سعودی عرب میں کیا دیکھا؟

اگر یہ محض ایک سعی لاحاصل ہوتی تو بھی گوارا تھی کہ ایسی کوشش ہماری فطرتِ ثانیہ بن چکی۔ ریاض کانفرنس مگر اس سے بڑھ کر تشویش کی ایک لہر دوڑا گئی۔ کچھ زمینی حقیقتوں کی تذکیر کے ساتھ اس میں غورو فکر کا بہت سامان بھی ہے۔کیا کوئی ہے غور کرنے والا؟

اس کانفرنس کی غایت کیا تھی؟ کیا یہ بتانا مقصودتھا کہ ایران کے خلاف پورا عالمِ اسلام سعودی عرب کی پشت پر کھڑا ہے اور یہ کہ امریکہ بطور سرپرست اس اتحاد پر اپنا دستِ شفقت رکھے ہوئے ہے؟ اگر اس اجتماع کا یہ مقصد تھا تو وہ کسی حد تک پورا ہوگیا۔ جن راہنماؤں نے تقاریر کیں، وہ اس باب میں یک زبان تھے۔ ‘العزم یجمعنا‘ کا یہی مفہوم ہوسکتا ہے۔کیا یہ اتحاد مستقبل میں ایران کے خلاف کوئی عملی قدم بھی اُٹھا سکتا ہے؟ اﷲ نہ کرے ایسا موقع آئے لیکن مجھے اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اس کانفرنس نے مسلم دنیا میںپرانی مسلکی تقسیم کونمایاں اور مضبوط کردیا ہے۔ سیدنا عثمانؓ کی شہادت کی یہ اجتماعی سزا کہ ہم کبھی ایک مصلے پر اکٹھے نہیں ہو ں گے، معلوم ہوتا ہے ابھی ختم نہیں ہوئی۔

اس کانفرنس سے یہ حقیقت ایک بار پھر کھل کر سامنے آئی کہ نسلی اور علاقائی عصبیت ، اسلام کی عصبیت سے زیادہ مضبوط ہے۔ اس کانفرنس کو ” عرب اسلامی امریکی کانفرنس ‘‘کا نام دیا گیا۔ اگر سب مسلمان جمع تھے تو عرب کا بطور خاص ذکر کرنے کی ضرورت کیا تھی؟ اگر یہ محض اسلامی امریکی کانفرنس ہوتی تو اس میں کیا حرج تھا؟ میرا احساس ہے کہ یہ عرب عصبیت ہے جس نے ان ممالک کو متحدکرنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ دیگر مسلم ممالک اپنے اپنے قومی مفاد کے تحت اس اجتماع کا حصہ تھے۔اس قومی عصبیت کی بنا، ظاہر ہے کہ جغرافیہ ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ خلافتِ راشدہ کے بعد مسلمانوں کی نسلی اور علاقائی عصبیتیں ان کی مذہبی عصبیت پر غالب آ گئیں ۔ جو کوئی عمل اس استمرار کے ساتھ ہو تو اس سے آنکھیں چرانا خود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔

امکانات کی ایک دنیا لیے،یہ ایک سنہری موقع تھا جسے میزبان ملک کے قومی مفادات کا اسیر بنا کر گنوا دیا گیا۔ تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ مسلم راہنما، واحد عالمی قوت امریکہ کے روبرو تھے۔ اگر محض صدر ٹرمپ کی تقریر سننا ہی مقصود تھا تو یہ کام گھر میں بیٹھ کر بھی کیا جا سکتا تھا۔ ساری دنیا کے مسلم راہنماؤں کو کیا اسی لیے جمع کیا گیا کہ وہ ٹرمپ صاحب کی نصیحتیں سنیں؟ سماعت کا یہ شرف تو سفر کی مشقت اُٹھائے بغیر، ٹیکنالوجی کی کرامت سے ہی حاصل ہو سکتا تھا۔ مغرب اور عالمِ اسلام کا مکالمہ اس وقت کی سب سے اہم ضرورت ہے۔ یہ موقع تھا جسے مکالمے کی ایک نشست میں بدلا جا سکتا تھا۔

صدر ٹرمپ نے اسلامک ریڈیکل ازم کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس مقدمے میں وزن ہے مگر اس تصویر کا ایک دوسرا رخ بھی ہے جس کا تعلق استعمار سے ہے۔ یہ واقعہ ہے کہ دنیا میں جب بھی کوئی قوت استعمار کا روپ دھارتی ہے، کمزوراقوام کی محرومیوں کا ایک دور شروع ہو جاتا ہے۔ یہ محرومیاں ردِ عمل پیدا کرتی ہیں جو مزاحمتی تحریکوں میں ڈھل جاتاہے۔ تشدد مزاحمت کا ناگزیر نتیجہ ہے جو دوطرفہ نہ ہو یک طرفہ تو ضرور ہوتا ہے۔ دورِ جدید کا استعمار امریکہ ہے۔ اگر مکالمہ ہوتا تو صدر ٹرمپ کو اس جانب بھی متوجہ کیا جا سکتا تھا۔ان کا کہنا تو یہی تھاکہ وہ لیکچر دینے نہیں آئے لیکن عملاً ایسا ہی ہوا۔ مکالمہ نہ ہونے کا مطلب لیکچر کے سوا کچھ نہیں ہوتا۔
اس مو قع پر عالمِ اسلام کے ما بین بھی مکالمہ ہونا چاہیے تھا۔ مسلمانوں کے بہت سے مسائل کی اساس داخلی خلفشار میں ہے۔ ایران اور سعودی عرب اختلاف کے بارے میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ شام اور عراق کے علاوہ، افغانستان اور پاکستان کے باہمی تعلقات بھی اس کی داستان سنا رہے ہیں۔یہ موقع تھا جب اس پر بات ہوتی کہ خارجی عوامل اپنی جگہ مگر ہم خود کیا کررہے ہیں۔ افسوس کہ اس کی بھی کوئی صورت پیدا نہ ہو سکی۔ ایک دفعہ پھر یہ حقیقت سامنے آئی کہ مسلمان ممالک بھی انفرادی دائرے ہی میں سوچتے ہیں۔ اگر وہ کبھی امتِ مسلمہ کی بات کرتے ہیں تو یہ ان کے قومی مفادات کے تابع ہوتی ہے۔ اسرائیل کے باب میں مصر اور ترکی کا رویہ اس کا گواہ ہے۔

پاکستان کے لیے تومجنوں کی طرح دگنا عذاب ہے۔ایک طرف اس کے قومی مفادات کا تقاضا ہے۔ دوسری طرف عوام کی تربیت ان خطوط پر ہوئی ہے کہ لوگ امتِ مسلمہ کے تناظر میں سوچتے ہیں اور یہ تناظر بھی زیادہ تر مسلکی ہے۔ اس کا ایک شاخسانہ ہے کہ پاکستان کی حکومت جب قومی مفادمیں سوچتی اور اقدام کرتی ہے تواسے عوامی مزاحمت کا سامنا کر ناپڑتا ہے جو مسلکی ہوتی ہے۔ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کا یہ تجزیہ درست ہے کہ ایرانی انقلاب نے مسلم معاشروں کو اس تقسیم کے بارے میں مزید حساس بنا دیا ہے۔ اس کاردِ عمل بھی ہوا اور آج وہ صورت پیدا ہو چکی جو ایک واضح تقسیم میں ڈھل گئی ہے۔ پاکستان اس سے براہِ راست متاثر ہو رہا ہے۔ اس لیے پاکستان کے لیے دگنا عذاب ۔ جنگ مشرقِ وسطیٰ میں ایران اور سعودی عرب کے مابین ہوتی ہے اور یہاں شیعہ سنی ایک دوسرے کے خلاف برسرِ پیکار ہوجاتے ہیں۔

میرا احساس ہے کہ اب مسلمان ملکوں کو بعض امور پر دو اور دو چار کی طرح ایک واضح مؤقف اختیار کرنا ہوگا۔ چند متعین سوالات جواب طلب ہیں:

1: امریکہ یاخارجی دنیا کے ساتھ انہوں نے بطور امتِ مسلمہ معاملہ کرنا ہے یا ہر ملک نے اپنی جداگانہ قومی حیثیت میں؟
2: مسلم ممالک نے بین الاقوامی تعلقات میں مذہبی شناخت کو اوّلیت دینی ہے یا اپنی قومی شناخت کو؟ اس سے واضح ہوگا کہ پاکستان کو کشمیر کے مسئلے میں سعودی عرب اور ایران کی کتنی حمایت مل سکتی ہے؟
3: مسلم ممالک کے باہمی مسائل کو عالمِ اسلام کی سطح پر انصاف کی بنیاد پر حل کیا جانا ہے یاانفردی مفادات کے تحت،دوسروں کی مددسے؟

ریاض کانفرنس میں اس نوعیت کے سوالات کا کہیں گزر نہیں ہوا۔مسلمان ممالک کے راہنما تو مل کر بیٹھے ہی نہیں۔ یہ دراصل سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات کی تجدیدِ نو تھی، جس میں شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے امریکہ کو یہ پیغام دیا ہے کہ وہ مسلم دنیا کا غیر اعلانیہ راہنما ہے۔ اس کا کوئی فائدہ فلسطینیوں کو پہنچا ہے اور نہ کشمیریوںکو۔ پاکستان نے اعلامیے سے مہذب انداز میں اعلانِ لا تعلقی کیا ہے۔ اس وقت یہی مناسب تھا۔اس اعتبار سے کانفرنس کے اعلامیہ کو متفقہ دستاویز نہیں کہا جا سکتا جس میں ایران کی مذمت میں غیر ضروری شدت برتی گئی ہے۔ معلوم یہ ہوتا ہے پاکستان شریکِ مشاورت ہی نہیں تھا۔ وقت کی کمی کے باعث وزیرِ اعظم پاکستان تقریر نہیں کر سکے۔ یہ پاکستان کے لیے نعمتِ غیر مترقبہ تھی۔ ہم ایک آزمائش سے بچ گئے۔ تاہم پاکستان میں چونکہ سنجیدہ تجزیے کا رواج نہیں اور لوگ جذباتی فضا میں سوچتے ہیں اس لیے غیر حقیقی تجزیے ہوتے رہیں گے اور چمن کا کاروبار چلتا رہے گا۔

ایران کو بھی سوچنا ہے کہ یہ صرف سعودی عرب کا مسئلہ نہیں۔ پاکستان اور ملائشیا جیسے ممالک بھی اس سے نالاں ہیں۔روحانی صاحب سے یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ جس طرح انہوں نے امریکہ اور مغرب کے ساتھ تعلقات کی تشکیلِ نو کی ہے،اسی طرح عالمِ اسلام کے ساتھ بھی باہمی تعلقات پر ازسرِ نوغور کریں گے۔ اگر انہوں نے مذہبی پیشوائیت سے الگ ایک راستہ چنا ہے تو انتقالِ انقلاب کے فلسفے سے بھی رجوع کرنا ہوگا۔یہی فلسفہ اس وقت ایران اور مسلم ممالک کے تعلقات میں بڑی رکاوٹ ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے