ٹرمپ کی سعودیہ آمد اور پاکستان

دنیا بھر کے پچاس ممالک کے سربراہ انتہا پسندی اور دہشتگردی کے خلاف سعودیہ عرب کے شہر ریاض میں اکٹھے ہوئے ۔ دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی مذہبی انتہا پسندی نے جہاں مسلمان ممالک کو نقصان سے دوچار کیا، وہاں اس سے یورپی ممالک بھی بےحد متاثر ہوئے ۔ لہٰذا انتہاپسندی کی اس برق رفتار گاڑی کو روکنے کے لیے امریکہ سمیت مسلم ممالک نے ریاض میں دربار سجایا ۔ ان پچاس ممالک میں سے بیشتر مسلم ممالک تھے ۔ سعودی فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سمیت عالمی رہنماؤں نے انتہا پسندی سے لڑنے کے لیے ریاض میں ایک عالمی مرکز ’گلوبل سینٹر فار کومبیٹنگ ایکسٹریم ازم‘ کی بنیاد رکھی ۔

ریاض میں قائم کیے گئے اس ‘گلوبل سینٹر فار کومبیٹنگ ایکسٹریم ازم‘ کا بنیادی مقصد انتہا پسندی کی جانب مائل کرنے والے نظریات جو لوگوں کو دہشتگردی کرنے پر آمادہ کریں، انہیں دہشتگردی کا جواز فراہم کریں ، ان نظریات کے خلاف مشترکہ بیانیہ تشکیل دے کر دہشتگردوں کے خلاف بین الاقوامی تعاون ممکن بنانا ہے ۔ انتہا پسندی کے خلاف قائم کیے گئے اس سینٹر میں انتہاپسند نظریات کا تجزیہ کرکے مباحثہ کیا جائیگا ، انہیں روکا جائیگا اور دہشتگردوں کو مشترکہ پیغام دیا جائیگا ۔

اس کانفرنس میں دنیا کی توجہ کا مرکز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ رہے ۔ ٹرمپ کے دورے پر سعودی حکمرانوں کی خوشی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے، کہ سعودی حکمرانوں نے ایک عرصے سے قائم اپنی روایات اور قانون تک ٹرمپ پر قربان کردیے ۔ ٹرمپ نے پہلے تو سعودی عرب کی روایات کو نظرانداز کرتے ہوئے اپنی بیٹی ایوانکا اور بیوی میلینا کے سر کو ڈھانپنے سے انکار کیا ۔ پھر سعودی فرماں روا کی میلینا سے گرمجوشی کے ساتھ ہاتھ ملانے والی تصویر تک پبلش کردی گئی ۔ جبکہ اپنے پہلے غیر ملکی دورے میں ٹرمپ نے سعودی عرب سے تین کھرب ڈالر سے زیادہ کے تجارتی سودے کرکے (جن میں اسلحے کا ایک کھرب ڈالر کا سودا بھی شامل ہے) امریکی معیشت کو ایک بڑا ٹیکا لگادیا ۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس اسلامی سربراہی کانفرنس میں عقیدت ، مذہب اور کسی بھی تفریق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے، قطعی غیر جانبداری سے مشترکہ طورپر ان قوتوں اور دہشتگردوں کو پیغام دیاجاتا جو انتہا پسندی کو فروغ دیتے ہیں ۔ مگر ہم نے دیکھا کہ اس کانفرنس میں دہشتگردوں کے بجائے ایک مخصوص مسلک سے وابستگی والے ملک ایران کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ۔ اسے دنیا میں تنہا کرنے پر زور دیا گیا ۔ جبکہ اس کانفرنس میں وزیراعظم پاکستان نواز شریف نے بھی شرکت کی ۔ ایسے میں کیا پاکستان نے سوچا کہ ایک جانب جھکاوٴ رکھنے سے پڑوسی ملک ایران کے ساتھ تعلقات میں پیچیدگی آسکتی ہے ؟ پاکستان جو تمام مسالک ، مذہب کا ایک گلدستہ ہے اس گلدستہ میں سے کچھ پھول جھڑ سکتے ہیں ؟ جبکہ سرحدی علاقوں میں ہماری افغانستان ، ایران اور انڈیا سے جھڑپیں بھی جاری ہیں ۔ پڑوسی ممالک سے تعلقات بہتر نہیں، ان حالات میں پاکستان کو کسی ایسے اتحاد کا حصہ قطعی نہیں بننا چاہیے تھا، جو متنازعہ ہو اور جس کے مقاصد پاکستان کے ہمسایہ مسلم ملک کے خلاف ہوں ۔

اب آتے ہیں اہم سوال کی جانب کہ جس ملک نے دہشتگردی میں ستر ہزار سے زائد جانیں گنوائی اس ملک پاکستان کو کانفرنس میں اہمیت کیوں نہیں دی گئی ؟ ٹرمپ نے تقریر میں پاکستان ذکر تک نہیں کیا گیا ۔ سب سے زیادہ باعث تشویش بات یہ تھی کہ وزیراعظم نواز شریف کو تقریر کا موقعہ ہی نہیں دیا گیا ۔ جبکہ دوسری طرف پاکستانی وزیراعظم کے مقابلے میں مصر، انڈونیشیا اور کئی دیگر ممالک کوتقریر کا موقع دیا گیا۔ گلوبل سینٹر کے افتتاح پر بھی پاکستان وزیراعظم کو شامل نہیں کیا گیا ۔ افغانستان اور بنگلہ دیشی وزرائے اعظم ہر جگہ نظر آئے، لیکن پاکستانی وزیراعظم آخری صفوں میں بھی نظر نہ آئے ۔ نواز شریف وہاں پاکستان کے نمائندہ کے طور پر گئے تھے انکی یہ ہتک اور اہانت محض نواز شریف نہیں بلکہ پاکستان کے وزیراعظم کی ہوئی ہے ۔ جس ملک نے دہشتگردی کے خلاف جنگ میں فوجی جوانوں سمیت ہزاروں شہریوں کی قربانی دی ، اس ملک کو نظر انداز کرکے بنگلہ دیش اور افغانستان جیسے ملک کو اہمیت دےکر کہیں پاکستان کو کوئی پیغام تو نہیں دیا گیا ؟

یہ پاکستان کے لمحہ فکریہ ہے کہ اُسے اپنے برادر اسلامی ملک میں بُری طرح نظرانداز کیا گیا ۔ پاکستان کو سوچنا ہوگا ایسی کیا وجوہات ہیں جنکے باعث دنیا بھر میں اُسے شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے ؟ اسکے ہمسائے ممالک آخر اسکے خلاف کیوں صف آراء ہورہے ہیں ؟ جن ممالک ایران ، افغانستان اور سعودیہ عرب سے کل تک پاکستان کے دیرینہ تعلقات تھے۔ آج کیوں پاکستان انکی نظر میں ناپسندیدہ ملک، جبکہ بھارت انکی آنکھ کا تارہ کیوں بن چکا ہے ؟ خارجہ پالیسی کی مسلسل ناکامی کے بعد کیا اُس پر نظرثانی کرکے اسے تبدیل نہیں کیا جانا چاہیے ؟ دنیا ہم پر ریاستی سطح پر انتہا پسندی اور دہشتگردی کو فروغ دینے کا الزام لگاتی ہے، کیا ہم نے اس الزام کی تردید اور اسے غلط ثابت کرنے کے لیے کوئی اقدامات کیے ؟ کیا پاکستان میں انتہا پسندانہ کلعدم تنظیموں پر مکمل پابندی عائد ہے ؟ کیا کلعدم جماعتوں کو آج بھی ریاستی پشت پناہی حاصل ہے ؟ کیا پاکستان نے دہشتگردی کے خلاف مشترکہ بیانیہ تشکیل دے کر نافذ کردیا ؟

یہ وہ چند سوالات ہیں جو غور طلب ہیں ۔ اگر دنیا میں پاکستان کو اہم مقام دینا ہے تو پھر ان سوالات پر نظرثانی کرکے ان کا جواب تراشنا ہوگا ۔ ہم انتہا پسندی اور دہشتگرد جماعتوں کی سرپرستی کے ساتھ کبھی بھی دنیا کے سامنے اپنی اہمیت اجاگر نہیں کرسکتے ۔ ہمیں اپنے تعلیمی اداروں ، یونیورسٹیوں کو انتہاپسندی سے بچانے کے لیے انہیں روشن خیالی اور رواداری ، احترام انسانیت کا گڑھ بنانا ہوگا ۔ ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کی بنیاد انتہا پسندی کے خاتمے اور دہشتگردی کے خلاف بلاتفریق مشترکہ رائے عامہ کو نافذ کرکے رکھنی ہوگی ۔ تب جاکر ہمیں کوئی ملک اہمیت دے گا ۔ ورنہ اگر یونہی چلتے رہے تو پھر یہی ہوگا وزیراعظم کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیا جائیگا اور ہندوستان سمیت ہمارے ہمسایہ ممالک دنیا کی نظر میں اہم بنیں گے ، اور دنیا انہیں پاکستان پر فوقیت دے گی ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے