چلو عمرہ ہی کر لیتے ہیں

سعید صاحب اور ان کی بیگم محلے کے ہر دلعزیز افراد میں شامل ہیں ، عبادت گذار تو ہیں ہی ساتھ ہی ساتھ محلے والوں کی خبر گیری کرنے میں بھی پیچھے نہیں رہتے۔ صرف ایک بہت عجیب سی بات جو مجھے اس خاندان کی لگتی ہے وہ یہ ہے کہ ہر رمضان میں یہ دونوں میاں بیوی اور انکے اہل خانہ عمرہ کی ادائیگی کے لئے جاتے ہیں ، بالکل اس طرح جیسے سعودی عرب ان کے لئے راجہ بازار ہو ۔

پہلے پہل تو میں یہی سمجھتی رہی کہ واہ بھئی واہ ان کی تو ہر سال منظوری ہوتی ہے کہ یہ عمرہ کے لئے جاتے ہیں لیکن یہ عقدہ تو بعد میں کھلا جب آنٹی نے مجھے اپنے نئے بندے دکھا کر کہا کہ یہ وہ اس مرتبہ سعودی عرب سے لائی ہیں کیونکہ مڈل ایسٹ میں سونا سستا ہے لہذا وہ اپنی اور اپنی بیٹیوں کی شاپنگ وہیں سے کرتی ہیں اور اسی بہانے عمرہ کر کے اللہ تعالی کی خوشنودی بھی حاصل ہو جاتی ہے ، بلکہ وہ تو مجھے بھی کہنے لگیں کہ اگر تمھیں کچھ چاہیے ہو تو تم بھی بتائو میں لے آئوں گی مطلب یہ کہ تم منگوا لینا ۔

میں آنٹی کی باتیں سب کر سوچ میں پڑ گئی کہ رمضان المبارک تو برکتوں کا مہینہ ہے ، اس ماہ میں تو ہمیں محض اللہ تعالی کی رضا کے لئے عبادات کرنی چاہیں ، دل سے اللہ تعالی کو یاد کرنا چاہیے ، دکھاوے کا روزہ نہیں رکھنا چاہیے کہ صرف پیٹ کا روزہ ہو اور آنکھیں ، ہاتھ ، زبان اور دیگر اعضا کا روزہ نہ رہے ، صرف زبان سے اللہ اللہ کرتے رہیں اور غیبت بھی جاری رہے ، ذخیرہ اندوزی بھی کرتے رہیں ، دوسروں کی حق تلفی بھی ہوتی رہے اور ہم خوش رہیں کہ بس روزہ رکھ لیا ، عمرہ کر لیا ، شاپنگ کر لی اور گھر آگئے ۔

لیکن یہ صرف انکل سعید کی ہی کہانی نہیں ہمارے آپ کے اردگرد بہت سے لوگ ایسے ہیں جو حج ، عمرہ اور زیارات محض شو مارنے کے لئے کرتے ہیں ، محض مقامات مقدسہ پر شاپنگ کرنے کے لئے کرتے ہیں ، جبکہ دوسری جانب ہمارے کتنے بہن بھائی دل میں حج و زیارات کی حسرت لئے اس دنیا سے چلے جاتے ہیں اور ان کے پاس اتنے وسائل نہیں ہوتے کہ وہ یہ سعادت حاصل کر سکیں ۔ وہ یہی سوچتے رہتے ہیں کہ کاش ان کا کوئ سبب بن جائے لیکن اکثر ایسا نہیں ہوتا ۔

ہم نام کے مسلمان ٹورز پر پیسے تو لگا دیں گے لیکن کسی شخص کو حج یا زیارات کے لئے رقم یا قرض حسنہ نہیں دیں گے ، افسوس ہے ایسے معاشرے پر ایسے افراد پر جو صرف مسلمان ہونے کا دعوی کرتے ہیں ایسی ریاست پر تف ہے جو اسلامی فلاحی ریاست ہونے کا دعوی کرتی ہے ۔ایسے معاشرے سے بہتری کی توقع کیا کرنی جہاں رمضان میں افطار پارٹیوں میں بے دریغ کھانا ضائع ہو رہا ہوتا ہے اور دور کسی غریب کے بچے روٹی کا ایک ٹکڑا نہ ملنے پر باری تعالی سے شکایت کر رہے ہوتے ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے