اردو کو بین الاقوامی زبان کیسے بنائیں؟

اس کی اشاعت پانچ ہزار ہے اورقارئین کی تعداد 60 ہزار ہے،اس ہفتہ وار اخبار کا دفتر اسلام آباد میں دو سال سے کام کر رہا ہے اور رواں ہفتے اس کا 21 واں ایڈیشن شائع ہوا ہے، اخبار کی چیف ایڈیٹر چینی نژاد رما ہیں جبکہ عملے میں چینی اور پاکستانی افراد دونوں شامل ہیں،آپ اس اخبار کے دفتر میں موجود ہوں تو ایسا نہیں لگتا کہ اسلام آباد کے مصروف کاروباری علاقے میں واقع عمارت میں ہوں بلکہ کان پڑی آوازیں، دیواروں پر آویزاں تصاویر اور چینی روایتی قہوے کے لوازمات سبھی بیجنگ کا نمونہ پیش کرتے ہیں، یہ خواشاں ہے،چینی زبان میں ‘خوا’ کا مطلب ہے پھول اور ‘شاں’ کا معنی ہے کاروبار۔ اس طرح لفظی معنی ہوا پھول کاروبار لیکن لغوی معنی ہے خالص کاروبار،

خواشاں چین کا پہلا ہفت روزہ اخبار ہے جو پاکستان سے شائع ہو رہا ہے،اخبار کی چیف ایڈیٹر رما کہتی ہیں کہ ‘اخبار پاکستان اور چین میں کاروبار کے حوالے سے خاص طور پر کام کرتا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی ادارتی پالیسی میں دونوں ملکوں کی ثقافت، سیاحت اور تفریح سے متعلق خبروں کو بھی اہمیت دی جاتی ہے،چیف ایڈیٹر رما خود پاکستان میں نو وارد ہیں اور کہتی ہیں کہ پاکستان کی ثقافت میں گھلنا ملنا ان کی توقع سیزیادہ آسان ثابت ہوا،خبار چینی زبان کے ساتھ انگریزی میں بھی شائع ہوتا ہے،ادارے کے مطابق اس کے صارفین میں پاکستان میں چینی سفارت خانے کا عملہ، چینی کمپنیوں میں کام کرنے والا سٹاف بھی شامل ہے جبکہ پاکستان اور چین میں موجود کاروباری افراد بھی اسے شوق سے پڑھتے ہیں،

ادارے کا کہنا ہے کہ وہ مستقبل میں ہفتہ وار اخبار کو روزنامے کے صورت دینا چاہے گا،ان کی نظر میں پاکستان میں چینی زبان کی صحافت کا مستقبل روشن ہے۔
اخبار سے منسلک سینیئر عہدیدار ارسلان رضا نے کہا کے اس وقت پاکستان میں چار لاکھ چینی افراد موجود ہیں جبکہ صرف اسلام آباد میں ان کی تعداد 20 سے 25 ہزار کے درمیان ہے،اس لیے چینی زبان کے پڑھنے والے بڑی تعداد میں موجود ہیں، ان کا کہنا تھا کہ ‘خوا شاں’ پاکستان اور چین دونوں جانب سے قارئین کا اعتماد حاصل کرنے میں کامیاب رہے گا،پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کے اعلان کے بعد سے توانائی، تعمیر اور مواصلات کی کئی کمپنیوں نے پاکستان میں کاروبار بڑھایا ہے لیکن یہ ہفتہ وار چینی اخبار اپنی نوعیت کا پہلا صحافتی قدم ہے۔

یہ بی بی سی لندن کی دفتری ویب سائٹ ہے، چین کا پہلا ہفت روزہ اخبار سی پیک سے قبل پاکستان کام کررہا ہے ،اسے چینیوں کی دور اندیشی کہا جائے یا پھر چالاکی کہا جائے یا آپ انھیں عظیم انقلابی ماؤزے تنگ کی سوچ کہا جائے ہر طرح سے درست پائیں گے،کچھ لمحوں کے لیے سی پیک کی طرف آئیے،سی پیک کے پاکستان اورچین میں جہاں چرچے ہیں، اس سے زیادہ بھارت میں بڑا ڈھول پیٹا جارہاہے،پاکستان اور چین کے مابین سی پیک معاہدہ طے ہوا تو پاکستان کے پڑوسی ملک بھارت کے پیٹ میں مروڑ اٹھنا شروع ہوگئے، سب سے زیادہ تکلیف بتائی جارہی ہے وہ بھارت کے میڈیا چینلز کے ڈگڈگی باز اینکرز میں ہے،جن کو یہ بیماری طاعون سے بھی زیادہ سرایت کرچکی ہے،اس مروڑکا سب سے زیادہ شکار بھارتی ٹی وی ژی نیوز کے ایک اینکر سودیر چوہدری بتائے جا رہے ہیں،دنیا بھر کے معالجین سے علاج کرا چکے ہیں،لیکن افاقہ ہوانہیں،اسی طرح کچھ اور چینلز میں بھی یہ بیماری ہیضے کی طرح پھیلی ہوئی ہے،اس بیماری کے پیچھے ایک دو ایسے وائرسز کا انکشاف ہوا ہے جن کے تدارک کے لیے کوئی دوا میسر نہیں،یوں سمجھ لیجئے یہ دونوں وائرسزکینسر سے بدتر بن کر بھارتی میڈیا میں اتر چکے ہیں۔

مختصرا ذکر خیر ان وائرسزکا کرتے چلیں اس وقت بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ایک پوسٹر بوائے آزادی پسند نوجوان برہان وانی کی گزشتہ برس 8جولائی کو بھارتی درندہ صف فوج کے ہاتھوں شہادت کے بعد وادی کشمیر میں آزادی کی تحریک میں ایک نیا جوش اور ولولہ آیا،جس کے بعد آزادی کی تحریک کا وائرس بھارتی مقبوضہ کشمیر سمیت اسلاف کے بل بوتے آزاد خطہ و گلگت بلتستان میں اس قدر پھیل چکا ہے، آپ ایک پتھر اٹھائیں اس پر بھی آپ کو آزادی لکھا ملے گا،آپ بھارتی مقبوضہ کشمیر سے آنے والے ٹماٹر کی پیٹی کھولیں یا سیب کی پیٹی ان پر بھی آزادی لکھا ملے گا،یوں سمجھ لیجئے آزادی مانگنے کا یہ وائرس وادی کشمیر کے علاوہ دنیا بھر میں پھیلنے لگا ہے،جس کا سب سے زیادہ شکار بھارت اور اس کا ناچتا متعصب میڈیا ہے،

آپ کو دنیا کا سب سے بڑا جھوٹا اور گھٹیا میڈیا دیکھنا ہو تو شوق سے کوئی بھی بھارتی ٹی وی چینل آن لیں،ان کا ہر رپورٹر اور اینکر دریندر مودی اور یوگی ادتیاناگ کی رضائی سے ملیں گے،جبکہ ان کے کیمرہ مین رضائی سے شوٹنگ کرتے آپ کو واضح نظر آئیں گے، آزادی مانگنے کے وائرس نے ان کے وزیراعظم دریندر مودی کو ذہنی طور پر مفلوج کردیا ہے،عنقریب کسی پاگل خانے کے عقوبتی حصے سے یہ کہتے ہوئے آپ کو ملیں گے کہ ’’میں پاغل تے ناں میں پاغل تے ناں‘‘۔

اپنے وزیراعظم کو اس وائرس سے بچانے کے لیے بھارتی میڈیا جہاں ڈھول پیٹ رہا تھا وہیں خود بھی اس کا شکار ہوگیا،اس وائرس کے پھیلانے کے مرتکب وہ کشمیری نوجوان ہیں،جنھیں بھارتی میڈیا نے پتھر باجوں کا نام دے دیا ہے،یہ پتھر باج اتنے طاقت ور ہوچکے ہیں،امریکہ اور اسرائیل سمیت دنیا بھر سے خرید اہوا اسلحہ اور پیلٹس بے کار ہو گئے ہیں، ماہرین کا کہنا ہے کہ آنے والے چند روز میں یہ وائرس پورے بھارت کو لپیٹ میں لے کر اپنی انارکی دنیا بھر میں پھیلا سکتا ہے،بھارتی بیمار میڈیا کے مطابق اس وائرس کو دنیا بھر کے ماہرین نے لاعلاج قرار دے دیا۔

دوسرا وائرس پاکستان کی سرزمین بلوچستان سے انڈین راء ایجنسی کا حاضر سروس نیوی افسر کلبھوشن جادو پکڑا گیا،بھارتی بیمار ذہن کے وزیراعظم اور ان کے میڈیا کو علم ہی نہیں تھا کہ اب ان کی ہر ہر حرکت پریعقوب نے خاموش نظر رکھی ہوئی ہے، یعقوب نے جادو کو مکروہ سرگرمیوں میں ملوث پایا پہلے رسی ڈھیلی کی اور پھر زبردست طریقے سے دبوچ لیا،جادو اب یعقوب کے ہاتھ میں ہے،ایک دن یعقوب نے یہ اعلان کردیا کہ اس کے ملک میں فساد کا سرغنہ جادو بول اٹھا ہے ساری کہانی کہ جادو کا ملک پورے ایشیاء میں امن کا دشمن ہے،معصوم انسانوں کا قتل عام ان کا مکروہ مشغلہ ہے،جادو کے اعتراف جرم کی بدولت اسے نشان عبرت بنانے کے لیے پھندے پر لٹکانے کا حتمی فیصلہ کیا گیا ہے، اب اسے لٹکا کر اس کے ملک کو بتایا جائے گا کہ چوروں کی طرح دوسروں کے ملک میں گھسنے کا انجام کیسا ہوتا ہے،

یعقوب نے جوں یہ اعلان کیایہ اعلان بھارت میں پرمانو بم کی طرح گرا،کل تک اس جاسوس کو اپنا شہری تسلیم کرنے سے انکار کرنے والے اسے بیٹا قرار دینے لگے، یوں اس وائرس نے پورے بھارت کو لپیٹ میں لے رکھا ہے، ماہرین کا خیال ہے،اس وائرس کی آڑ میں آزادی کے وائرس سے جان چھڑانے کی کوشش کی جارہی ہے،بھارت میں یہ دونوں وائرس خطرناک صورت اختیار کرچکے ہیں،آنے والے چند ماہ میں بھارت میں بھرپور سرایت کرجائیں گے،عین ممکن ہے اقوام متحدہ نے بھی وادی کشمیر میں ٹیک اوور کرنے کی ٹھان لی ہے،آزادی کے وائرس پر ا یک خصوصی کالم میں گفتگو ہوگی۔

واپس آتے ہیں چینی اخبار کی طرف، خواشاں نے اپنے پنجے پاکستان میں گاڑھ لیے،بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق آنے والے روز میں یہ اخبار روزنامے کی صورت میں ہوگا،سی پیک کا پہلا چینی تحفہ قبول کیجئے ،یعنی چینی اپنی زبان کی اہمیت لیے پاکستانیوں کو چینی سکھانے آگئے ہیں،اب تو آپ کا مزدو ر بھی چینی آرہا ہے،سوچنے کا مقام ہے،آپ کا مزدور عرب امارات میں خجل ہورہا ہے،لیکن آپ کے ملک میں روزگار میسر نہیں،لیکن اس کے بدل میں کتنے پاکستانی اخبارت کے مدیران سی پیک دوروں پر جائزہ لینے چین گئے کہ برابری کی سطح پر ہم بھی اپنے پلانٹ چائنہ میں لگانا چاہتے ہیں ،کیا پاکستانی اخبارات بھی چین سے چھاپے جاسکتے ہیں؟یہ بھی سوچنے کی بات ہے،لیکن آپ دماغ لگائیں کہ ماؤ ہر چینی کے دماغ میں گھسا ہے،آپ ایک کان میں بھر کر کیوں دوسرے سے نکال دیتے ہیں،

چین کے اس خواشاں اخبار کے قارئین کی تعداد اور دیگرمعلومات کالم کے ابتدائیہ میں موجود ہے،اصل مدعے کی طرف آتے ہیں،آپ اردو کو انٹر نیشنل لینگویج کیسے بناسکتے ہیں؟ایک معصوم سا سوال ہے؟پاکستان کی سپریم کورٹ نے اردو کو دفتری زبان کی حیثیت دلوانے کا فیصلہ دے رکھا ہے،یاد رہے کہ چیف جسٹس پاکستان جواد ایس خواجہ نے اردو کو سرکاری سطح پر نافذ کرنے کا تاریخی فیصلہ دے رکھا ہے لیکن حکومت وقت نے فیصلے پر عمل در آمد نہ کرایا،یہ سوال آپ حکومت سے پوچھ سکتے ہیں؟ آپ حکومت کو جواب دینے کے لیے جلسے جلوس اور ریلیاں توجہ دلاؤ نوٹس بھی جار ی کرسکتے ہیں،آپ پلے کارڈ ز پر اردو بول کے سلوگنز بھی جاری کرسکتے ہیں،جس سے یقیناًآپ کو حکومت جواب دے گی،یاد رہے کہ اردو کے حق میں آنے والا فیصلہ انگریزی میں آیا؟اس کو اردو میں جاری کیا جانا چاہیے تھا،سپریم کورٹ کے پاس اختیار ہے کہ حکومت وقت کے ذمہ دارن سے عمل درآمد کا استفسار کرے۔

شباب و کباب کی رسیا چینی قوم کو جگا کر انقلاب کی شمع جلانے والے ماؤزے تنگ کی سوچ کی عکاسی مجھے بی بی سی کی رپورٹ میں نظر آئی، کسی بھی ملک میں شرح خواندگی بڑھانے کے لیے اخبارات کا اہم کردار ہے،اخبارات گلی گلی اور محلہ محلہ خود اپنا راستہ بناتے ہیں،آ ج پاکستان میں ہزاروں کی گنتی میں اخبارات ہیں،بحثیت کشمیری شہری مجھے فخر ہے آج وادی کشمیر میں بھی اخبارات کا ایک سیلاب امڈ آیا ہے،جو اپنی آزادی کی جنگ قلم کے بل بوتے لڑ رہے ہیں، لیکن ہمیں یہ ماننا پڑے گا کہ ان اخبارات کا بیانیہ کیا ہے؟ کیا یہ اخبار اپنے ملک سے انصاف کر رہے ہیں؟اپنے ملک کے بیانیے کو دنیا میں آشکار کررہے ہیں کہ نہیں یقیناًجواب ناں میں ملے گا،پہلے چینی اخبار کی پاکستان میں تیاری اور حیرت انگیز سرکولیشن نے کان ہلا کر رکھ دیے کہ آپ کہاں کھڑے ہیں اور چین کہاں بیٹھا ہے؟

آج میں ماؤ کی سوچ میں ہر چینی کے اندر دیکھ رہا ہوں ہر چینی ماؤ بنا پھر تا ہے،لیکن محو حیرت ہوں کہ پاکستانی قائد اعظم محمد علی جناح کی سوچ کیوں نہ بن سکے؟خیران کا داخلی معاملہ ہے۔

ماؤزے تنگ عظیم انقلابی تھا جو انگریزی پر بڑا عبو رکھتا تھا،ماؤ نے اتنی کتابیں پڑھیں کہ جتنی یورپ کے ادیب نہ پڑھ سکے،ماؤ یورپ سے کتابیں منگوا کے پڑھا کرتا تھا،رچرڈ نکسن ایک انگریز ادیب چین آیا تو ماؤ نے اسے اس کی کتابیں دکھائیں جو وہ پڑھ چکا تھا،اسے بڑی حیرانگی ہوئی کہ ماؤ بھی انگریز جانتا ہے،نکسن محوحیرت تھا کہ ماؤ انگریزی پر دسترد ہونے کے باوجود مترجم کے ساتھ بات کرتا تھا۔

ماؤ نے کہا کہ’’ میں چینی ہوں ،چین اور چینی زبان سے محبت کرتا ہوں،دوسرا میں دنیا کو بتا دینا چاہتا ہوں کہ ’’چین کوئی گونگا نہیں ہے‘‘جس نے ہم سے بات کرنی ہے یا ہماری بات سمجھنی ہے وہ ہماری زباں سیکھے‘‘

ماؤ کا قوت برداشت بھی دیکھیے جب کوئی انگریز ی میں لطیفہ سناتا تو ماؤ کے چہرے پر کوئی کمی یا زیادتی نہ آتی لیکن جب کوئی چینی میں لطیفے کا ترجمہ کرتا تو ماؤ کھل کھلا کرہنستا اور سب سے اونچا قہقہہ لگا تا،حالانکہ وہ انگریزی پر عبور رکھنے کے باوجود اسے کوئی اہمیت نہ دیتا تھا یہ اس کا حسن زن تھا جو اپنی قوم کے لیے تھا،ماؤ نے اپنی زبان کو اہمیت دی،ایک ایسا نیریٹو بلٹ کیاجس کے ثمرات چینی دیکھ رہے ہیں،یہ تھی چینی لیڈر شپ کی سوچ اور فکر جس نے ایک سوئی ہوئی پرتعیش قوم کو جگایا ان کے اندر کچھ کرنے کی ہمت بڑھائی اور سپر پاور بننے کی راہ ہموا ر کردی،ماؤ کی سوچ نے اس کے دشمنوں کو بھی ’’میڈ ان چائنہ ‘‘ کے استعمال کر مجبور کردیا۔

آپ موبائل اٹھائیں ،آپ ٹی وی ،ایل سی ڈی اٹھائیں،بچوں کے کھلونے اٹھائیں ،جوتے، کپڑے ،کمپیوٹر سمیت ہر ایک چیز جو پاکستان میں استعمال ہو رہی ہے،اس پر میڈ ان چائنہ لکھا ملے گا،لیکن پاکستانیوں کو بھی آنکھیں کھولنی چاہیءں،چین کو دنیا تک جانے کا موقع تو دے دیا۔

لیکن!!ہوشیار رہتے ہوئے نکمے اوباش کچھ کیا کر کپڑے ادھیڑ کر سیا کر کے مصداق اپنی پراڈکٹس متعارف کرانی چاہییں۔

اب آتے ہیں اردو کی جانب یہ ہندو پاک کی زباں سمجھی جاتی ہے،جبکہ سرایت یہ بھی کرچکی ہے،دنیا میں ایک بڑی زبان کے طور پر ابھرنے لگی ہے،لیکن اس کے نفاذ اوراشاعت کے لیے پاکستان میں اتنی اہمیت نہیں مل رہی ،جس کی بنیادی وجہ آپ کے حکمراں ہیں،جن کو انگریزی میں لکھا سکرپٹ دیا جاتا ہے،دیکھ دیکھ کر پڑھتے ہیں،سکرپٹ لکھنے والا کوئی اور پڑھنے والا کوئی اور،ملک کے چیف ایگزیکٹو کی اقوام متحدہ میں نمائندگی انگریزی میں تقریر کی صورت میں ہوتی ہے،جبکہ دنیا کے دوسرے ممالک اپنی زبانوں میں تقریریں کرتے ہیں،آپ صرف بتانا چاہ رہے ہوتے ہیں کہ آپ کو بھی انگریزی آتی ہے۔

یہاں ذمہ دار آپ خود بھی ہیں ،آپ غیر ملکی زبانوں کو اہمیت دیتے ہیں،مگر اپنی زبان بولنے والوں کو بھولا اور پینڈو کہہ کر پکارتے ہیں،حقیقت میں آپ خود پینڈو ہیں جو اپنی پالیسی بنانے کے بجائے لوگوں کی نقل کر تے ہیں،اگرآپ ماؤ کی طرح اپنی اردو زبان کو اہمیت دیں تو آپ بھی دنیا کی طاقت ور قوم بن سکتے ہیں،آپ اپنا برانڈ دنیا بھر میں بھجوا سکتے ہیں،جب آپ اپنے برانڈ کو اہمیت دیں گے تو تب دوسرے لوگ بھی اس کی قدر جانیں گے۔

آپ دنیا کے کسی بھی ملک میں ہیں،آپ کے ساتھ کوئی عربی کام کررہا ہے یا مصری،انگریز ہے یا عیسائی کسی بھی ملک کا کوئی شہری ہے،جس کی آپ زبان نہیں سمجھتے یا آپ کی زبان نہیں سمجھتا،آپ صرف ایک چھوٹا سا کام کیجئے آپ اپنی مقامی زبان یا پھر اردو زبان یا دونوں اپنے صرف دو غیر ملکی دوستوں کو سکھاتے جائیں،اس کے بدل میں آپ ان کی زبانیں سیکھنے کی کوشش کریں جب گورے انگریز ماؤ کی طرح کالے انگریزوں کو ان کی زبان سیکھنے پر مجبوکر رہے ہوتے ہیں توآپ شوق سے انگریزی سیکھنے میں صف اول میں ہوتے ہیں،آپ فخر محسوس کرتے ہیں کہ آپ کو انگریزی پر عبور ہے،آپ اپنے آپ کو دنیا کا خوش قسمت شخص محسو س کر تے ہیں،آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو جنت کا ٹکٹ مل گیا،لیکن آپ کو سرے سے علم نہیں کہ آپ کی مقامی اور قومی زبان کی بھی بڑی اہمیت ہے،آپ صرف دو کو سکھا کر آگے دو دوستوں کو سکھانے کی کوشش کرنے کا بولیں تو ایک لامتناعی چین بنتی جائے گا،

ایک دن دنیا پوری اردو بولتی نظر آئے گی،آپ کو دنیا کی زبانوں پر عبور ہوگا،سعودی عرب میں کچھ ہمارے شہری جاتے ہیں جنھیں عربی پر عبور نہیں ہوتا ،ان کی بات کہنے والا کوئی اور ہوتا ہے،ان کی غلطی ہے کہ وہ زبان سیکھنے کی کوشش نہیں کرتے ،دس سے بیس سال گزارنے کے بعد چٹے گورے بن کر آتے ہیں لیکن وہاں کی زبان سیکھ نہیں پاتے۔

دو اور دو چار کی اس مہم کا حصہ بن کر دنیا بھر میںآپ پھیل جائیں،آپ اپنے اخبارات بیرون ملک منگوائیں،وہ کاپیاں دوسرے ممالک کے لوگوں تک پہنچائیں، آپ کشمیر میں ظلم کو بے نقاب کریں ،سامراجی قوتوں کے خاتمے اور کشمیریوں کی نسل کشی روکنے کے لیے دنیا کی حمایت حاصل کریں،اپنی مقامی زبان میں سکرپٹ لکھ کر ویڈیو میں اس غیر ملکی سی پڑھوائیں اور اس کی مقامی زبان میں بھی ریکارڈ کرائیں تو ایک دن آپ کیا دنیا کی نمبر ون قوموں میں شمار ہونے لگیں گے، آپ سفارتی سطح پر عوام کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے،جب آپ غیر ملکی عوام کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے تو اگلے مرحلے میں آپ ان کے پارلیا منٹ کا رخ کریں ،وہاں سے پارلیمنٹ اراکین سے بھی حمایت حاصل کریں،آج کے دور میں ویب جرنلزم ایک بڑی طاقت ہے،اس طاقت سے فائدہ اٹھائیں ،آپ سی پیک کے ثمرات کا فائدہ بھی خود سے اٹھانا شروع کریں تو چائنہ میں مقیم پاکستانیوں اور کشمیریوں کے لیے اردو اخبارت کے ایڈیشنز وہاں سے پرنٹ کرائیں ،چین سمیت دنیا بھرکی اپنے اخبارات کی جانب توجہ دلوائیں،نئے شوق سے لوگ نوکریاں لینے آپ کے ملک میں آنا شروع کردیں گے،تو کیسا ہوگا آپ کا ملک؟

آپ کے اس چھوٹے سے اقدام سے آپ کا ملک خود کفالت کی جانب بڑھنا شروع ہوجائیگا تو کیسا ہوگا آپ کا ملک؟کشمیر کا معاملہ جب دنیا اپنی زبانوں میں بولے گی توکشمیریوں کو ان کی تحریک کا کتنا فائدہ ہوگا؟ان ساری کامیابیوں کا راز آپ دو اور دوچار ہوتے ہیں کے فارمولے کو اپنی زندگی میں فٹ کرکے ہی پا سکتے ہیں،انسان کی فطرت ہے تجربے کے بعد ہی یقین کرتا ہے،آپ کے پاس اس آئیڈیے کو سیریس لیتے ہوئے تجربہ کرنے کا پورا موقع ہے،اس کے بعد اگر اچھا لگے تو اپنی زندگی کا محور بنا لیں،اسی کی بدولت ایک دن آپ اردو کو بین الاقوامی زبان بنانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے