میں، میرا بیٹا اورہم دونوں کا بچپن

امی جب بهی اپنے مرحوم پهوپهی زاد بهائی کو یاد کرتی ہیں تو اکثر کہتی رہتی ہیں کہ مظفرآباد سی ایم ایچ میں تیری پیدائش کے دن جتنی خوشی ہم نے منائی تهی ،اس سے کہیں زیاده خوشی ان کے پهوپهی زاد بهائی پهگواٹی والے مرحوم اکرم انکل کو ہوئی تهی. میرا نام بھی اکرم ماموں نے ہی رکھا تھا اور کانوں میں اذان بھی انہوں نے ہی دی تھی.

پهر ابو، امی، ممانی اور ماموں سب نے مل کر میری پیداہش کی خوشی میں مظفرآباد کی مشہور درگاہ حضرت سائیں سخی سہلی سرکار میں دیگ بھی تقسیم کی تهی اور وہاں پر رکهے مٹی کے پیالوں سے میرے ماتهے پہ تیل بهی لگایا تها.

وقت گزرتا گیا اورپھر ابو کا تبادلہ وہاں سے کہیں اور ہو گیا اورانہیں اپنی یونٹ اور ہمیں واپس گھر آنا پڑا۔

تقریباً چار سال کی عمر ہوئی ہو گی کہ دادی جان مجھے گود میں بٹھا کہ نورانی قاعدہ، یسرنا القرن اور پکی روٹی پڑھا کرتی تھیں۔

پهر اپنے گاوں کی کچی مسجد میں اپنے دوستوں کے ساتھ باقاعدگی سے جانے لگا۔، جہاں سب سے پہلے دوستوں نے یہ سکھایا کہ اگر بے وضو نورانی قاعدے کو ہاتھ لگایا تو بندا کوڑھی(یعنی جذام ، ایک بیماری جس میں گوشت بوسیدہ ہو کر جھڑنے لگتا ہے) ہو کر مرجاتا ہے.

قاری صاحب کبھی آتے تو کبھی چھٹی کر لیتے . جب آتے تو پورے جلال سے آتے اور اگر نہ آتے تو ہماری عید ہوتی.

ان برسوں میں ذہن میں صرف اتنی ہی بات بیٹهی کہ ہم سب مسلمان ہیں اور ہمارا اللہ ایک ہے اور رسول بهی ایک ہیں اور جو کوئی بھی اللہ کا حکم نہ مانے وہ کوڑھی ہو کہ مر جاتا ہے اور پهر مرنے کے بعد بڑے درخت کی جسامت جیسے ناگ اور بچھو ہمیں ڈسا کریں گے.

المختصر، یوں ہم نے ابتدائی دینی مسائل سیکھے۔

بدھوال موہڑہ سکول سے پانچویں کا امتحان پاس کر کے ہمارا داخلہ اکھوڑبن سکول میں کروا دیا گیا تو ہمیں پہلی بار پتہ چلا کہ وہاں پڑھانے والے قاری صاحب کسی الگ مسلک کے ہیں۔

مسلک کا تو پتہ نہیں لیکن امی جی انہیں ہمیشہ قاری چچا کہتی تھیں۔ بہت ملنسار شخصیت تھی۔ جب وہ اپنی مخصوص دھیمی مگر دل سوزآواز میں قرآن پاک کی تلاوت کرتے تو سننے والامسحور سا ہو جاتا تھا ۔

انہی دنوں کے دوستوں کے ساتھ پہلی بار گھر سے ہجیرہ بازار ابو یا چچا کے بغیر نماز جمعہ ادا کرنے جانے کا شرف بھی حاصل ہوا .

دل میں خوشی تھی کہ آج بازار جا رہا ہوں اور بڑی بڑی دکانیں اور گاڑیاں دیکهوں گا اور کچی مسجد میں کجهور کے پتوں سے بنی کهردری پُهوڑیوں(چٹائیوں) پر نماز پڑهنے کے بجائے کپڑے کی بنی دری پہ نمازجمعہ ادا کروں گا.

قریبی مسجد میں جانے کا اراده کیا تودوستوں نے بتایا کہ یہ مسجد وہابیوں کی ہے اور چونکہ ہم بریلوی مسلک سے تعلق رکهتے ہیں اس لیے بریلویوں کی مسجد میں جانا پڑے گا.

میرا تجسس بڑھا تو پتہ چلا کہ وہابی مولوی کے پیچھے نماز بھلے پورے خشوع و خضوع سے ادا کرو لیکن چونکہ وہ وہابی ہے اس لیے اللہ پاک قبول نہیں کرتے۔

سانپ و بچھو یاد آئے تو ڈر کے مارے سُنی امام صاحب کے پاس پہنچا جو دوران خطبہ وہابیوں کو کافر قرار دے رہے تھے۔

اب ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ میں بھی چُپ چاپ بریلوی بن کہ گزارہ کرتا، لیکن نہیں.

اگلی بار دیوبندی مسجد کا رخ کیا۔ وہاں کے مناظر دیکھے تو ویسا ہی پایا جیسا پچھلے جمعے کو بریلوی مسجد میں پایا تھا، ہاں ایک چیز البتہ مشترک تھی ، وہ یہ کہ اللہ کے گھر کےلیے چندہ اُسی طریقہ کار سے مانگا جا رہا تھا۔

یہ سب کچھ دیکھ کر میرا دل بیٹھ سا گیا. جیب میں سات روپے تهے، ایک روپیہ چنده دیا اور سوچتا ہی ره گیا کہ گهر تو الله پاک کا ہے اور چنده لوگوں سے کیوں لیا جاتا ہے. اور یہ مولانا بریلویوں کو اور وہ ان کو کافر کیوں گردانتے ہیں.

گهر آ کر امی سے استفسار کیا تو ایک زور دار تھپڑ اس لیے لگا کہ دین کے معاملے میں سوال کرنا گناہ ہے.

وقت گزرتا گیا اور میں ہر کسی سے اس بارے میں پوچھتا رہا. انہی بچپن کے دوستوں نے مجھے لادین و پتا نہیں کیا کچھ کہتے ہوئے اپنے راستے جدا کر لیے۔

سکول سے کالج اور پھر رزق کی تلاش میں کراچی کا سفر اور وہاں بھی امام مسجد کے گھرقیام، بہرحال یہ ان کی نیکی تھی کہ اُنہوں نے وہاں ایک پرائیویٹ سکول میں دن کے وقت بچوں کو پڑھانے اور شام کو دوسرے سکول کے بچوں کو ٹیوشن پڑھانے کی ذمہ داری دلوا دی۔

شیعہ مسلک کے ایک گھرانے میں بچے کو ٹیوشن پڑھاتا تھا ۔ اس دوران واقعہ کربلا سننے کے بعد ان کا رونا دیکھ کر سمجھ آئی کہ یہ بھی کوئی الگ مسلک ہوتا ہے اور ان کے خیال میں بھی ان کے علاوه سب کافر ہیں.

امام صاحب سے پوچھا تو انہوں نے اس گھر ٹیوشن پڑھانے سے منع کر دیا۔ پتہ چلا کہ امام صاحب کے نزدیک وہ بھی کافر ہیں۔

اس عرصے میں من میں ان گنت سوالات آتے رہے لیکن بزرگوں سے قریبی رشتہ ہونے کا ڈر خاموش رہنے پہ مجبور کرتا رہا۔

چند ماہ کراچی گزارنے اور وہاں سے بھی دل اچاٹ ہونے کے بعد واپس گھر کی راہ لی۔ پھر دیار غیر کے سفراور ان سے جڑی داستانیں ہیں .

یہاں (دیار غیر میں) ایک بہت ہی مل نسار دوست سے گپ شپ کے دوران معلوم پڑا کہ وہ قادیانی ہے اور قادیانی پاکستان کے آئین کی نظر میں کافر ہوتے ہیں. سواس سے بھی جان چھڑائی ۔

فکر وعقل اور عقیدوں کے ان تمام نشیب و فراز سے گزرنے کے بعد اب اپنی حالت یہ ہے کہ من چاہا تو رب کو یاد کرنے جو بھی مسجد یا امام بارگاہ نزدیک ملی اسی میں داخل ہو کر دیر تک رب کے ساتھ تنہائی میں باتیں اورنہ چاہا تو کمرے میں ہی اس سے باتیں کرتا رہتا ہوں.

ایک دن یہاں ایک امام بارگاہ سے باہر نکل رہا تها تو ایک کشمیری دوست نے دیکھ لیا، پوچهنے لگے کہ تم شیعہ کب سے بنے. میں نے جواب دیا کہ بهائی یہ تو ایک عبادت گاه ہے. اس میں بننے و ناں بننے کی کیا بات ہوئی ۔ وه بولے جس کا کوئی مسلک نہیں اس کا ایمان نہیں. خیر میں نے چائے پلا کر ان سے معافی مانگی کہ اب محتاط رہوں گا.

احباب! یہ سب کُچھ میں کبھی بھی نہ لکھتا اور من میں ہی بوجھ لیے مَر جاتا لیکن آج عجب اتفاق ہوا کہ میرا چار سالہ بیٹا عثمان فیصل محلہ کی مسجد میں نورانی قاعدہ پڑھنے جاتا ہے. پتہ نہیں اس نے کیا جرم کیا کہ مولوی صاحب نے اسے کوڑھی ہو کر مرنے کی دھمکی دے ڈالی۔

بچے نے ڈر کے مارے مولوی صاحب کو کُچھ نہیں کہا لیکن جب فون پر مجھے بتایا تو اپنا بیتا کَل میری آنکھوں کے سامنے گھوم گیا۔

ایک بے بس و لاچار باپ نے مولوی صاحب کی نصیحت کی تائید کرتے ہوئے اپنے بچے کو ان کی باتوں پہ عمل کرنے کا حکم دیا.

لیکن اصل معاملہ یہ ہے کہ میں اپنے بچے کو کسی ایسے مدرسے میں داخل کروانا چاہتا ہوں جہاں اسے ایک اچها مسلمان عالم بنایا جائے، جہاں اسے تمام
انسانوں سے محبت سکهائی جائے اور وہ کسی بهی مسلم مسلک (دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث یا شیعہ وغیرہ) کو گمراہ نہ سمجهتا ہو.

خدا را مجهے بتائیے کہ کس مدرسے میں بچے کا داخلہ کراوں.

اس مملکت خداداد میں کوئی تو ایسا مدرسہ ہو گا جس میں مسلکی دین کے بجائے سلامتی والا سچا دین سکهایا جاتا ہو گا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے