رمضان المبارک کی جدلیات

رمضان المبارک ایک بابرکت مہینہ ہے. رمضان کے روزے ہر عاقل اوربالغ صحتمند مسلمان مرد و زن پہ فرض ہیں. لہذا ہر مسلمان کو روزے رکھنے چاہیے ہیں. بیمار، عاجز اور مسافر مسلمانوں کیلیے روزے سے چھٹی مل سکتی ہے بشرطیکہ وہ بعد میں روزے پورے کرے، مگر مستقل عاجز افراد کیلیے سے چھٹی مل سکتی ہے بشرطیکہ وہ فی روزہ ایک انسان کو کھانا کھلائے. علاوہ ازیں حائضہ اورنفاس والی عورت پر روزہ رکھنا لازم نہیں لیکن وہ بعد میں اس کی قضا کرے گی.

رمضان المبارک کے روزے دو ہجری میں فرض کیے گئے. قرآن کی سورہ البقرہ کی آیت نمبر 182 کے مطابق:
يأَيُّهاَ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَيْکُمُ الصِّيَامُ
"اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں”

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں 9 برس رمضان المبارک کے روزے رکھے. حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَّإِحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّم مِنْ ذَنْبِهِ.

بخاری، الصحيح، کتاب الصلاة التراويح، باب فضل ليلة القدر، 2 : 709، رقم : 1910

’’جو شخص بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھتا ہے اس کے سابقہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں‘‘

اسلام نے تمام مسلمانوں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا ہے، ریاست چاہے تو متفقہ فیصلہ لیکر اِس مذہبی حکم کو ریاستی سطح پہ نافذ کر سکتی ہے، مگر اِس فیصلہ کا نفاذ ریاست اتفاقِ رائے سے کرنے کی پابند ہے. یعنی ریاست جمہور سے مشورہ لیکر ہی ایسا کرسکتی ہے ورنہ یہ ایک جابرانہ فیصلہ ہو گا جس کی کسی طور تحسین نہیں کی جا سکتی ہے.

عام آدمی اپنی انفرادی سطح پہ روزہ رکھوانے کا مختار نہیں ہے. ایک شخص دوسرے شخص سے یہ جاننے کا اختیار بھی نہیں رکھتا کہ دوسرا روزہ دار ہے یا نہیں ہے. اِس بنیاد پہ کسی سے نفرت یا بغض رکھنا بھی درست معلوم نہیں ہوتا ہے. مسلمان روزہ اپنے رب کی خوشنودی کیلیے رکھتا ہے مگر اِس ضمن میں کسی دوسرے کا ذمہ دار نہیں ہے. لہذا زبردستی کرنا مناسب نہیں ہے.

کوئی افراد دوسروں سے جلدی سحری کی معیاد ختم کر دیتے ہیں، اور کچھ لوگ افطاری کرنے میں جلدی کرتے ہیں، مگر یہ بات بھی قابل نفرت یا بغض کی وجہ نہیں بن سکتی ہے. یہ لڑائی والی بات قطعاً نہیں ہے. پریشان نہ ہوں اور نہ ہی غصہ کریں. کچھ لوگ ایک دن پہلے رمضان کا آغاز کر چکے ہیں، یہ بات بھی کوئی پریشانی والی بات نہیں ہے. اِس کو قومی مسئلہ نہیں بنانا چاہیے، یہ ہمارے حقیقی مسائل نہیں ہیں جن کو اتنی اہمیت دی جائے. آج کل قومی مسائل یہ ہیں کہ رمضان میں مہنگائی بڑھ چکی ہے اور لوڈشیڈنگ بھی ہو رہی ہے.

رمضان میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ سماج میں موجود دوسرے انسانوں کی مدد کرنی چاہیے. کھانے پینے کی اشیاء، بیماروں کی ادویات اور عید کے قریب افراد کیلیے عیدی وغیرہ کا اہتمام کرنا چاہیے. موجودہ عہد قلیل آمدنی والے لوگوں کیلیے ایک عذاب سے کم نہیں ہے. اِس عذاب کو جھیلنے میں دوسرے افراد کی مدد بھی کیجیے. اللہ کے رسول صل اللہ علیہ و آلہ و سلم رمضان کے مہینے میں صدقات و خیرات کا خصوصی اہتمام کرتے تھے.

سرمایہ دارانہ نظام میں مذہبی پیروی بھی تقریباً ناممکن امر ہے. جیسے ہمارے علاقوں میں موسم کی شدت نسبتاً زیادہ ہوتی ہے. یہاں روزہ رکھنا قدرے مشکل ترین ہے. ایسی تپش میں، گرمی اور حبس میں بارہ بارہ گھنٹے سے زائد کی مزدوری اور محنت کشی روزہ رکھنے سے روکتی ہے. پھر اِس مہینے کے فوراً بعد عید بھی ہوتی ہے، عید کے اخراجات کی تکمیل کیلیے باقی دنوں کی نسبت زیادہ اوور ٹائم اور مزدوری کرنی پڑتی ہے. اِن حالات میں تو روزہ رکھنا ناممکنات میں سے ہے.

اب ایک آدمی جو کسی بھی مذہب کا پیروکار ہوتا ہے اور وہ اپنے مذہبی فرائض سرانجام نہیں دے سکتا تو خود کو قصور وار سمجھنا شروع کر دیتا ہے. خود سے، اپنے کام سے اور سماج سے بیگانگی کا شکار ہو کر آہستہ آہستہ خود کو ایک غیرپیداواری انسان سمجھنے لگ جاتا ہے.

عید کے دنوں میں مادی اشیاء کی زہریلی مقابلہ بازی کا ماحول بھی محنت کشوں کیلیے بہت تکلیف کا سبب بن جاتی ہے. کپڑے، جوتے، خوراک وغیرہ جیسے معاملات محنت کش طبقہ کی رسائی سے باہر ہو جاتے ہیں. ٹیکس کی ادائیگی کے باوجود نجی ملکیت کے ارتکاز کے سبب سماج میں طبقاتی تضاد ابھر کر سامنے آ جاتا ہے.

اِس ضمن میں آزاد منڈی کی معیشت کی بجائے ایک منصوبہ بند سوشلسٹ نظامِ معیشت عوام کی تکلیفوں کا خاتمہ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے. چونکہ سوشلسٹ سماج میں زرائع پیداوار اور زرائع روزگار کسی سرمایہ دار کی نجی ملکیت میں ہونے کی بجائے پورے سماج کی ملکیت ہوتے ہیں اِس لیے اکثریت کو روزگار فراہم کرنے کیلیے محنت کشوں کے کام کے اوقات(working hour) کم ہو جاتے ہیں جس کے نتیجے میں محنت کش عوام اپنے آپ کو، خاندان کو، احباب کو اور مذہبی فرائض کو بہترین وقت دینے کی حالت میں ہوتے ہیں. روزہ کی حالت میں بارہ بارہ گھنٹے کام کرنے کی بجائے چار گھنٹے کے کام کے اوقات محنت کشوں کے روزہ کو آسان بنا سکتے ہیں. عبادات، نماز اور تلاوت کیلیے وقت میسر آ جائے گا.

چونکہ سوشلسٹ نظامِ معیشت میں ہمہ قسمی منافع کسی ایک سرمایہ دار کی جیب میں نہیں جاتا بلکہ پورے سماج پہ خرچ ہوگا اِس لیے طبقاتی تضاد کے خاتمے سے مادی اشیاء کی زہریلی مقابلے بازی کا بھی خاتمہ ہو گا. خوراک اور لباس پہ ہر سماجی اکائی کی یکساں رسائی محنت کش عوام کو سکھ مہیا کرے گی. آج کی سرمایہ دارانہ عید درپردہ عوام کیلیے مشکلات کا سبب بنتی ہے جبکہ سوشلسٹ سماج میں منائی جانے والی عید سب کیلیے یکساں خوشیوں کا سبب بنے گی.

آئیے ایک رمضان کی حقیقی برکتوں کے حصول کیلیے سوشلسٹ نظامِ معیشت کی جدوجہد میں اپنا اپنا حصہ ڈالیں.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے