ٹرمپ،امریکا،سعودی عرب، اورایران !

مسندِصدارت سنبھالنےکےبعدامریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ اس وقت بیرونی دوروں پرہیں۔سعودی عرب سےہوتےہوئےاسرائیل اورپھروہاں سے ویٹی کن سٹی میں پوپ فرانسس سےملاقات۔

دوروں کامقصدامریکی مفادات کاتحفظ،مختلف ممالک سےتعاون اوربین المذاہب ہم آہنگی کے لئےراہ ہموارکرناہے۔سعودی عرب میں مسلم ممالک کےسربراہوں ونمائندگان سے خطاب ، اسرائیلی حکام اورپوپ فرانسس سےملاقات کے دوران بین المذاہب ہم آہنگی ڈونلڈٹرمپ کاموضوع رہاہے۔

ٹرمپ نےامریکی سرزمین سےباہر قدم رکھنے کےلئےجس پہلےملک کاانتخاب کیاوہ مملکت عربیہ سعودیہ ہے جہاں انہیں غیرمعمولی اعزاز واکرام سےنوازاگیااورخوش آمدیدکہاگیا۔ٹرمپ بطورصدارتی امیدوارمسلم امت اورمسلم ممالک کےحوالےسےجن خیالات کااظہارکرتےرہےوہ کسی سےڈھکےچھپےنہیں۔سعودی عرب کانام بھی ان کےسیاسی خطبات اورمباحثوں میں بطور حریف کےسامنےآتارہامگربیرونی دوروں پر روانگی کےلئےسب سےپہلےسعودی سرزمین کو ہی قدم بوسی کاشرف بخشاہے۔شاہی خاندان نے ان سےجس عقیدت ومحبت کااظہارکیاوہ بھی بہت دلچسپ تھا۔

سعودی عرب کےدورےکامقصددونوں ممالک کےمابین تعاون بڑھانا،ایرانی اثرورسوخ کم اور امریکن عرب اسلامک کانفرنس سے خطاب کرنا تھا۔سعودی عرب کےامریکہ سےتعلقات ہمیشہ سےبہترہی رہے ہیں اورکبھی کوئی بڑی رکاوٹ ان تعلقات میں نہیں رہی۔ایران سےعالمی طاقتوں سےجوہری معاہد معاہدے کےبعداورپھرامریکی عدالت کے9/11 میں سعودیہ کے کردارسے متعلق فیصلےکےبعدمعمولی آنکھ مچولی ہوئی۔

ٹرمپ کےقصرِابیض میں مسندنشین ہونےکےبعد اب وہ مسلم دنیاباالخصوص سعودی عرب کی طرف دوستی وتعاون کاہاتھ بڑھاچکےہیں تواس سےظاہرہوتاہےکہ انہیں یہ بات سمجھادی گئی ہےکہ امریکہ کےمفادات کاتحفظ مسلم دنیاسے تعلقات بگاڑنےسےکھٹائی میں پڑسکتاہے۔اسی طرح سعودی عرب کوبھی امریکہ بہادرکی اہمیت کااندازہ ہےکیوں کہ اگرسعودی عرب امریکہ کی طرف ہاتھ نہیں بڑھائےگاتوامریکہ متبادل کے طورپر ایران سےبھی صلح کرسکتاہے۔

ایران کا شرقِ اوسط میں کردارپہلےہی سعودیہ کوبرداشت نہیں ہورہااورامریکہ کےتعاون سےاس خطرےکو کم کرنے کاموقع سعودی عرب گنوانا نہیں چاہتا۔امریکہ اورسعودیہ کےمابین 110ارب ڈالر کااہم دفاعی معاہدہ ہونےکےعلاوہ باہمی تعاون کےکچھ معاہدوں پربھی دستخط کئے گئے جودونوں ممالک کےتعلقات کومزید بہتر بنانےمیں معاون ہوں گے۔

سعودیہ کےاعلیٰ حکام سے ملاقات کےعلاوہ ڈونلڈٹرمپ نے’’امریکن عرب اسلامک کانفرنس‘‘ میں شریک مسلم راہنماؤں سےبھی خطاب کیا۔اس اجلاس میں خادم الحرمین شریفین وعزت مآب ڈونلڈٹرمپ نے یک زبان ہوکرایران کوتنہاکرنے،اس کےدہشتگرد تنظیموں سےتعلقات اوران کی سرپرستی کےحوالے سے اپنے جذبات کابھرپوراظہارکیا۔جبکہ ڈونلڈٹرمپ نےاس بات کابھی اعلان کیاکہ دہشتگردی کےخلاف جنگ تہذیبوں کا تصادم نہیں۔اس معاملہ میں کس حدتک انہوں نےحقیقت پسندی سے کام لیایہ ایک الگ بحث ہے۔کچھ عرصہ قبل بنائے جانے والے اسلامی عسکری اتحادکاظاہری مقصداگرچہ داعش ودیگرعسکری تنظیموں کےخلاف جنگ بتایاگیا تھااس اجلاس میں کھل کریہ بتایا گیاکہ اس کاہدف دوخودمختارریاستیں شام وایران بھی ہیں۔بلکہ جس شدومدسےخادم الحرمین شریفین نےایران کےحوالےسےاپنی ’نیک نیتی‘ کااظہارکیاہےیوں محسوس ہوتا ہےکہ اسلامی اتحادکااصل ہدف ایران ہی ہے۔مشترکہ اعلامیہ جاری ہواتواس کابھی اظہار مختصراََان الفاظ میں کیاجاسکتاہےکہ ’ایران کوہرصورت تنہاکرناہوگا۔‘

سعودی عرب نےمذکورہ اجلاس میں ایران کےخلاف اپنےخیالات کااظہارکرکےدوست ممالک کوشک وشبہ میں ڈال دیاہے۔پاکستان جواسلامی اتحادکےحوالےسےگومگوکی کیفیت سےنکلنے کےبعدشمولیت کااعلان کرچکاتھااورجنرل(ر) راحیل شریف کے بطور سپہ سالار ذمہ داری سنبھالنےپررضامندہوچکاتھااب ایک بار پھر دوراہےپرآکھڑاہواہے۔وزیراعظم نوازشریف نےمدینہ منورہ میں ذرائع ابلاغ سےگفتگومیں کہاکہ ’پاکستان اس عسکری اتحادمیں شمولیت کےلئےتمام پہلوؤں کابغورجائزہ لےرہاہے۔‘اسی طرح ترکی، ملائشیااورانڈونیشیاجیسےاہم ممالک داعش یاحزب اللہ جیسی تنظیموں کےخلاف توسعودی عرب کے شانہ بشانہ ہوں مگرایران سےیوں کھلی مخالفت ان کےمفادمیں ہوگی نہ ہی وہ اس پرتیارہوں گے۔ اس طرح عسکری اتحاد بے معنی ہوجائے گاجس کی ذمہ داری یقیناًسعودی عرب پرہی عائدہوگی۔

ڈونلڈٹرمپ سرزمینِ حجاز سے روانہ ہوئے توسرزمین قدس جاپہنچےجہاں اسرائیلی حکام سےملاقات کی اوردیوارگریہ زیارت سےبھی مشرفہوئے۔انہوں نےیہاں بھی ایران کے جوہری پروگرام،ایران کےمتنازعہ کردارپرتنقید کی گویاایران کوپیغام دیاکہ عرب ، اسرائیل اورامریکہ اس محاذ پرایک ہی صف میں ہیں ۔انہوں نےاسرائیل سے اپنے گہرے تعلق کوان الفاظ میں بیان کیا’اسرائیل سےہمارارشتہ اٹوٹ انگ کاہے۔‘اٹوٹ انگ کی اصطلاح کامطلب ہم بخوبی جانتےہیں کہ اس رشتےکونبھانےکےلیےکس حد تک قربانی دینا پڑسکتی ہے۔عرب سےتعاون کی پینگھیں بڑھانے کےبعداسرائیل سےاس گہرےرشتے کااظہارشاید انہوں نےعربوں کواپنی اوقات یاددلانےکےلیے ضروری سمجھاتاکہ وہ کسی بھول میں نہ رہیں۔ٹرمپ کی وہاں موجودگی کےدوران فلسطینی صدرنےبیان جاری کیا’ہم پل بناناچاہتےہیں دیواریں نہیں۔‘یہ الفاظ ان کی مصالحانہ پیش کش تھی جسےقبول کرلیا جائےتومسئلہ فلسطین پربا معنی بات چیت کی کوئی سبیل ہی نکل آئے۔اسرائیل میں قیام کےدوران انہوں نےاسلام، یہودیت وعیسائیت کےپرامن ہونےکااعتراف بھی کیااوربین المذاہب ہم آہنگی پرزوردیا۔

ویٹی کن سٹی میں عیسائیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس سےملاقات میں انہوں نےبین المذاہب ہم آہنگی،عالمی حالات اوردہشتگردی کے موضوعات پرگفتگوکی۔یوں انہوں نےکعبہ کے رکھوالوں سےرہبرِکلیساتک کےسفرمیں اپنی ان تقاریرکاکوئی پہلونظرنہ آنےدیاجوبطورصدارتی امیدوارانہوں نےکی تھیں۔ ان دوروں میں وہ سلجھے ہوئے،بہتر سیاستدان اوربین الاقوامی تعلقات کی اہمیت کوسمجھنےوالےڈونلڈٹرمپ کی شکل میں نظرآئےنہ کہ اکھڑمزاج ،نفرت وعصبیت میں ڈوبےیاکسی کسینو کےمالک کی صورت میں۔

دوسری طرف امریکہ ،اسرائیل وعرب کے مشترکہ حریف ایران کی عوام نےمذہبی ملاؤں کی بجائےاعتدال پسند حسن روحانی کوبطور صدردوسری باراپناقائد منتخب کرلیا ہے۔جناب حسن روحانی نےان تمام حالات وواقعات اور ’ایران فوبیا‘ کی اس نئی لہرپر خوبصورت تبصرہ کیاکہ یہ’’محض ایک شو‘‘تھا۔سعودی عرب کو مخاطب کرتےہوئے کہاکہ انہیں اسلحہ کی نہیں بلکہ بیلٹ باکس کی ضرورت ہے۔ایرانی سپریم لیڈرجناب خامنہ ای سےملاقات میں حسن روحانی نےاس بات کااعادہ کیاکہ وہ جناب خمینی کی دی ہوئی سوچ پرکاربندرہیں گےاورایران کوترقی و استحکام کی طرف لےجائیں گےنیزعوام سے کئےگئےوعدوں کوپوراکرنےکی مخلصانہ کوشش کریں گے۔جبکہ اس بات کوبھی واضح کیاکہ ہمارےیہاں مذہبی قیادت سےکوئی اختلافات اور کسی قسم کی تفریق نہیں ہے۔

حسن روحانی کی معتدل پالیسیوں کےسبب ایران عالمی طاقتوں سےجوہری معاہدہ کرنےمیں بھی کامیاب ہوااوراب عالمی تنہائی سےباہرآرہاہے۔ان حالات میں روحانی صاحب کادوبارہ منصبِ صدارت پرفائزہوناایران کےحق میں مفیدثابت ہو گااورایران عالمی سطح پرکئی اہم ممالک سے بہترتعلقات قائم کرنےمیں کامیاب ہوگا۔

ان حالات میں مسلم دنیامیں مذہبی تفریق یقیناًمسلم امہ کے لئےہی نقصان کاباعث ہوگی امریکہ یا اسرائیل کے لئے نہیں۔اس لئے ضروری ہے کہ عالمی گماشتوں کےمفادات کےتحفظ کی بجائے مسلم مفادات کاتحفظ کیاجائےاورماضی کی طرح ہراسلامی ملک میں خون خرابےکےلئےدشمنوں کوکندھافراہم کرنےسےگریزکیاجائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے