کیا ٹرمپ واقعی وہابی ہو گئے ؟

مفربی حکمرانوں میں سبے پہلے نپولین بونا پورٹ کو قبول اسلام کا اعزاز حاصل ہوا۔ اس نے مصر میں حاضری دی اور وہاں علما کے مجمع میں مسلمانوں کو برطانوی استعمار کے خلاف متحد ہو نے کی دعوت دی۔اگرچہ برطانوی مصنفین اور محققین ابھی تک اس شک میں مبتلا ہیں کہ کیا نپولین واقعی مسلمان ہو گیا تھا۔ لیکن جب نپولین نے مصر میں علمائے اسلام کے سامنے خود کو اسلام کی تلوار کا لقب دے کر اسلام کا اظہار کیا تو پورے عالم اسلام میں نعرہ تکبیر گونج اٹھا۔ امریکہ میں بھی یہ روایت رہی ہے کہ حکمران عالمگیر جنگ سے پہلے امت مسلمہ کو مشترک دشمن کے خلاف متحد ہونے کی دعوت دیتے ہیں۔ امریکی صدور میں سے بش کے بعد اوباما اور ٹرمپ کو بھی یہ فخر حاصل ہے کہ انہوں نے مسلمانوں کو اعلائے کلمة الحق کے لئے متحد کیا۔

امریکی صدور کی یہ روایت بھی رہی ہے کہ وہ تخت نشینی کے بعد اسلامی ملک کے دورے میں اسلام کی عظمت کا اظہار کرتے ہیں۔ آپ کو یاد ہوگا کہ امریکی صدر باراک اوباما نے بھی تخت نشینی کے بعد قاہرہ میں مسلمانوں سے خطا ب کیا تھا۔ اس کے بارے میں یہ چرچا تو رہا کہ وہ یا اس کے باپ دادا مسلمان تھے۔ یہ بھی کہا گیا کہ اس کا اسلامی نام براک حسین اوباما ہے۔ پاکستان میں بہت سے مزاج شناسوں سے پورے وثوق سے اوباما کے مسلمان ہونے کی شہادت بھی دی لیکن اس نے اس کے وہابی ہونے کا ذکر نہیں کیا۔ معاندین یہی پراپاگنڈہ کرتے رہے کہ اس کا اسلام مشکوک ہے۔ اب یہی کچھ امریکی صدر ٹرمپ کے بارے میں بھی کہا جارہاہے۔ البتہ صدر ٹرمپ کو چونکہ یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے مصر سے آگے آکر مقدس و محترم مملکت سعودیہ عربیہ میں اسلام کا اعلان کیا ہے تو شیطانی طاقتیں ان کے اسلام کی بجائے ان کے وہابی ہونے کے بارے میں بھی وسوسے پھیلا رہی ہیں۔

ان شکوک و شبہات کا چرچا سب سے زیادہ ماہرین ٹرمپیات کر رہے ہیں۔ ایک امریکی ماہر نفسیات بہت عرصے سے ٹرمپ کے ذہن میں ممکنہ روحانی اور مذہبی اتار چڑھاو کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ٹرمپ ایک عرصے سے روحانی اضطراب میں مبتلا ہیں۔ انہوں نے انتخابات کے دوران ہی عزم مصمم کر لیا تھا کہ صدر کا عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد دنیا کے تین بڑے مذاہب کے مراکز سعودی عرب، ویٹیکن اور اسرائیل کی زیارات پر جائیں گے اور وہیں کسی ایک مذہب کا چناو کریں گے ۔ ٹرمپ کی کیفیات کے تجزیے کے بعد ماہرین اس نتیجے پر پہنچے تھے کہ ٹرمپ کی نرگسیت اور خود پسندی لا علاج ہے۔ لہذا پوپ بھی انہیں عیسائی مذہب میں واپس نہیں لا سکتے۔ ان کے لئے ہدایت کی دعا اتنی ہی بے سود ہے جتنا یہ توقع کہ سورج زمین کا طواف شروع کردے۔ کیونکہ وہ خود کو ہی سورج سمجھتے ہیں۔ لیکن پیا کو کون بھائے یہ کون بتا سکتا ہے۔ کسی کو خیال بھی نہیں تھا کہ شاہ سلمان جنہیں ٹرمپ بے خودی میں سولومن پکارتے رہے ایک ہی نگاہ میں اس کی کایا پلٹ دیں گے۔

کیتھولک معجزوں کے قائل ہیں اور کیتھولک کی بہت بڑی تعداد نے ٹرمپ کو ووٹ بھی دئے لیکن ان کو بھی یقین نہیں تھا کہ پوپ فرانسس صدر ٹرمپ سے اعتراف لینے میں کامیاب ہو سکیں گے۔ ٹرمپ نے جب امریکہ میں ریفیوجیز کا داخلہ روکنے کی بات کی تو پوپ نے کہا کہ یہ کرسچین سوچ نہیں ہے۔ ٹرمپ نے ایسی نصیحت پر پوپ کو فہمائش کی کہ کوئی شرم ہوتی ہے، حیا ہوتی ہے۔ اسی طرح ٹرمپ اور پوپ میں ماحولیات اور سرمایہ پرستی کے بارے میں سخت اختلافات پائے جاتے ہیں۔ پوپ کا قول ہے کہ سرمایہ پرست منافع کے راستے میں پیش آنے والی ہر چیز کو ہڑپ کر لیتے ہیں۔ پوپ کا کہنا ہے کہ جس کو اقتدار اور قوت حاصل ہو لوگ اس کے سحر میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ پوپ نے ایسے لوگوں کو نصیحت کی کہ وہ انکساری اختیار کریں تاکہ خود پسندی کے فریب میں نہ آئیں۔ ورنہ ایسے لوگ اپنی ہی طاقت کے ہاتھوں تباہ ہو جاتے ہیں۔ ٹرمپ اپنے بارے میں ایسے تجزیات کا مذاق اڑاتے ہیں کہ لوگ انہیں نہیں جانتے۔

امریکی صدر ٹرمپ نے سعودی عرب میں اپنے ایمان پرور خطاب میں جب یہ اعتراف کیا کہ اسلام دنیا کا بہترین مذہب ہے تو کروبیاں بھی حمد پڑھنے لگے۔ جب انہوں نے دہشت گردوں کو یاد دلایا کہ اللہ کا نام لے کر دہشت گردی کرنا مذہب کی توہین ہے تو سب کے دل لرز اٹھے۔ جب صدر ٹرمپ نے انتہائی درد مندی سے کہا کہ دہشت گرد سوچیں کہ وہ خدا کو کیا جواب دیں گےتو حاضرین نے دل ہی دل میں نعرہ تکبیر بلند کیا۔ انہیں یقین ہو گیا کہ ٹرمپ خدا کو مانتے ہیں۔ جب امریکی صدر نے بآواز بلند کہا کہ دہشت گرد کا کوئی مذہب نہیں ہوتا تو مسلمان رہنماوں کو شک تو ہوا کہ یہ دہشت گردوں کو وہابی کہ رہا ہے لیکن یہ انہوں نے یہ سوچ کر اطمینان کا سانس لیا کہ سیکولر اور لبرل لوگوں کا بھی کوئی مذہب نہیں ہوتا اسی لئے وہ بھی دہشت گرد ہوتے ہیں۔ عرب ملکوں میں یہ سوچ کر خوشی کے شادیانے بجنے لگ رہے ہیں کہ ٹرمپ وہابی ہوگئے۔ سچا وہابی حنفی، شافعی، مالکی یا جعفری مذہب کا پابند تو نہیں ہوتا لیکن اندر سے تو حنبلی رہتا ہے۔

ایک زمانہ تھا کہ اگر مسجد سے اعلان ہو جاتا کہ فلاں وہابی ہو گیا تو چاہے وہ ہندو، کمیونسٹ یا خدائی خدمتگار ہو اس سے ہر طرح کا لین دین بند ہو جاتاہے۔ عرب ملکوں میں وہابی ہونے کوئی فرق نہیں پڑا۔ الٹا لین دین میں تیزی آجاتی ہے۔ چنانچہ سعودی عرب میں منٹوں میں اربوں اور کھربوں کے سودے طے ہو گئے۔ عرب فرمانروا بھی خوش تھے کہ ان کی ہتھیاری قوت میں تیزی سے اضافہ ہونے جارہا ہے۔ اور امریکہ میں بھی صنعت کاروں اور اسلحہ سازوں کی بھی جو عرصے سے کساد بازاری کا شکار تھے موجاں ہی موجاں ہو گئیں۔

آپ غور کریں کہ ٹرمپ نے سب سے پہلے سعودی عرب آنے کا فیصلہ کیا ۔ کیوں؟ اس لئے کہ مصر جاتے تو لوگ انہیں شافعی سمجھتے۔ ایران جاتے تو شیعہ۔ پاکستان جاتے تو دیوبندی کہتے۔ ٹرمپ اپنا ترپ کا پتہ چھپا کر رکھنے کے قائل نہیں۔ انہوں نے اسلام دشمن بیان بھی دئے۔ اسلام سے نفرت کا اظہار بھی برملا کیا۔ لیکن انہوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ ان کی شخصیت کی سلامتی اور بقا کے لئے اور پوپ سے نجات کا کوئی راستہ ہے تو وہابی بننے میں۔ وہابی غیر مقلد ہوتے ہیں اور کسی مذہب کی پابندی برداشت نہیں کر سکتے۔ وہابی کو پوپ بھی واپس نہیں لا سکتا، نہ وہ لوٹ کر کیتھولک رہ سکتا ہے، نہ وہ راستہ بدل کر بریلوی ہو سکتا ہے۔ غیر مقلد کو کسی مذہب کی قید قبول نہیں۔اب آپ جان گئے ہوں گے کہ ٹرمپ وہابی کیوں ہو گئے۔ اللہ سب کو انتہا پسندی اور دہشت گردی سے محفوظ رکھے۔

ٹرمپ خوش ہیں کہ ان کو تو امریکہ میں صحیح سے کافر بھی نہیں سمجھا جاتا ۔ لبرل اور سیکولر بھی پاس نہیں بٹھاتے۔ عرب کتنے ونڈر فل لوگ ہیں کہ ایک وہابی ملک نے جہاں غیر مسلموں کے لئے نو گو ایریا کے بورڈ لگے ہیں اس کا استقبال کیا۔ ٹرمپ کو مالا مال کیا گیا تو امریکہ میں بھی اس کی قدر بڑھ جائے گی ۔ ٹرمپ کسی اورمسلم ملک میں جا کروہابی ہوتے تو لین دین پر پابندی قائم رہتی۔ عربی میں دین لین سے پہلے ہو یا بعد میں ِدین ہی پڑھا جاتا ہے۔ اوباما وہابی نہیں تھا اس لئے اس کے ساتھ نہ لین ہو سکا نہ دین۔
پاکستان میں ٹرمپ کے وہابی ہونے کا کوئی چرچا نہیں۔ کیونکہ یہاں لین دین پر فرق پڑتا ہے۔ ویسے بھی چینیوں کے مقابلے میں جو دین کے قائل ہیں امریکی لین کو زیادہ پسند کرتے ہیں۔ اور تھوڑا بہت دین یا دان کرتے بھی ہیں تو ڈو مور ڈو مور کرکے سارا ثواب کرکرا کر دیتے ہیں۔

امریکہ میں البتہ لوگوں کو ٹرمپ کے وہابی ہونے کا یقین نہیں آ رہا۔ کچھ لوگ ٹرمپ کے بارے میں ابھی تک شک کا اظہار کر رہے ہیں۔ ان کے خیال میں ٹرمپ اسرائیل کی طرح ریفیوجیز کو امریکہ میں آنے سے روکنے کے لئے میکسیکو کی سرحد پر اونچی دیوار تو کھڑی کرسکتا ہے، دیواریں گرا کر وہابی نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے خیر مقدمی رقص میں ٹرمپ کو جھومتے دیکھا ہوتا تو پتا چلتا کہ دیواریں گرائی بھی جا سکتی ہیں۔ آپ بھی شک کی دیوار گرا دیں۔ روح سعید ہے تو آپ بھی خود کو وہابی محسوس کرنے لگیں گے۔

بشکریہ تجزیات آن لائن

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے