کتاب بینی ہمیں‌کیا دیتی ہے؟

احباب مجھ سے پوچھتے ہیں کہ مطالعہ سے انسان کو کیا ملتا ہے ؟آپ اتنا مطالعہ کیوں کرتے ہیں ؟

میرا تعلق چونکہ قلم قبیلے سے ہے۔ہم ادیبوں کے قدموں کی خاک برابر نہیں ،مگر ہم سمجھتے ہیں ایک شہ سوار قلم کے لیے مطالعہ اتنا ضروری ہے جتنا انسانی زندگی کی بقاء کے لیے دانا اور پانی کی ضرورت ہے ۔مطالعہ کے بغیر قلم کے میدان میں ایک قدم بھی بڑھانا مشکل ہے ۔

علم انسان کا امتیاز ہی نہیں بلکہ اس کی بنیادی ضرورت بھی ہے جس کی تکمیل کا واحد ذریعہ یہی مطالعہ ہے ،ایک پڑھے لکھے شخص کے لیے معاشرہ کی تعمیر و ترقی کا فریضہ بھی اہم ہے ،اس لیے مطالعہ ہماری سماجی ضرورت بھی ہے ۔اگر انسان اپنے سکول و مدرسہ کی تعلیم مکمل کر کے اسی پر اکتفاء کر کے بیٹھ جائے تو اس کی فکر و نظر کا دائرہ بالکل تنگ ہو کر رہ جائے گا ۔

مطالعہ استعداد کی کنجی اور صلاحتیوں کو بیدار کرنے کا بہترین آلہ ہے ،یہ مطالعہ کا ہی کرشمہ ہے کہ انسان ہر لمعہ اپنی معلومات میں وسعت پیدا کرتا رہتا ہے ۔مطالعہ ایک ایسی دوربین ہے جس کے ذریعے دنیا کہ گوشہ گوشہ کو دیکھتا ہے ،مطالعہ ایک طیارے کی مانند ہے جس پر سوار ہو کر مطالعہ کرنے والا دنیا کی چپہ چپہ کی سیر کرتا ہے اور وہاں کی تعلیمی ،تہذیبی ،سیاسی اور اقتصادی احوال سے واقفیت حاصل کرتا ہے ،شورش نے کہا ’’کسی مقرر کا بلا مطالعہ تقریر کرنا ایسا ہی ہے جیسا بہار کے بغیر بسنت منانا ‘‘ یہ تو ایک مقرر کے سلسے میں بات تھی لیکن ٹھیک یہی صورت ایک قلم کار کی ہے ،

کسی دانشور کا قول ہے کہ آج لوگ لکھنے والے زیادہ اور پڑھنے والے کم ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے تحریر کی اثرآفرینی ختم ہو گئی ہے ،اس لیے تحریر کو موثر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ایک صفحہ لکھنے کے لیے سو صفحات کا مطالعہ ہو ۔پروفیسر عبدالغنی کہتے ہیں کہ مطالعہ کی غرض علم کا حصول اور راہ عمل کی تلاش ہے ۔

کتاب علم میں اضافہ کرتی ہے ،غور و فکر کے دریچے کھولتی،زبان کو حسن بخشتی ،اسلوب کو نکھارتی ،لہجے کو سنوارتی ،اظہار کا قرینہ سکھاتی ،الفاظ میں جادو بھرتی اور ابلاغ کو تاثیر دیتی ہے ،کتاب کے مطالعے کے بغیر گفتگو میں تنوع اور پیغام میں تیقین پیدا نہیں ہوتا ،مطالعہ زبان کو خطیب اور قلم کو ادیب بنا دیتا ہے ۔

مطالعے کی وسعت تکلم کو قدرت اور تلفظ کو ندرت عطا کرتی ہے ،صاحب مطالعہ کی تقریر آبشار کی سی موسیقی کا لطف دیتی ہے اور اس کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے ۔کتابوں سے جہاں معلومات میں اضافہ اور راہ عمل کی جستجو ہوتی ہے وہیں اس کا مطالعہ ذوق میں بالیدگی ،طبعیت میں نشاط ،نگاہوں میں تیزی اور ذہن و دماغ کو تازگی بخشتا ہے ۔

مطالعے کے دوران بعض حکیمانہ قول بھی نظر سے گزرتے ہیں جو ضخیم کتابوں پر بھاری اور طویل لیکچروں پر حاوی ہوتے ہیں مثلاََ ’’جمہوریت میں قابلیت کے مقابلے میں مقبولیت کو دیکھا جاتا ہے‘‘اسی جمہوریت کے حوالے سے ایک فکر انگیز قول ’’جمہوریت وہ خوش فہمی ہے جس میں عوام مسلسل مبتلا رہتے ہیں‘‘تاریخ اور سیا ست کی بابت یہ جملہ بھی انتہائی قابل توجہ اور فکر آفرین ہے ’’تاریخ ماضی کی سیاست اور سیاست حال کی تاریخ کا نام ہے ۔

مطالعہ ایک خوبصورت گلشن کی مانند ہے،اس میں خوشبو بھی ہے،دل آویزی بھی ہے اور خاردارشاخیں بھی ہیں ۔ایک طرف جہاں مطالعہ کی اہمیت مسلم اور افادیت قابل ذکر ہے اس طرح اس کے طریقہ کار سے بھی واقفیت ضروری ہے ۔اس لیے کسی بھی کام کو اس کے اصول اور ضابطہ سے کیا جائے تو وہ کارآمد ثابت ہوتا ہے ورنہ نفع تو درکنار نقصان ضرور ہاتھ آتا ہے ،یہ بھی قابل ذکر بات ہے کہ مطالعہ کو اس خیال سے ہر گز ترک نہیں کرنا چاہیے کہ یاد نہیں رہتا بلکہ مطالعہ ضرور کریں کہیں نہ کہیں اس کا فائدہ ضرور ہوتا ہے اس لیئے کہ مہندی میں سرخی پتھر پر بار بار گھسنے کے بعد ہی آتی ہے اس لیئے کتب بینی کو یاد نہ رہنے یا سست روی کی وجہ سے ترک نہیں کرنا چاہیئے۔

آخر میں ابوالکلام آزاد کا ایک نثر پارہ پیش ہے جتنی بار پڑھیے لطف لیجیے:

”بڑے بڑوں کا عذر یہ ہوتا ہے کہ وقت ساتھ نہیں دیتا اور اسباب کارفراہم نہیں لیکن وقت کا اعظم و فاتح اٹھتا ہے اور کہتا ہے وقت ساتھ نہیں دیتا تو میں اس کوساتھ لوں گا ،اگر سروسامان نہیں تو اپنے ہاتھوں سے اسے تیار کرلوں گا،اگر زمین موافق نہیں تو آسمان کو اترنا چاہیے ،اگر انسانوں کی زبانیں گونگی ہیں تو پتھروں کو چیخنا چاہیے ،اگر ساتھ چلنے والے نہیں تو کیا مضائقہ ،درختوں کو دوڑنا چاہیئے،وہ زمانے کی مخلوق نہیں ہوتا کہ زمانہ اس سے چاکری کرائے وہ وقت کا خالق اور عہد کا پالنے والا ہوتا ہے ،وہ زمانے کے حکموں پر نہیں چلتا بلکہ زمانہ آتا ہے تاکہ اس کی جنبش لب کا انتظار کرے وہ دنیا پر اس لیے نظر نہیں ڈالتاکہ کیا کیا ہے جسے دامن بھر لوں ؟بلکہ وہ یہ دیکھنے کے لیے آتا ہے کہ کیا کیا نہیں جس کو پورا کردوں ”

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے