔ اردو نہ سکھانے کا فیصلہ اس لیے کیا کہ ہمیں اس ثقافت سے کچھ واسطہ نہیں رکھنا جہاں ہمیں کافر بنایا گیا ہے۔ اب ہم انٹرنیشنل شہری ہیں اور مختلف عالمی زبانیں بولتے ہیں۔

میری بیوی ابھی تک عیسائی ہے لیکن اس نے میرے تین بیٹوں کو حافظ بنایا ہے اور ان میں سے دو کو عالم۔ میرے تینوں بچے ڈیوزبری کے مدرسے سے پڑھے ہیں۔ یہ تینوں بھائی ابھی عملی زندگی میں داخل ہو رہے ہیں۔ ان کی شادیاں بھی میں نان انڈین لڑکیوں سے کروں گا۔ میں اپنے بھانجوں بھانجیوں کی شادیاں بھی نان انڈین سے کروں گا تاکہ پاکستان یا اسلامی ممالک کی کوئی شناخت ہمارے ساتھ نہ لگی رہے۔ ہم کبھی پاکستان نہیں آئیں گے۔

میں کچھ سال بعد تبلیغی اجتماع وغیرہ پر آتا ہوں لیکن کسی کے گھر نہیں جاتا اور نہ کسی کو بتاتا ہوں۔ میں نے ڈاڑھی بھی اس لیے نہیں بڑھائی کہ متشدد نہ لگوں اور نہ میں نے عربی لباس اختیار کیا ہے. میں نے چار مہینے بھی اس لیے نہیں لگائے تھے کہ اس کے لیے پاکستان اور ہندوستان آنا پڑتا ہے۔ میں صرف چلہ لگانے پر راضی ہوں تاکہ پاکستان نہ آنا پڑے۔

ہم صرف مرزائی خاندان ہونے کی وجہ سے مرزائی ہیں لیکن ہمیں ہر موقع پر ذلیل کیا گیا ہے۔ ہم نماز روزہ کرنے کے باوجود کافر کہے جاتے تھے۔ ان کافر ملکوں میں رہنے اور پاکستانی شناخت ختم کر لینے کی وجہ سے اب ہم کافر نہیں کہے جاتے۔ پاکستانی شناخت ختم کرنے میں مجھے پورے پچیس سال لگے ہیں اور اگلے پچیس سال اپنی اگلی نسل کی یہ شناخت ختم کرنے میں لگیں گے۔

مولوی تیرا شکریہ کہ تو نے مجھے پہلے دن سے مسلمان سمجھا۔ میری اور میرے خاندان کی جتنی نیکیاں ہیں وہ تیرے کھاتے میں ہیں۔ اگر اس دن تو مجھے فجر کی نماز پڑھوانے نہ لے جاتا اور مجھ سے قطع تعلق کر لیتا تو میں فیصلہ کر چکا تھا کہ گھر جا کر ماں اور بہنوں کو قتل کرکے خود کشی کرلوں گا۔”

۔۔۔۔۔

میرے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔ چند سال پہلے جناب محمد اظہار الحق نے یہ مسئلہ چھیڑا تھا کہ کئی لوگ صرف خاندان ہونے کی وجہ سے مرزائی ہیں۔ میں اس وقت خاموش رہا تھا۔ اب بھائی عمار خان ناصر نے امت کی ان کھوئی ہوئی بھیڑوں کی واپسی کے لیے اپنے عظیم والد مولانا زاہد الراشدی مدظلہ کی نگرانی میں حرکت شروع کی ہے تو میں نے ٹوٹی پھوٹی زبان میں یہ واقعہ لکھنے کا حوصلہ پکڑا ہے۔

ہمارے سخت گیر رویوں کی وجہ سے کتنے ہی لوگ کفر پر جمے ہوئے ہیں اور کتنے ہی مسلمان کفر پر مرے ہیں۔ کاش امت داعیانہ مزاج پر آئے۔ دینِ اسلام دعوت سے پھیلا ہے، مسلمانوں کی بقا بھی داعیانہ ترتیب پر چلنے میں ہے۔ اللہ سمجھ دے۔
۔ ۔ ۔ ۔

اس تحریر کو زیادہ سے زیادہ شئیر کریں ، ممکن ہے کہ ہمارا یہ عمل ہماری دنیا کو سنوار دے اور آخرت میں کامیابی کا حقدار ٹھہرے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے