پاکستان گھر جیسا لگتاہے: استاد کمال صابری

پچھلے دنوں بین الاقوامی انعام یافتہ بھارتی سارنگی نواز استاد کمال صابری بھارت سے خاص طور پر پاکستانی اوپرا سنگر سائرہ پیٹر کے کنسرٹ میں پرفارم کرنے کے لیے پاکستان تشریف لائے۔ اس موقع پر آئی بی سی نے ان سے خصوصی گفتگو کی ۔

آئی بی سی: کمال صاحب پاکستان میں خوش آمدید
کمال صابر:شکریہ! میرا بھی سب پاکستانیوں کو سلام

آئی بی سی: سارنگی بجانے میں آپ کاایک وسیع تجربہ ہے۔ سارنگی کیاہے اور کیسے بجائی جاتی ہے؟
کمال صابری: اس ساز کا نام دراصل سورنگی ہے جس کا مقصد ہے کہ آپ اس ساز کو مختلف انداز کے سروں اور موسیقی میں استعمال کرسکتے ہیں، جس میں کلاسیکی سے لے کر فوک اور فلمی موسیقی تک شامل ہے۔ مختصرا سارنگی کو موسیقی کی ہر صنف میں بجایا جاسکتا ہے۔
اس ساز کو بجانے کا ایک مخصوص طریقہ ہے جس میں ناخن کے اوپری حصے کا استعمال کیاجاتا ہے اور بجانے کے دوران سارنگی کو اس انداز سے رکھا جاتا ہے کہ وہ دل سے بہت قریب ہوجاتی ہے۔ اس لیے کہتے ہیں کہ سارنگی نواز جو موسیقی بناتے ہیں وہ دل کی آواز ہوتی ہے۔ سارنگی پر میرے اپنے کافی تجربات ہیں جو کہ دینا بھرمیں مشہور ہیں۔

آئی بی سی: آپ اب تک دنیا میں کہاں کہاں پرفارم کرچکے ہیں؟
کمال صابری: میں نے یورپین موسیقاروں کے ساتھ بہت کام کیا ہے۔اس کے علاوہ پاکستانی موسیقاروں کے ساتھ بھی کافی کام کیا ہے۔ اور میں جب بھی پاکستان آتاہوں سب ہی مجھے بہت پیار اور عزت دیتے ہیں۔ میں ان سب کا بڑا شکرگزار ہوں۔

آئی بی سی: بھارت، پاکستان اور دیگر دنیا میں پذیرائی ملنے کے علاوہ آپ کو نوبل انعام کی تقریب میں پرفارم کرنے اعزاز بھی حاصل ہے؟ اس بارے میں کچھ بتائیں۔
کمال صابری: میں نے تین سال قبل نوبل ایوارڈ کی تقریب میں پرفارم کیا۔ میں پہلا بھارتی موسیقار ہوں جس نے وہان پرفارم کیا ہے۔
اس کے علاوہ گزشتہ سال مجھے امریکہ میں نیشنل سٹی ایوارڈ کی جناب سے انٹرنیشنل آرٹسٹ آف دی ایئر ۲۰۱۶ ملا ہے۔
کہانی یوں ہے کہ اس ایوارڈ کے لیے مجھے بتائے بغیر کسی نے نامزد کردیا تھا اور ایک شام جب ہم ایک کنسرٹ کررہے تھے تو سامعین میں سے کچھ لوگ میرے پاس آئے اور کہا کہ ہمیں آپ کا ای میل ایڈریس چاہیے کیونکہ ہمیں آپ کو ایک اعزاز دینا ہے۔ میں نے اپنا ایڈریس انہیں دے دیا۔ اس وقت مجھے پتانہیں تھا کہ وہ لوگ کون تھے اور کہاں سے آئےتھے۔ اور پھر ایک دن مجھے میسج آیا کہ آپ کو اس ایوارڈ کے لیے منتخب کرلیا گیا ہے جس کانام ہے نیشنل میوزک سٹی ایوارڈ فار انٹرنیشنل آرٹسٹ آف دی ایئر۔ یہ ایوارڈ اب تک دنیا کے بڑے بڑے موسیقاروں کوملا ہے۔ میں اللہ کے بعد ان لوگوں کا بھی بہت شکر گزار ہوں جنہوں نے مجھے نامزد اور منتخب کیا۔

یہاں میں یہ بات بتاتا چلوں کہ ایوارڈ دینے والی جیوری نے پہلے میرے بارے میں پوری تحقیق کرلی تھی۔ میرے والد جناب استاد صابری خان صاحب بھی سارنگی نواز تھے جنہوں نے سارنگی کو پوری دنیا میں متعارف کروایا اور وہاں کے لوگوں کو سارنگی سے مانوس کیا۔

آئی بی سی: کمال صاحب! آپ نے بھارت کے علاوہ بھی بہت ممالک میں پرفارم کیا۔ یہ بتائیں کہ بھارت کے بعد آپ کو سب سے زیادہ کس ملک میں کام کرنے میں مزا آیا؟
استاد کمال: بھئی انڈیا کے بعد مجھے پاکستان بہت اچھا لگتاہے اور میں جب بھی یہاں آتاہوں تو ایسا لگتا ہے کہ ایک گھر سے اٹھ کر ہم اپنے دوسرے گھر میں آگئے ہیں۔ جہاں خاندان کی ہی طرح سب کی محبت اور پیار ملتا ہے۔ خاص طور پر ظفر بھائی کے گھر پر جہاں میں مہمان ہوں۔ اس کے علاوہ یہاں شریف اعوان صاحب، صفیہ آپا، اور عائلہ رضا جی ہیں جو کلاسیکی موسیقی کو بہت سراہتے ہیں اور اس کے فیسیٹول کرواتے ہیں۔ یہ سب وہ لوگ ہیں جنہوں نے کلاسیکی موسیقی کو پاکستان میں زندہ رکھا ہوا ہے۔

آئی بی سی: کیا آپ کو لگتاہے کہ بھارت اور پاکستان میں کلاسیکی موسیقی کی سمجھ اور پزیرائی میں کوئی فرق ہے؟
کمال صابری: میرا خیال ہے کہ پاکستان میں کلاسیکی موسیقی کے اتنے فسیٹولز کا ہونا اس بات کا ثبوت ہیں کہ یہاں بھی کلاسیکی موسیقی کی پزائرئی میں اضافہ ہورہا ہے۔ کراچی اور لاہور میں آل پاکستان میوزک کانفرنس ہورہی ہے، تہذیب فیسٹول ہوتاہے جس میں کلاسیکی موسیقی کو نمایاں مقام دیا جاتاہے۔

آئی بی سی: بھارت پاکستان کشیدگی کے نتیجےمیں پاکستانی فنکار بھی گھسیٹ لیے گئے ہیں۔ ایسا درست ہے؟
کمال صابری: آرٹسٹ یا فنکار عموما سیاست سے دور ہی رہتے ہیں ۔ان کا اس میدان سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ ان کا پیغام تو محبت اور امن کا ہوتاہے۔ وہ چاہے پاکستان سے ہندوستان جائیں یا ہندوستان سے پاکستان آئیں۔ اور میں سمجھتا ہوں کہ فنکار کی کوئی سرحد نہیں ہوتی کیونکہ فن کی کوئی سرحد نہیں ہے۔ برسوں سے ہمارے یہاں غلام علی صاحب، راحت بھائی (راحت فتح علی خان ) اور عاطف اسلم کے علاوہ اور بھی بہت سے موسیقار آرہے ہیں اور ہم ان سب کو اپنے یہاں اتنی ہی محبت اور عزت دیتے ہیں جتنی ہمیں یہاں آنے پرملتی ہے۔ تو میرے خیال میں موسیقی اور فن کو سیاست سے جوڑنا کوئی سمجھ داری نہیں ہے۔

آئی بی سی: بھارت میں پاکستانی فنکاروں کے کام کرنے پر پابندی لگا دی گئی۔ پاکستان کے بہت سارے فنکار جو وہاں پر بہت اچھا کام کررہے تھے واپس آگئے ہیں۔ آپ کے خیال میں یہ پابندی درست ہے؟
کمال صابری: میرا خیال ہے کہ یہ وقتی پابندی ہے اور جلد ہی سنب ٹھیک ہوجائےگا کیونکہ فنکاروں کو کبھی کوئی نہیں روک سکا، ان کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ غلام علی صاحب کا کنسرٹ اگر ممبئی میں نہیں ہوسکا تو اس ہی دوران کلکتہ میں ان کا پروگرام ہوگیا۔
آج ہم یہاں امن اور محبت کا پیغام لےکر آئے ہیں اور وہاں جاکر بھی بتائیں گے کہ ہمارے ساتھ بہت اچھا سلوک ہوا۔ تو مجھے امید ہے کہ انشاللہ پاکستانی آرٹسٹ بھی پھر سے بھارت آئیں گے اور کام کریں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے