ہمیں گننا نہ بھول جانا

گذشتہ دنوں رحیم یار خان میں ایک انوکھا واقعہ پیش آیا جب خا نہ شماری ٹیم کی جانب سے گھر کی خواتین کے نام پوچھے جانے پر ایک شخص شدید مشتعل ہوگیا اوران کے نام بتانے سے صاف انکار کر دیا۔ پولیس نے مقدمہ درج کرلیا جبکہ مذکورہ شخص کوحوالات کی ہوا کھانی پڑی۔ یہ واقعہ جہاں ہماری عمومی سوچ کی عکاسی کرتا ہے وہیں ان خدشات کا بھی باعث ہے کہ کیا ملک میں جاری مردم شماری اپنی اصل روح کے ساتھ ہو پائے گی۔ ملک کی مختلف سیاسی جماعتیں جہاں اس مردم شماری پر اپنے تحفظات کا اظہارکر چکی ہیں وہیں ایوان بالا کے متعدد سینیٹرزکو بھی حکومت کی جانب سے منعقد کی جانے والی چھٹی مردم شماری کے شفاف ہونے پر شکوک و شبہات ہیں۔ المیہ یہ ہے پاکستان ، صومالیہ ، افغانستان اور لبنان سمیت ان چار ممالک میں شامل ہے جہاں گذشتہ 20برسوں سے مردم شماری نہیں ہوئی ا ور حال تو یہ ہے کہ سندھ کے وزیر اعلیٰ فرماتے ہیں کہ صوبے کی۳۰ فیصد آبادی شناختی کارڈ سے ہی محر وم ہے جوایک لمحہ فکریہ ہے۔

ملک میں جاری چھٹی مردم شماری میں ہماری خواتین کی درست گنتی ہو پائے گی یا نہیں، اس پر ایک سوالیہ نشان بنتا جارہا ہے۔ ہم گذشتہ دو دھائیوں سے ۱۹۹۸ میں کی جانے والی مردم شماری پر تکیہ کیے بیٹھے تھے جس کے بارے میں اب یہ کہا جارہا ہے کہ اس میں خواتین کے اعداد وشمارمیں سنگین بے قاعدگیاں پائی گئیں ہیں۔ پاکستان بیوروآف اسٹیٹسٹکس نے بھی اپنے فارم 2کے ہدایت نامہ میں اعتراف کیا ہے کہ گذشتہ مردم شماری میں خواتین اور لڑکیوں کو نظرانداز کیا گیا جس کے باعث مردوں اورعورتوں کے مابین صنفی تناسب شدید طور پر متاثر ہوا۔

یہ ارض پاک اس وقت نہ صرف مذہبی انتہا پسندی کاشکار ہے بلکہ ہمارا معاشرہ اس وقت شدید صنفی انتہا پسندی سے بھی دوچار ہے۔ پاکستان بیوروآف اسٹیٹسٹکس کے مطابق اکثرروایتی پابندیوں اورخواتین سے روا رکھے جانے والے ظلم اور متعصبانہ سلوک کے باعث مرد اور گھر کے سربراہ ان کے بارے میں درست معلومات فراہم نہیں کرتے یا وہ اکثر مردم شماری کے اوقات میں گھر پر نہیں ہوتے اور خواتین معاشرتی اور مذہبی پابندیوں کے باعث اپنا اندراج نہیں کروا پاتیں جو ایک انتہائی توجہ طلب معاملہ ہے۔

دوسری جانب سول سوسائیٹی کی تنظیموں کی جانب سے ملک میں جاری چھٹی مردم شماری کے عمل میں خواتین کی شمولیت کا پرزور مطالبہ سامنے آیاہے جبکہ سول سوسائٹی اور انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے 1998کی مردم شماری میں خواتین کی عدم شمولیت کے باعث ملک کے متعدد اضلاع میں درست اعدادوشمار نہ ہونے سے صنفی تناسب کا توازن انتہائی بگڑ گیا ہے اورحکومت کو فوری طور پر خواتین کی شمولیت کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے چاہیں۔

افسوسناک بات یہ ہے کہ جب خواتین انتخابات میں پریزائیڈنگ آفیسر بن سکتیں ہیں، پولیو کے قطرے پلانے والا مشکل اور دقت طلب کام کر سکتی ہیں تو مردم شماری کے عمل میں ان کی شرکت میں کیا امر مانع ہے۔ پاکستانی خواتین معاشرے میں مردوں کے شانہ بشانہ نہیں بلکہ دو قدم آگے ہی نظر آتیں ہیں۔ چاہے تعلیم کا میدان ہو یا طب کا،پولیس ہو یا ایویشن،میڈیا ہو یا کارپوریٹ دنیا ہماری خواتین اپنی قابلیت اورہمت سے اپنا مقام بنا چکی ہیں۔ پاکستان 1998کے بعد سے اب بہت تبدیل ہوچکا ہے اور بجائے اندازوں اور تخمینوں پر انحصار کرنے کے یہ بہت ضروری ہے کہ مردم شماری میں خواتین کے اعدادو شمار کو انتہائی پیشہ ورانہ اور ساینٹیفک طریقے سے ریکارڈ کیا جائے ۔

پاکستان کو اس وقت جن مسائل کا سامنا ہے ان میں انتہاپسندی، غربت، تعلیم، صحت اور بیروزگاری سرفہرست ہیں اور ان تمام کا براہ راست تعلق آبادی سے ہے۔ درست طریقے سے ہونے والی مردم شماری سے ہم نہ صرف صنفی ترتیب،بیروزگاری، تعلیم، طبی سہولیات،مکانات وتعمیراتی امکانات، شہری آبادی کے رجحانات، بین الصوبائی اور بین صوبائی منتقلی سمیت دیہاتوں کے مسائل کو اجاگر کر سکیں گے بلکہ حکومت کو مختلف شعبوں کو ترقی دینے اور ترقیاتی منصوبہ بندی میں فنڈز مختص کرنے میں بھی آسانی ہوگی۔

صنفی مردم شماری کے مسئلے کے حل کے لیے ایک جامع حکمت عملی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ مردم شماری کے عمل میں خواتین کی شمولیت سے پاکستان میں خواتین کی آبادی، عمر، شراح اموات ، شرح خواندگی اور ملک میں افرادی قوت میں ان کی درست تعداد کے بارے میں اعدادوشمار حاصل کیے جا سکتے ہیں وگرنہ ہماری آئند ہ کی منصوبہ بندی ناقص مردم شماری کی وجہ سے ترقی کے بجائے تنزلی کا باعث بنے گی۔

دنیا بھر میں خواتین کو تبدیلی کی ایک علامت کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔اگر مردم شماری درست اعدادوشمار کے ساتھ کی گئی تو توقع ہے کہ موجودہ اسیٹس کیو کا خاتمہ ہوگا او ر خواتین ، پاکستا نی معاشرے ، سیاست اور منصوبہ بندی میں ایک اہم شریک کے طور پر سامنے آئیں گی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان بیوروآف اسٹیٹسٹکس اپنی صنفی پالیسی پر اس کی اصل روح کے ساتھ عمل پیرا ہو،تاکہ ہمارے ملک کی اس اہم ترین ا کائی کو درست اورفعال طریقے سے قومی دھارے میں شامل کیا جاسکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے