اسرائیل ،سعودی عرب اور ٹرمپ ،اندر کی بات

ہم لوگوں کو فرقہ واریت سے بہت ڈرایا جاتاہے۔ اگر ہم نہ ڈریں تو ہمیں قتل بھی کروادیاجاتاہے۔ ہمیں یہ یقین کروایاجاتاہے کہ ہمارے ملک میں اور ہمارے اردگرد کی دنیا میں فرقہ واریت کی جنگ ہو رہی ہے۔

جب سعودی عرب نے مکے اور مدینے کے مقدس مقامات کو مسمار کیا اور نورانی قبروں پر بلڈوزر چلوائے تو ہمیں کہا گیاکہ خبردار زبان نہ کھولنا یہ فرقہ واریت ہے!

جب صدام نے ایران پر حملہ کیا تو ہمیں کہاگیا کہ یہ بھی فرقہ وارانہ جنگ ہے!

جب بری امام سرکار کے روضے اور داتا دربار پر خود کش حملے کئے گئے تو پھر بھی کہا گیا کہ یہ بھی فرقہ وارانہ لڑائی ہے!

جب قاری سعید چشتی قوال اور امجد صابری کو گولیاں ماری گئیں تو پھر بھی یہی کہا گیا کہ یہ فرقہ پرست لوگوں کا کام ہے۔

آخر ہمیں بھی تو کچھ سوچنا چاہیے کہ یہ ایک فرقے کو اچانک کیا ہوگیا ہے کہ یہ یکطرفہ طور پر دوسروں کی قبریں اکھاڑنے لگاہے، ان کے مقدس مقامات پر حملے کرنے لگا ہے نیز گلوکاروں اور قوالوں حتی کہ سکول کے بچوں کو بھی قتل کرنے لگا ہے۔

بات یہ ہے کہ جس طرح آج کل امریکہ کی طرف سےسعودی عرب کو دھڑا دھڑ اسلحہ دیا جارہاہے، اسی طرح شہنشاہ ایران کے زمانے میں ایران سے تیل اور پیسہ نچوڑ کر ایران کو اسلحہ بیچا جاتا تھا، جب ایران میں انقلاب آگیا تو ایران میں جمع شدہ اسلحے کو تلف کرانے کے لئے صدام سے ایران پر حملہ کروایا گیا ، سات سال تک صدام کو ایران کے خلاف خوب اسلحہ بیچا گیا، جب صدام کو بیچا ہوا اسلحہ،بیچنے والوں کی آنکھوں میں کھٹکنے لگا تو اسلحہ فروش صدام کو کویت پر حملے کی شہ دے کر خود ہی عراق پر چڑھ دوڑے۔

پاکستان میں جولوگ فخرِ پاکستان تھے، جو پاکستان کے عوام کو شعور دے سکتے تھے اور بیدار کر سکتے تھےوہ چاہے فوج ، پولیس، صحافت، تعلیم یا کسی اور شعبے سے تعلق رکھتے تھے ، انہیں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔

اب ہمیں یہ تاثر دیا جارہاہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان فرقہ وارانہ جنگ ہے ۔ در اصل اس غلط فہمی کے پیدا کرنے کے دو مقاصد ہیں ،ایک تو اسرائیل سے مسلمانوں کی توجہ ہٹانا اور اسے محفوظ بنانا اور دوسرے عرب ریاستوں کو ایران سے ڈرا کر اسلحہ فروخت کرنا ۔

نئے امریکی صدر نے ریاض کانفرنس میں اپنی تقریر کے ذریعے ایران کے خلاف اپنے اسلحے کی فروخت کے لئے راستہ ہموار کیا ۔اس کے بعد اب اسرائیل میں جاکر اسرائیل کو تسلی دی ہے کہ مطمئن ہوجاو ، تمہیں بھی کچھ نہیں ہوگا اور ہمارا اسلحہ بھی بکے گا۔

اس وقت عرب ریاستوں کو خصوصا سعودی عرب کو امریکہ اور اسرائیل کے ماضی سے سبق لینا چاہیے اور انہیں یقین کرنا چاہیے کہ اگر وہ اسی طرح دھڑا دھڑ اسلحہ خریدتے رہے اور اسلحے کا گودام امریکہ و اسرائیل کی خواہش کے مطابق بروقت خالی نہ ہوا تو خود امریکہ اور اسرائیل ہی سعودی عرب کو نشانِ عبرت بنا دیں گے۔

امریکہ اپنا اسلحہ صرف اسی لئے سعودی عرب کو فروخت کر رہاہے کہ وہ آگے استعمال کرے اور مزید اسلحہ خریدے ، چنانچہ سعودی عرب اسے کبھی یمن اور کبھی بحرین پر پھینکتا ہے لیکن امریکہ چاہتا ہے کہ سعودی عرب اس سے بڑے پیمانے پر کسی بڑی جنگ میں اترے اور اس کا اسلحہ بڑے پیمانے پر فروخت ہو۔
سعودی عرب کو کسی بڑی جنگ میں دھکیلنے کے لئے سعودی عرب کو آگے کر کے ایک اسلامی فوجی اتحاد بھی بنوایا گیاہے۔ یاد رکھئے اس وقت سعودی عرب ، امریکہ کی رہنمائی میں جتنا آگے بڑھتا جارہاہے اتنا ہی اس کی اپنی سلامتی کے لئے خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ سعودی عرب کی موجودہ حکومت کی حدسے بڑھی ہوئی امریکہ نوازی سے خود سعودی عوام اور دانشمندوں کا ایک طبقہ اور سعودی شہزادوں کی ایک تعداد بھی نالاں ہے۔

اگر کسی بھی لمحے خود سعودی شہزادوں کے درمیان امریکی و اسرائیلی مکاریوں کے مسئلے پر اختلافات پھوٹ پڑے اور امریکہ نے سعودی عرب میں حکومت کی تبدیلی کے خطرے کو محسوس کیا تو امریکہ شہنشاہ ایران اور صدام کی طرح ، بادشاہوں کو بچانے کے بجائے، فورا اپنے بیچے گئے اسلحے کے بارے میں فکر مند ہو جائے گا، اس کی پہلی ترجیح یہی ہوگی کہ جمع شدہ اسلحے کو کسی نہ کسی طرح استعمال کروایا جائے۔ یوں موجودہ سعودی حکومت کی پالیسیوں کے نتیجے میں سعودی عرب کو کسی نہ کسی جنگ کا سامنا کرنا ہی پڑے گا اور بد قسمتی سے ایک خوشحال سعودی عرب بھی شام ، عراق اور افغانستان کی طرح میدان جنگ بن جائے گا۔

ہمیں چاہیے کہ ہم امریکہ اور اسرائیل کے عزائم کو سمجھیں اور وہی باتیں نہ کریں جو امریکہ اور اسرائیل کرتے ہیں۔بے شک جس بات میں امریکہ اور اسرائیل کا فائدہ ہے، اس میں عالم اسلام کا کوئی فائدہ اور بھلائی نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے