جنوبی ایشیا کی زنجیر

میں یہ کہتا رہا ہوں کہ ہم تاریخ سے چھپے پھرتے ہیں۔ مڑ کر اس راستے کو دیکھنے کی ہم ہمت نہیں کرتے جس پر چل کر ہم یہاں تک پہنچے ہیں اور شاید اسی لئے ہم کسی بھی دوراہے پر صحیح راستہ چننے کی صلاحیت نہیں رکھتے کیونکہ تاریخ سے سیکھ کر ہی ہم اپنی منزل کا تعین کر سکتے ہیں۔ خاص طور پر اس تاریخ سے جو ہماری زندہ یادداشت کا حصّہ بھی ہے جیسے مشرقی پاکستان کا بنگلہ دیش بن جانا یا افغانستان کے جہاد میں آنکھیں بند کر کے کود جانا یا جنرل ضیاالحق جیسےآمر کا مذہب کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا یا ان عوامل کو نظرانداز کرنا کہ جن کے سبب پورا ملک دہشت گردی اور انتہاپسندی کی کھائی میں جا گرا۔ ن م راشد کے ابتدائی دور کی ایک نظم یوں شروع ہوتی ہے کہ:
اے مری ہم رقص مجھ کو تھام لے
زندگی سے بھاگ کر آیا ہوں میں

اور زندگی سے بھاگ کر جینے کی مثالیں آپ کو شاید اپنے آس پاس مل جائیں۔ کچھ یہی رویّہ ہم نے اجتماعی طور پر اپنایا ہوا ہے۔ ہمارے حکمراں یا تو کوئی اہم فیصلہ کرنے سے پہلے سوچتے نہیں یا وہ اکثر خود کو بے بس محسوس کرتے ہیں۔ میں نے تاریخ سے منہ پھیر لینے کی بات کی ہے لیکن تاریخ تو ہمارا دامن نہیں چھوڑے گی۔ ہم جانتے ہیں کہ فرد کی زندگی میں بھی اور کسی معاشرے اور ملک کی زندگی میں بھی اچھے، برے دن آتے ہیں اور ایسے لمحات بھی کہ جب کوئی ایسا فیصلہ کرنا پڑتا ہے کہ جسکے اثرات بہت گہرے ہوں اور بہت کچھ بدل سکتے ہوں۔ اب یہ جیسے امریکہ، عرب اسلامی کانفرنس میں شرکت کا فیصلہ یا وہ فیصلہ جو کچھ عرصہ پہلے جنرل راحیل شریف نے کیا۔
آپ سمجھ گئے کہ جب میں نے تاریخ سے چھپنے کی بات کی تو میرا حوالہ کیا تھا۔ اتوار کے دن ریاض میں جو کچھ ہوا اور جو یہ تاثّر ابھرا کہ یہ سارا کھیل ایران کو تنہا کرنے کیلئے کھیلا جا رہا ہے، اس کا ردّعمل اب واضح ہو چکا ہے۔ اس سلسلے میں وضاحتیں بھی موجود ہیں۔ میں ان تفصیلات سے ہٹ کر ایک اور بات کہنا چاہتا ہوں، وہ یہ کہ ہم بار بار جنوبی ایشیا سے اپنے رشتے کو نظرانداز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ حکمت عملی کئی معنوں میں ہمارے لئے ایک مسئلہ بن جاتی ہے کیونکہ تاریخ کے بندھن کو توڑنا آسان نہیں ہے۔

اب یہاں میں یہ کہنے کی جسارت بھی کروں گا کہ تاریخ سے چھپنا یا اگر ہم میں ہمت ہو تو تاریخ کو بدلنا تو ممکن ہے لیکن جغرافیے کو بدل دینا کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ ہمارا جینا مرنا تو جنوبی ایشیاکے آنگن میں ہے۔ ہم جس مٹّی سے اگے ہیں اس کی اپنی چند خصوصیات ہیں۔ ظاہر ہے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جنوبی ایشیا صرف ایک ملک کا نام ہے یا یہ کہ یہاں صرف ایک قوم بستی ہے۔ پاکستان کا بننا بھی تو تاریخ کی ایک اٹل حقیقت ہے۔ جنوبی ایشیامیں کئی سرحدیں ایسی ہیں جو خون سے کھینچی گئی ہیں۔ ہر طرح کی تفریق نے کسی نہ کسی وقت اس خطے کو لہولہان کیا ہے۔ یہ وحشتیں بھی جنوبی ایشیا کی نفسیاتی ساخت میں گندھی ہوئی ہیں۔ ہمالہ کے سائے میں تاریخ کے قافلے نہ جانے کن وادیوں، جنگلوں اور صحرائوں سے گزرے ہیں کہ جنوبی ایشیا کے باسی ایک جیسے بھی ہیں اور ایک دوسرے کی ضد بھی ہیں۔

اب مشکل یہ ہے کہ میں نے ایک ایسا موضوع چھیڑ دیا ہے جس سے میں ایک کالم کی تنگی میں انصاف نہیں کر سکتا لیکن اس کا تعلق صرف اس ہفتے کی سرخیوں سے نہیں ہے۔ میری نظر میں بیجنگ میں منعقد ہونے والی وہ عظیم الشان کانفرنس بھی ہے جس میں چین نے اپنے اس عالمی نوعیت کے منصوبے کا جشن منایا ’’سی پیک‘‘ جس کا ایک اہم حصّہ ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کی اس کانفرنس میں ایک نمایاں حیثیت تھی اور شاید ریاض میں ایسا نہیں تھا۔ چین سے ہمارا جو تعلق بن رہا ہے اسے ہم اپنی تاریخ کا ایک اہم موڑ کہہ سکتے ہیں۔ گویا ایک نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے۔ یہ بات ہو رہی ہے کہ دیکھیں اب چین کی سوچ، اس کے کلچر اور اس کی زبان کا ہم پر کیا اثر ہونے والا ہے لیکن ہم تو چین کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے۔ شاہراہ قراقرم نے ہمیں ملا دیا ہے لیکن ہم جنوبی ایشیا میں رہتے ہیں اور چین کی دنیا بالکل مختلف ہے۔ ہم چین سے کیا سیکھ سکتے ہیں، اس کا دارومدار اس پر ہے کہ ہم خود کیا ہیں؟ مثال کے طور پر ہم مذہب کو اپنی زندگی سے کتنا دور کر سکتے ہیں؟ چین نے تو حالیہ دہائیوں میں اتنی ترقی کی ہے کہ دنیا میں اس کی کوئی مثال نہیں جبکہ ہم لگتا ہے کہ کسی اور زمانے میں رہتے ہیں۔ کسی بھی دن کا اخبار اٹھا لیجئے اور دیکھئے کیا تصویر بنتی ہے ہمارے معاشرے کی۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ عرب دنیا اور چین سے ہمارے رشتے کتنے ہی ضروری اور سودمند کیوں نہ ہوں، ہمیں پہلے اپنی جنوبی ایشیائی شناخت سے نباہ کرنا ہے اور اس تناظر میں اپنے دوسرے تمام رشتے استوار کرنے ہیں۔ ستّر کی دہائی میں جب لاکھوں پاکستانی ملازمت کیلئے خلیجی عرب ریاستوں میں گئے تو اس کے اثرات ہمارے کلچر اور سیاست پر بھی پڑے۔ اس سے پہلے مشرقی پاکستان کی علیحدگی نے بھی شاید اس سوچ کو تقویت دی کہ اب پاکستان جنوبی ایشیاسے کٹ کر مڈل ایسٹ کے قریب آ گیا ہے لیکن سچّی بات تو یہ ہے کہ ہم وہیں ہیں کہ جہاں تھے۔لیکن جہاں ہم ہیں وہاں تو سانس لینا بھی دشوار ہے۔ وہ اس لئے کہ انڈیا اور پاکستان کے کشیدہ تعلقات مختلف زمانوں میں آگ اگلنے لگتے ہیں۔ آج کل بھی کچھ یہی صورت ہے۔ اس کی بڑی وجہ کشمیریوں کی آزادی کی جدوجہد ہے۔ پاکستان کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس جدوجہد کی حمایت کرے۔ ویسے ان دو ایٹمی صلاحیت رکھنے والے ممالک کے درمیان جو تعلقات ہیں وہ بہت پیچیدہ ہیں۔

ایسے مسائل سیاستدانوں کی سمجھ میں نہیں آتے اور مفکروں اور تاریخ دانوں کی بات کوئی سنتا نہیں۔ ایک حقیقت ہمیشہ ہر تصادم کے پیچھے کھڑی دکھائی دیتی ہے اور وہ یہ کہ دونوں ملکوں کے درمیان ایک باقاعدہ جنگ نہ ممکن ہے اور نہ کسی مسئلے کا حل ہو سکتی ہے۔ گویا کبھی نہ کبھی دونوں کو مفاہمت کی میز پر آمنے سامنے بیٹھنا پڑے گا۔ اب آخر میں مجھے جنوبی ایشیا بلکہ خاص طور پر جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کا ایران سے جو رشتہ ہے اس کا ذکر بھی کرنا ہے۔ کسی گہرائی میں جائے بغیر یہ دیکھ لیجئے کہ جسے ہم اپنا قومی شاعر مانتے ہیں، اس کی وہ شاعری بھی ہے جسے ایران کے شہری اپنی زبان میں پڑھتے ہیں۔ ایران کے اسلامی انقلاب کے زمانے میں ’’اقبال لاہوری‘‘ کا کلام بڑے شوق سے پڑھا جاتا تھا۔ ایران کو تنہا کرنے کی امریکی اور عرب کاوش کا ایک پہلو فرقہ وارانہ تقسیم بھی ہے۔ جنوبی ایشیاکے مسلمانوں میں اس تقسیم کی نوعیت سب سے الگ رہی ہے۔ نہ صرف مغلیہ سلطنت کی سرکاری زبان فارسی تھی بلکہ اس میں ترکی اور ایران دونوں کے ستائے ہوئے افراد کو پناہ ملتی تھی۔ یہ جو ہم نے اپنے ملک میں ہولناک دہشت گردی برداشت کی ہے تو اس کی ایک وجہ کیا یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے جنوبی ایشیائی رشتے سے کٹتے جا رہے ہیں؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے