ریاض کانفرنس ، مشرق وسطیٰ اور پاکستان

سعودی دارالحکومت ریاض کی سڑکیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سعودی فرمانروا شاہ سلمان کی پورٹریٹس سے بھر ی پڑی ہیں ۔حیرت انگیز طور پر نہ ان چالیس سے زائد ممالک کے سربراہان کی تصاویر نظر آرہی ہیں اور نہ ان کے ممالک کے جھنڈے جنہیں اسلامی ممالک کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔ٹوگیڈر وی پریویل (Togather we prewail) جو اس کانفرنس کا نعرہ تھا سے مراد امریکہ اور سعودی عرب ہی ہیں کیونکہ یہ نعرہ امریکی اور سعودی حکمرانوں کی تصویروں کے ساتھ تحریر کیا گیا ہے یا پھر ان دونوں کے جھنڈوں کے ساتھ۔سعودی حکمران مغربی دنیا کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ وہ لبرلزم اور انسانی آزادیوں کی طرف بڑھ رہے ہیں اور اس لئے تاریخ میں پہلی مرتبہ ریاض میں ہونے والی ان سرگرمیوں کو دیکھنے کے لئے دنیا بھر سے سعودی وزارت اطلاعات نے پانچ سو صحافیوں کو بھی مدعو کیا تھا۔ پاکستان سے جو دو صحافی مدعو تھے ان میں یہ طالب علم بھی شامل تھ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سب کچھ دیکھ اور سن کر مجھے کوئی خوشی نہیں ہوئی بلکہ کچھ حوالوں سے تشویش بڑھ گئی ہے۔

امریکی اور سعودی قیادت کی طرف سے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ اسی (80)کی دہائی واپس لوٹ آئی ہے تاہم اس وقت کمیونزم کا مقابلہ مقصود تھا جبکہ اب کی بار داعش، القاعدہ اور ایران کے خطرات کا ذکر ہورہا ہے ۔ یا پھر یہ کہ نوے (90)کی دہائی لوٹ آئی ہے جب امریکہ کی قیادت میں عرب ممالک جنگ کرنے لگے تھے لیکن تب ہدف کویت کو عراق سے آزاد کرنا تھا جبکہ اب کی بار ہدف یمن کو حوثیوں جبکہ شام کو بشارسے آزاد کرانا ہے ۔ تب کویت کے جلاوطن حکمراں جو سعودی عرب میں پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے کو واپس حکمراں بنانا جبکہ اب کے بار یمن کے حکمران کو واپس اپنے ملک کا حکمران بنانا جبکہ شام کے حکمرانوں کو ہٹاناہے ۔ لیکن اب کے بار چونکہ خطرہ وسیع اور ہمہ جہت ہے ،جو داعش اور القاعدہ کے نظریاتی اثر سے لے کر ایران کے عرب پراکیسز تک پھیلا ہوا ہے اس لئے سعودی حکمراںبھی انڈونیشیاء سے لے کر الجیریا تک اور ترکی سے لے کر پاکستان تک وسیع اتحاد تشکیل دینے کی کوششیں کررہے ہیں ۔تاہم سوال یہ ہے کہ مذکورہ اہداف کی بنیاد پر دوسرے عرب ممالک کس حد تک امریکہ اور سعودی عرب کے ہمنوا بن سکتے ہیں ۔ دنیا کس تیزی سے بدل رہی ہے ، انتخابی اور ریاستی سیاست کے تقاضے کس قدر مختلف ہیں اور مکافات عمل کے اصولوں کے تحت کس قدر جلد قوموں کو اپنا تھوکا ہوا چاٹنا پڑتا ہے ، ان سب کا اندازہ سعودی دارلحکومت ریاض میں 20اور 21مئی کی سرگرمیوں کی تفصیل جان کر بخوبی لگایا جاسکتا ہے ۔ مثلاً اسی(80) کی دہائی میں امریکہ اورسعودی عرب پوری دنیا میں مخصوص سوچ کو فروغ دینے کے لئے کوشاں تھے لیکن آج دونوں مجبوراً اس سے اپنی اور دنیا کی جان چھڑانے کے لئے بادل ناخواستہ تعاون پر مجبور ہورہے ہیں ۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے انتخابی مہم میں سعودی عرب اور مسلمان دنیا کے بارے میں جن جارحانہ خیالات کا اظہار کیا تھا اور صدر اوباما کے دور کی بے وفائیوں پر سعودی حکمراں جتنے دکھی ہوگئے تھے اور جس طرح انہوں نے امریکی بینکوں سے اپنی رقوم واپس نکلوانے کی دھمکیاں دی تھیں ، اس کے بعد صدر ٹرمپ کا دل کبھی نہ چاہتا کہ وہ پہلے دورے کے لئے سعودی عرب کا انتخاب کریں ۔ اسی طرح سعودی حکمراں کبھی دل سے نہ چاہتے کہ وہ امریکی سفارتخانے کے یروشلم منتقلی کے خواب دیکھنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کا ریڈکارپٹ استقبال کریں ۔ لیکن شاید دونوں تلخیوں کے ایک دور کے بعد اس نتیجے تک پہنچ گئے ہیں کہ ٹوگیڈر وی پریویل ۔یعنی دونوں اس نتیجے تک پہنچے ہیں کہ ایک دوسرے کے بغیر چارہ نہیں اور یوںامریکہ اور سعودی قیادت کی طرف سے ماضی قریب کی غلطیوں کی تلافی کی کوششیں ہورہی ہیں ۔ گذشتہ دو دنوں میں یوں تو یہاں پر عرب اسلامک امریکن سربراہی کانفرنس کا بھی انقعاد ہوا ۔ خلیج تعاون کونسل اور امریکہ کی سربراہی کانفرنس بھی منعقد ہوئی ۔ گلوبل سینٹر فار کمبیٹنگ ایکسٹریمسٹ آئیڈیالوجی کا بھی افتتاح ہو اوریہ افتتاح بھی ڈونلڈ ٹرمپ کے ہاتھوں ہوا (مکافات عمل دیکھ لیجئے کہ انتہاپسندنظریے کے تدارک کے لئے ریاض میں بین الاقوامی سینٹر قائم ہورہا ہے جس کا افتتاح امریکی صدر کررہے ہیں )۔

اسی طرح کنگ فیصل سینٹر فار ریسرچ اور اسلامک ملٹری کاونٹر ٹرزم کولیشن کے زیراہتمام دنیا بھر سے بلائے گئے دانشوروں کی کانفرنس بھی ہوئی لیکن اصل شو امریکہ اور سعودی عرب کے مابین تھا اور اصل اہمیت ان معاہدوں کوحاصل ہے جو ان دو ملکوں کے مابین ہوئے۔ یوں تو تین سو ارب روپے سے زائد کے معاہدے ہوئے لیکن اصل سودا وہی ہے جس کے تحت امریکہ سعودی عرب کو ایک سو دس ارب ڈالر کا دفاعی سامان فراہم کرے گا۔ دونوں ملکوں کے مابین اسٹرٹیجک وژن ڈیکلریشن پر بھی دستخط ہوئے اور ایک مشترکہ ورکنگ گروپ بھی تشکیل دیا گیا جس کا ہر سال اجلاس ہوا کرے گا۔ صدراوباما کی تقریر جہاں ان کے انتخابی مہم کے دعوئوں کے برعکس تھی ، وہاں دوسری طرف عرب حکمرانوں کے توقعات پر پوری طرح نہیں اتری کیونکہ یہاں ان سے ایران کے خلاف اس سے بھی سخت موقف کی توقع کی جارہی تھی ۔ دوسری طرف پاکستان اور افغانستان سمیت غیرعرب ممالک کے سربراہ یوں الجھن کے شکار نظر آرہے تھے کہ انتہاپسندی اور دہشت گردی کے خلاف منعقدہ اس کانفرنس میں القاعدہ اور داعش کے برابر ایران کا بھی ذکر ہورہا ہے ۔ ذاتی لحاظ س اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ کے لئے یہ دورہ اس لحاظ سے بڑی کامیابی ہے کہ وہ اپنے ملکی عوا م کو بتاسکیں گے کہ عالم اسلام کی قیادت آج بھی ان کی مٹھی میں بند ہے جبکہ سعودی حکمرانوں کے لئے اس لحاظ سے بڑی کامیابی ہے کہ اس نے امریکہ اور مغرب کو یہ پیغام دے دیا کہ وہ آج بھی عالم اسلام کا لیڈر ہے جبکہ ایران جیسے اپنے مخالفین کو بھی اس نے پیغام دے دیا کہ امریکہ آج بھی اس کی پشت پر ہے ۔

تاہم سوال یہ ہے کہ اس سمت میں سفر کے ذریعے مشرق وسطیٰ کا بحران کیسے حل ہوگا؟۔ کچھ حوالوں سے تو کنفیوژن یوں بڑھ گئی ہے کہ اتحاد کی سرپرستی کا کام امریکہ کو سونپ دیا گیا لیکن وہ داعش اور القاعدہ کی صف میں جہاں ایک طرف حزب اللہ کو کھڑا کررہا ہے وہاں دوسری طرف حماس کو اسی پلڑے میں ڈال رہا ہے ۔ حز ب اللہ کا اسی صف میں شامل ہونا اگر عرب حکمرانوں کو اچھا لگے گا تو حماس سے تو یقینا ان کو تکلیف ہوگی ۔ اسی طرح پاکستان ، ترکی، ملائشیااور انڈونیشیا جیسے ممالک اگر داعش اور القاعدہ کے معاملے میں امریکہ اور سعودی عرب کے ہمنوا ہیں تو ایران کے ساتھ وہ سب دوستی کا دم بھرتے ہیں ، وہ کیوں اس اتحاد میں عملی شریک ہوں جس کا ہدف ایران بھی ہو۔ پھر وہ اتحاد کیسے کامیاب ہوسکتا ہے کہ جس کے ہدف پر اتفاق ہو اور نہ لائحہ عمل واضح ہو۔ اگرچہ امریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے تینوں مذاہب کے درمیان تنازعات کے خاتمے کی دہائی سنائی اور ریاض سے وہ اسرائیل گئے اور پھر ویٹیکن سٹی جارہے ہیں لیکن جو کچھ ہوا اور ہونے جارہا ہے ، اس کا فائدہ اسرائیل کو اور نقصان مسلمانوں کی ہی ہوگا۔

ایران اور سعودی عرب ماضی میں بھی مخالف تھے لیکن کم ازکم اسرائیل کے دونوں یکساں مخالف تھے۔ اب دونوں کی توانائیاں ایک دوسرے کے خلاف ہی صرف ہوں گی ۔ پہلے خطے میں صرف فلسطین کا بحران تھا تمام عالم عر ب اور ایران ، اپنے اپنے طریقے سے اسرائیل کے خلاف متحرک تھے لیکن اب فلسطین سے زیادہ شا م اور یمن علاقائی اور عالمی افق پر چھا گئے ہیں جہاں ایران اور سعودی عرب ایک دوسرے سے لڑرہے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ان حالات میں پاکستان اپنے کردار کا تعین کیسے کرے گا کیونکہ ایک طرف سعودی عرب اور اس کے دیگر عرب اتحادی ہیں ۔ صرف یہ نہیں کہ پاکستانی حکمراں طبقے اور فوج کے ان ممالک کے ساتھ قریبی روابط ہیں بلکہ پاکستان کی معیشت بڑی حد تک ان ممالک سے جڑی ہے جبکہ دوسری طرف ایران ہے جو پڑوسی ہونے کے ساتھ ساتھ دوست بھی ہے۔سعودی عرب میں قیام کے دوران مجھے حیرت اس بات پر ہوئی کہ جتنا پاکستان میں اسلامک ملٹری کاونٹر ٹررزم کولیشن کا چرچا ہے ، یہاں اس حوالے سے پاکستان کے کردار کا کوئی خاص ذکر سننے کو نہیں ملا۔

مثلاً کانفرنس کے دوران وزیراعظم نواز شریف کو کوئی ممتاز حیثیت نہیں دی گئی۔ اپنی تقریر میں ڈونلڈ ٹرمپ نے دنیا بھر کا ذکر کیا لیکن پاکستان کا ذکر انہوں نے کسی بھی حوالے سے کرنا ضروری نہیں سمجھا۔ اسی طرح سعودی بادشاہ شاہ سلمان نے بھی پاکستان کا کوئی ذکر اپنی تقریر میں ضروری نہیں سمجھا۔ خلیج تعاون کونسل کے رہنمائوں سے صدر ڈونلڈٹرمپ کی الگ الگ ملاقاتیں کروائی گئیں لیکن میاں نوازشریف کو بھرپور کوششوں کے باوجود اس ’’سعادت‘‘ سے نہیں نوازا گیا۔ میں تین دن سے سعودی عرب کا سرکاری ٹی وی دیکھ رہا ہوں۔ خبروں کے علاوہ اس حوالے سے تبصرے ہورہے ہیں لیکن ان تین دنوں میں میں نے جنرل راحیل شریف یا پاکستان کا کہیں ذکر نہیں سنا۔ اسی طرح ان تمام تقریبات میں بھی جنرل راحیل شریف کسی فورم پرنظر نہیں آئے۔ وہ صرف عالمی سربراہوں کے بڑے ڈنر میں مدعو تھے اور ایک جگہ پر پرنس محمد بن سلمان کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہوئے نظر آئے۔ حیران ہوں یہ ذمہ داری لے کر انہوں نے اپنی شہرت کو خراب کرنے کا اتنا بڑا رسک کیوں لیا۔یا شاید نواز شریف نے اپنے تین سال کا حساب برابر کر دیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے