جگر کا گرم لہو چاہیے وضو کے لیے

مہذب قوم وہ ہوتی ہے جو احساس کمتری کی مریض نہ ہو ۔جس کا لباس،وضع قطع،بودوباش،اور چال چلن اس کے اپنے قومی رجحان کا آئینہ دار ہو مگر ہمارے ہاں احوال یہ ہے کہ سر چوٹی سے لیکر پاؤں کے تلوے تک ہر نقش ادھار لگتا ہے اور مستعار معلوم ہوتا ہے ۔کوئی امریکن لگنے کے خبط میں مبتلا ہے ،کوئی ہندو کلچر کا دلدادہ ہے،کسی کو برطانوی لہجہ اپنانے کا لپکا ہے اور کوئی فرنچ نظر آنے کے روگ میں پہلو بدل رہا ہے ۔ایک مہذب قوم تو مانگی ہوئی جنت کو بھی خودی کے منافی سمجھتی ہے ،کجا کہ کشکول ہاتھ میں لیکر جہنم کی بھیک مانگتی ہوئی نظر آئے ۔

مہذ ب قوم اسے کہا جاتا ہے جس کے ہاں افراد فانی اور ادارے باقی کا تصور کار فرما ہو۔قانون بالادست اور حکمران اور رعایا زیر دست ہوں،جبکہ ہم نے افراد کو آب حیات کا درجہ دے رکھا ہے اور ادارے فقط ٹشو پیپرزکھایا پیا ہاتھ پونچھے اور ایک طرف پھینک دیا ۔مہذب قوم کی بات موضوع سخن ہو تو اسے مہذب قوم کہا جاتا ہے ،مہذب قوم وہ ہوتی ہے جس کے قول و عمل میں بہت زیادہ فاصلہ نہ ہو،جس کا ہر فرد ۔۔۔ادنیٰ فرد۔۔۔بھی اپنے طرز عمل سے قوم کا وقار بڑھائے نہ کہ مذموم حرکتوں سے رہا سہا اعتبار بھی کھو دے ۔ہمارے ہاں ادنیٰ فردتو کیاایک اعلیٰ افسر بلکہ وزراء تک اس احتیاط کو ملخوظ نہیں رکھتے۔

افراد کو قوم بنانے اور قوم کو مہذب بنانے میں سب سے اہم کردار لیڈر کا ہوتا ہے ۔لیڈر ہی افراد کے جھرمٹ کو اکٹھا کر کے قوم بناتا ہے اور دوسرے مرحلے میں اس قوم کو مہذب بنانے کی کوشش کرتا ہے۔

مشہور برطانوی شاعر رابرٹ براؤننگ نے کہا تھا’’قوم تب بنتی ہے جب بہت سے افراد مل کر کسی ایک فرد کا طرز زندگی اپنانے کی کوشش کرتے ہیں،اس کے اصولوں پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں،اس فرد کو لیڈر کہا جاتا ہے اور کسی قوم کے اچھے یا برے ہونے کا انحصار لیڈر کے اچھے یا برے ہونے پر ہوتا ہے‘‘لیڈر ہی قوم کو لیکر چلتا ہے اور اپنے جیسے ہزاروں افراد کی قیادت کرتا ہوا انہیں کسی اچھے یا برے راستے پر گامزن ہونے پر امادہ کرتا ہے۔

لیڈر شپ کوئی آسان کام نہیں کہ ہر کوئی اسے انجام دے سکے ،صرف وہی فرد خود کو لیڈر کہلوانے کا حقدار ہے جس میں بے پناہ حوصلہ ،لگن،محنت کرنے کی عادت ،اعلیٰ ذہانت ،اعلیٰ ظرف اور تحمل و برداشت کی صفات ہوں ،جس میں ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے کی طاقت ہو۔جنرل ڈیگال نے ایک مرتبہ کہا تھا’’سوچ بچار بہت سے آدمی کرتے ہیں اور کام صرف ایک کرتا ہے ،لیڈر ہی ایک آدمی ہوتا ہے جس کے شانوں پر سارے کام کا بوجھ ہوتا ہے‘‘۔

ہمارے ہاں بھی لیڈری کا شوق پالنے کو ہر دوسرا شخص تیار ہوتاہے،بالخصوص جاگیر دار طبقہ اور نو دولتیے اس کے لیئے ہر وقت کمر بستہ رہتے ہیں۔اس لیئے کہ غم روزگار سے وہ آزاد ہوتے ہیں،انہیں کسی شغل کی ضرورت ہوتی ہے سو وہ قوم کے لیڈر بن جاتے ہیں۔ اسی قماش کی لیڈرشپ نے قوم کو اب تک مہذب قوموں کی فہرست میں شامل نہیں ہونے دیا اورملک کو الٹے پاؤں سفر کرنے پر مجبور کر رکھا ہے ۔

قائداعظم کے بعد کوئی ایسا شخص اس ملک میں نہیں آیا جو کو ئی معجزہ کر دکھاتا ۔قدرت نے قائد اعظم کو دماغ اعلیٰ اور غنی مزاج دے رکھا تھا۔کسی نے علامہ اقبال سے پوچھا کہ آخر قیادت کے ضمن میں آپ کی نگاہ انتخاب محمد علی جناح کی طرف کیوں اٹھی تو انہوں دوحرفی مگر خوبصورت اور جامع جواب دیا تھا’’ایک یہ کہ یہ شخص Unpurchaseableہے اور دوسرے Incorruptہے۔یہ دو صفات اعلیٰ انسانی اخلاق اور بلند پایہ لیڈر کی دلیل اور مظہر ہیں۔قائداعظم کے بعدبھی کچھ اہل لوگ میدان میں آئے جنہوں نے اس قوم کو ساتھ لیکر چلنے کی کوشش کی مگر تیکھی نگاہوں نے انہیں ابھرنے ہی نہیں دیا اور نااہل وڈیرے یا جاگیردار لوگ لیڈر بن گئے اور آج پوری قوم اپنے طرز عمل اور ان کے فرد عمل کا خمیازہ بھگت رہی ہے۔

لیڈر بننے میں کشش تو بہت ہے ،زندہ باد کے نعروں کی گونج کس کو مدہوش نہیں کرتی ،ڈی چوک اور رائیونڈ میں بڑے بڑے جلسے کس کا دل نہیں لبھاتے،ہوائی اڈوں پر کارکنوں کا ہجوم کس کو نہیں بھاتا ،جہازی حجم کے پوسٹر اور قد آدم پورٹریٹ کس کو مسحور نہیں کرتے،اخبارات میں آٹھ کالمی انٹرویو کس کی چٹکیاں نہیں بنتے،ٹی وی چینل پرچرچے کس کے سینے میں ہلچل نہیں مچاتے ،مگر یہ سب دل بہلانے کے کھلونے ہیں جو ان سے دل بہلا کر خوش ہوجائے وہ بچگانہ سوچ کا آدمی ہے لیڈرنہیںیہ باتیں بہت دلفریب ہیں پھر بھی۔

نماز عشق میں گو دل کشی بہت ہے مگر
جگر کا گرم لہو چاہیئے وضو کے لیئے

لیڈر کو اعلیٰ دماغ اور غنی مزاج ہونا چاہیئے ۔اعلیٰ دماغی انسان کو وژن عطا کرتی ہے اورغنی مزاج لیڈر کو اسکی ذات ،خاندان کے مفاداور ہوس مال وجاہ سے اوپر اٹھا دیتی ہے ۔جو لوگ تاریخ میں امر ہوئے ہیں رشوت اور سفارش کی بنیاد پر نہیں ہوئے وہ اہلیت اور کڑی آزمائش کے زور پر ہوئے ہیں،ورنہ تاریخ کے سفر میں کسی کو گرد کی طرح بیٹھنے ،بتاشے کی طرح پگھلنے ،دھوئیں کی طرح اڑنے،بلبلے کی طرح پھٹنے ،ہوا کے جھونکے کی طرح گزرنے اور پانی کی لکیر کی طرح مٹنے میں دیر نہیں لگتی ۔

ہمارے ہاں اکثر لیڈر اپنی تصاویر دیکھ کر، چوکھٹے میں چھپی اپنی خبر پڑھ کر اور ٹی وی چینل پر چرچا ہوتا دیکھ کر خوش ہونے والے ہیں۔یہ چیزیں ان کی آکسیجن ہیں۔کمال تو ان لوگوں کا ہے جن کے زمانے میں نہ پرنٹ میڈیا تھا اور نہ الیکٹرونک میڈیاتھامگر وہ سینہ ہستی پر نقش اور لوح جہاں پر رقم ہو کر رہ گئے۔وہ حرف مکرر نہ تھے کہ مٹا دیئے جاتے بلکہ قند مکرر بن کر رہے جن کی یاد سے زمانہ بار بار لطف لیتا ہے۔

ہمارے لیڈروں نے تو لمحوں کے سفر کو صدیوں کا سفر بنا کر قوم کے لیئے بوجھل کر دیا ہے ۔اعلیٰ دماغ اور غنی مزاج ایک لمحے میں صدیوں کو اپنی مٹھی میں کر لیتا ہے اور نااہل لوگ لمحوں کو پھیلا کر صدیوں میں بکھیردیتے ہیں اور پھر ان کو سمیٹنے میں عمریں لگ جاتی ہیں مگر ہاتھ کچھ بھی نہیںآتا۔

ویسے تو پوری کی پوری ملت اسلامیہ اس بات میں تہی دامن ہے کہ کوئی اونچا بڑا اور کھرا رلیڈر اسے میسر نہیں اگر ہوتا تو یہ بونے کب کے کونے سنبھال چکے ہوتے اور کون انہیں لیڈر مانتا،لیکن پاکستان تو ایڑیاں اٹھا اٹھا کر اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کسی ایسے شخص کو دیکھ رہا ہے جو بلند حوصلہ ہو ، جو اپنی ذات کی چاہت،اولاد کے مستقبل کی ضمانت،مال وزر کی وسعت،اور اقتدار کی شان و شوکت سے بالاتر ہو کر رہنمائی فریضہ انجام دے اور اس قوم کو مہذب قوموں کی فہرست میں شامل کرنے میں اپنا کردار ادا کرے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے