تہوار دلوں کو جوڑتے ہیں

زندگی صرف خوشیاں پانے اور بانٹنے کا نام ہے، ہمارا آپس میں میل جول نہ صرف ہمارے درمیان پیارومحبت کو بڑھاتا ہے بلکہ یہ مختلف زبانیں سیکھنے ،ثقافتوں کو جاننے، سمجھنے اور سوچنے کی استعداد کو پروان چڑھانے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ہماراسماجی ورثہ نہ صرف رسم ورواج، روایات، اخلاقی اقدار،رجحانات،تہوار،عقائد،لوک کہانیوں اور پسندیدہ شخصیات کا مجموعہ ہوتا ہے بلکہ یہ ہمیں وہ بناتے ہیں جو ہم ہیں اور ہمیں پابند کرتے ہیں کہ ہم اس ورثے کو آنے والی نسل کو منتقل کریں۔

تہواروں کے جہاں سماجی اثرات ہوتے ہیں وہیں یہ معاشی طور پر بھی بے انتہاہ سود مند ثابت ہوتے ہیں۔ ہم ایک ایسی دھرتی کے باسی ہیں جہاں ہماری خوشیوں کو نظر لگ گئی ہے اور اسی لیے زندگی میں توانائی بھرنے کے لیے میلوں کی کمی شدت سے محسوس کی جاتی ہے۔ یہ میلے ہی ہیں جہاں ہم کچھ دنوں کے لیے ہی سہی اپنی تمام تر فکروں سے آزاد ہو کر زندگی کی رنگینوں کو سمیٹنے میں مگن ہوجاتے ہیں۔

یہ تہوارجہاں ہمارے ذہنوں کو تناؤ سے نجات دے کر ہمارے جذبات کو متوازن ڈگر پر رکھتے ہیں وہیں یہ مثبت خیالات کو پروان چڑھا کر منفی سوچ کو ختم کردیتے ہیں۔یہ میلے تفریح طبع کے علاوہ ناراض دوستوں اور رشتہ داروں کو قریب لانے، کدورتیں دور کرنے اور محبتیں بڑھانے کا بھی زریعہ ہوتے ہیں۔یہ تہوار ہی ہیں جو لوگوں کو یکجا کرتے ہیں اور ملاتے ہیں اور مذہبی، سماجی اور معاشی تفریق کو بالائے طاق رکھ کر قومی تعمیر میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔

ہم اگر انسانی ارتقا ء کے دلچسپ سفر پر نظر ڈالیں تو ہم کو پتہ چلتا ہے کہ انسان نے بلا ضرورت نہ کچھ بنایا اور نہ ہی کچھ ایجاد کیا۔ جہاں تک میلوں کے آغاز کا سوال ہے توتاریخ اس حوالے سے کچھ بھی بتانے سے قاصر ہے تاہم قدیم یونان اور روم میں مذہبی، سماجی اور سیاسی حوالوں سے ان کو منانے کا رواج عام تھا۔
مذہب اور لوک کہانیوں کے ساتھ میلوں اور تہواروں کی روایت کو مہمیز دینے میں زراعت نے بھی انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ہماری دنیا کے متعدد تہوار اور میلے فصلوں کی کاشت کے وقت سے منسوب ہیں۔جہاں ایک جانب کرسمس ، روش ہشنا ، دیوالی اور عیدکا تہوار صدیوں سے ثقافتی اور مذہبی رنگ میں رنگے ہوئے ہیں وہیں دوسری جانب تاریخی اہمیت کے حامل واقعات جیسے عسکری فتوحات اور دیگر قومی حمیت کے حوالے سے تقریبات بھی میلوں کے آغاز کا باعث بنتی ہیں۔اس کی ایک مثال قدیم مصر میں فرعون رامیسس سوئم کی جانب سے لیبیا کے خلاف اپنی فتح پر ایک تہوار کا انعقاد ہے۔

سماجی ہم آہنگی اور بھائی چارے کی فضا قائم کرنے میں میلوں اور تہواروں کا ہمیشہ کلیدی کرداررہا ہے۔یہ میلے ثقافتی اور نسلی موضوعات کا احاطہ کرتے ہوئے برادریوں کو انکی روایات سے روشناس کرواتے ہیں۔ ان میلوں میں جہاں بڑے بوڑھے قصے کہانیاں اوراپنے تجربات کا زخیرہ نوجوان نسل کو منتقل کرتے ہیں وہیں یہ میلے خاندانوں میں اتحاد اور یگانگت کو بھی پروان چڑھاتے ہیں۔

تہواروں کی ایک اہم خصوصیت ان کا معاشی پہلو ہے۔ یہ میلے اور تہوار لوگوں کونہ صرف سستی تفریح فراہم کرتے ہیں بلکہ روزگار اور کاروباری مواقعوں کا بھی اہم زریعہ بنتے ہیں۔ 2005میں بسنت پر پابندی نے جہاں صرف لاہور میں دیڑھ لاکھ لوگوں کو بیروزگار کیا وہیں گوجرانوالہ اور قصور میں ایک لاکھ اسی ہزار لوگ ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ حال ہی میں ویلنٹائن ڈے پر لگنے والی پابندی سے متعدد گل فروش،تحا ئف اور غبارے بیچنے والے اپنی روزی کمانے سے محروم رہے۔

الیکٹرونک اور سوشل میڈیا کی آمد سے قبل تاریخی طور پر تہوار ہی تفریح کا بڑا زریعہ مانے جاتے تھے اور لوگوں کی مصروف زندگیوں میں تفریح کا سامان فراہم کرتے تھے۔

پاکستان میں حالیہ دہشت گرد حملوں کے پس منظر میں ان میلوں کی اہمیت پہلے سے بہت بڑھ گئی ہے اور ضرورت ہے کہ ایسے تہوار اور میلے جن پر حکومت کی جانب سے بندش ہے یا ان کو عوام کی جانب سے نظرانداز کیا جارہا ہے کو دوبارہ سے منایا جائے۔پاکستان متعدد میلوں کی جنم بھومی ہے اور یہ فیسٹیولز سوسائٹی اور عوام کو یقینی طور پر قریب لانے کا باعث بنیں گے۔ جس طرح سول سوسائٹی نے دہشت گردی کی نفی کرتے ہوئے لال شہباز قلندر کے مزار پر دھمال ڈالا وہ بہت خوش آئند اور حوصلہ افزاہے۔اسلام آباد میں لوک ورثہ کی جانب سے منعقدہ مادری زبانوں کے میلے کے آغاز اور اختتام پر مندوبین اور شرکاء کی جانب سے دھمال دہشت گردوں کی دقیانوسی ذہنیت پرجہاں ایک کراراوار ہے و ہیں میلے میں شریک ایک مندوب نے دھمال کو دہشت گردی کا جواب قرار دیا۔

پاکستان میں لوک ورثہ وہ واحد ادارہ ہے جو گذشتہ کئی برسوں سے مذہبی اور ثقافتی تہواروں کے احیاء اور ان کے فروغ کے لیے انتہائی تندہی کے ساتھ اپنا فعال کردار ادا کر رہا ہے۔ اسلام آبادمیں مادری زبانوں کے دو روزہ میلے کے کامیاب اور بہترین انعقاد کے بعد لوک ورثہ اب بسنت منانے جارہا ہے جس میں اساتذ ہ ا کرام موسیقی، رقص اور پتنگ سازی کی تربیت دیں گے۔ شرکاء کے لیے فوڈ اسٹالز کا بھی اہتمام کیا جائے گا۔لوک ورثہ کی جانب سے آنے والے مہینوں میں نوروز، ہولی، دیوالی اور کرسمس کے علاوہ رباب، اور سروز منانے کا بھی پروگرام ترتیب دیا گیا ہے۔یہ تہوار اور میلے ہم کو ر نگ و نسل اور مذہب سے بالا تر ہو کر پیار اورمحبت کی مالا میں پرو دیتے ہیں۔ ہمارا یقین ہے کہ یہ تہوار اور میلے بھی جیون کا ایک انمول تحفہ ہیں جن کو بھرپور طریقے سے منانے کی ضرورت ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے