کیاپاک فوج مراعات یافتہ طبقہ ہے؟

پاک فوج ملک کا ایک منظم ادارہ ہے۔اگر آج پاک فوج دنیا کی بہترین فوج ہے تو اس کا سہرا بلاشبہ ان افسروں اور نوجوانوں کے سر جاتا ہے جنہوں نے نا مساعد حالات کے باوجود ہمت اور حوصلہ نہ ہارا بلکہ دلجمعی سے آگے قدم بڑھاتے گئے۔بے شک امریکہ دنیا کی واحد سپر طاقت ہے لیکن جب بھی میدان جنگ میں جذبہ ایمانی اور حکمت و دانش کی بات آتی ہے تو ہر کسی کے ذہن میں پاک فوج کے غیور، نڈر اور دلیر جوان ہی آتے ہیں۔ لڑائی کا میدان ہو یا گولیوں کی بوچھاڑ، ٹینکوں کی گرج ہو یا توپوں کے گولوں کی آواز پاک فوج کے جوان نعرہ تکبیر کی صدائیں بلند کرتے ہوئے دشمن پر ایسا وار کرتے ہیں کہ انہیں برستے گولوں اور گرجتے چمکتے مزائلوں میں اپنی فکر نہیں ہوتی بلکہ اس وقت وطن عزیز اور اس کے باسیوں کی حفاظت ان کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد ہوتی ہے۔یہی وہ پاک فوج کے جوان ہیں جو برف پوش چوٹیوں جہاں کا درجہ حرارت -80سینٹی گریڈ سے بھی کم ہو جاتا ہے اپنے فرائض خوش اسلوبی سے انجام دے رہے ہوتے ہیں۔ یہ وہ عظیم لوگ ہیںجو بھوکے پیاسے اپنے اہل خانہ کی غم و خوشی سے بے نیاز وطن عزیز کی سرحدوں پر اپنے لہو سے دلیری اور جوانمردی کی داستانیں رقم کرتے ہیں۔

لیکن ہمارا المیہ یہ ہے کہ ان سب حقائق کو جاننے کے بعد بھی ہم یہی سوچتے ہیں کہ پاک فوج ایک مراعات یافتہ طبقہ ہے اور انہیں معمولی مراعات کے نام پر ایسی ایسی سہولتیں دی جاتی ہے جو عام انسان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتی مثلا سول سروسز میں فوجی افسروں کے لئے ایک خاص کوٹہ مقرر ہے ۔ سی ایس ڈی میں ان کو کم نرخوں پر روز مرہ کی تمام اشیا ضرورت مہیا کی جاتی ہیں۔ نوکر اور باورچی مفت ملتے ہیں۔ فوجی ہسپتالوں میںعلاج معالجے کی بہترین سہولیتں ، ماحول اور ادویات وغیرہ بالکل مفت مہیا ہوتی ہیں۔خاطر خواہ تنخواہیں دی جاتی ہیں غرض یہ کہ ریٹائر منٹ کے بعدبھی اچھی خاصی پنشین ، محل نما رہائشی مکانات اور پلاٹس مفت دئیے جاتے ہیں اگرچہ کہ ریٹائر منٹ کے بعد بھی ان کا رہن سہن اور چال ڈھال کسی طرح سے بھی مغل بادشاہوں سے کم نہیں ہوتا۔

یہ محض عام لوگوں کی قیاس آرائیاں ہیں بلکہ حقیقت اس کی برعکس ہے جو مراعات فوجی افسروں کو دی جاتی ہیں وہ ان کی گراں قدر خدمات کے اعتراف میں کچھ بھی نہیں ہیں سول سروس میں تقریبا دس سیٹس پاک افواج کے لئے مختص ہوتی ہیں جن کی تقرری بھی انتہائی کٹھن مراحل سے گزرنے کے بعد ہوتی ہے برطانوی دور میں بھی اعلی سول سروسز کے بعض افسرفوج سے ہی لئے جاتے تھے یہ نہ تو کوئی انہونی بات ہے اور نہ ہی اس سے کسی سیولین کا حق مرتا ہے۔رہی بات سی ایس ڈی سٹورز کی تو یہ تصور غلط ہے کی وہاں صرف آرمی آفیسرز کے لئے اشیاء خوردو نوش عام نرخوں پر دستیاب ہیں بلکہ ایک عام سول آدمی بھی وہاں سے تمام اشیا کی خریداری کر سکتا ہے اور اعلی مراعات یافتہ طبقے میں شامل ہو سکتا ہے۔ سی ایس ڈی سٹورز میں بھی وہی قیمتیں لاگو ہوتی ہیں جو عام مارکیٹ میں ہوں۔

آرمی کے بیٹ مین اور باورچی بہت مشہور ہوتے ہیں جبکہ کسی بھی آرمی آفیسر کو باورچی نہیں دیا جاتا یہ تصور سرا سر غلط ہے۔ صرف ایک بیٹ مین فوج کے کمیشنڈ آفیسرز ز کو اپنے پیشہ وارانہ امور کی ادائیگی میں سہولت دینے کے لئے مہیا کیا جاتا ہے۔ مثلا افسرز کا یونیفارم تیار کرنے کے لئے ، دھوبی کے پاس آنے جانے اور میس سے اشیاء خورد و نوش لانے کے لئے۔ یہ لوگ ان معنوں میں گھریلو ملازم نہیں ہوتے جن معنوں میں انہیں سمجھا جاتا ہے۔جنگ کی صورت میں بھی یہ لوگ یہی کام کرتے ہیں اور روزمرہ کاموں میں اپنے آفیسرز کی مدد کرتے ہیں۔ائیر فورس میں تو بیٹ مین کی پریکٹس کافی دیر پہلے ہی ختم ہو گئی تھی وہاں آفیسرز کو اضافی معاوضہ دے دیا جاتا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے ملازم رکھ سکتے ہیں ۔ آرمی میں بھی یہ روایت اب ختم ہوتی جا رہی ہے کیونکہ کوئی بھی، میٹرک، ایف اے یا بی اے پاس لڑکا بیٹ مین بننا پسند نہیں کرتا۔

ہمارے فوجی جوان سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے ہمہ وقت دشمن سے لڑنے کے لئے تیار رہتے ہیں اور ان کی جسمانی فٹنس شرط اول ہے ۔ اگر کوئی بھی فوجی افسر ذرا سا بھی علیل ہو گا تو وہ اپنے فرائض احسن طریقے سے بروئے کار نہیں لا سکے گا لہذا اس کا طبی طور پر کم سے کم وقت میں موزوں اور تندرست ہونا بہت ضروری ہے۔جب کسی شخص کو فوج میں بھرتی کیا جاتا ہے تو اس پہ یہ پابندی نہیں لگائی جاتی کہ وہ ساری زندگی کنوارہ ہی رہے گا آخر اسے شادی بھی کرنی ہے اگر آفیسر کسی آپریشنل ائیریا میں ہے تو اس کی فیملی علاج کے لئے کہاں اور کیسے جائے گی۔ لہذا فوجیوں کے ساتھ ساتھ انکی فیملیز کی جسمانی صحت کا خیال رکھنے میں کوئی قباحت نہیں۔

اس کے علاوہ ایک بہت عام اعتراض جو کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ حاضر سروس علاج کی مفت سہولیات تو ٹھیک ہیں لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد فوجیوں کو کیوں مفت علاج کی سہولیات دی جاتی ہیں؟ فوجی کی ساری جوانی تو فوج میں گزر جاتی ہے اور اگر وہ زندہ بچ جائے یا زخمی ہو جائے اور اگر زندہ بھی رہے تو کیا ریٹارمنٹ کے بعد اس سے تندرست رہنے اور جینے کا حق بھی چھین لینا چاہیے۔صرف پنشن پہ گزارہ کرنا ہو تو اس سے تو ڈاکٹروںکی فیس بھی پوری نہیں ہوتی اور ادویات کی خرید کاتو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ فوج کے حسن انتظام کی وجہ سے اگر فوجی ہسپتال ، سول ہسپتالوں سے زیادہ صاف ستھرے ، زیادہ سر گرم عمل ، فعال اور زیادہ موئثر کارکردگی کے حامل ہیں تو اسے مراعات یافتہ طبقے میں شمار کرنا محض بے وقوفی ہے۔

جو لوگ فوجیوں کی رہائشی سہولتوں پر معترض ہیں کہ وہ بڑے بڑے شہروں میں چند گھروں کو دیکھ کر یہ تاثر لیتے ہیں کہ شاید سارے فوجیوں کو اس طرح بڑے بڑے بنگلے دئیے جاتے ہیں حالانکہ ایسا بالکل نہیں ہوتا اور اب تو ان بڑے بنگلوں کو گرا کو چھوٹے اکانومی گھر بناوائے جا رہے ہیں۔اگر فوجیوں کی زندگی کا مشاہدہ کرناہوتو ان علاقوں میں جائیں جہاں کھلے آسمانوں تلے خیموں میں یہ زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ سیاہ چن کے برف زادہ پہاڑوں جہاں زندگی نسوں میں ہی دم توڑ جاتی ہے وہاں بھی یہ جوان زندگی کو ممکن بناتے ہیں ۔ برف پوش پہاڑون سے لیکر تپتے صحرائوں تک پھیلے ہوئے اس پاکستان میں بے شمار قطعات ایسے ہیں جہاں زندگی کے صبح و شام گزارنا ہی محال ہوتے ہیں وہاں یہ جوان موسمی حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے ہمیں دشمن سے محفوظ رکھتے ہیں۔ جوانوں کا ذکر چھوڑیں فیلڈ آفیسرز میں بھی میجر رینک تک کسی بھی کنٹونمنٹ میں رہائش کے لئیانہیں مہینوں انتظار کرنا پڑتا ہے اور جب تک خالی گھر کی نوید ملتی ہے تب تک کسی اور جگہ منتقل ہو جانے کا آرڈر آ جاتا ہے۔ اور پھر وہی لمبا انتظار۔ نجانے کیوں محلات کا طعنہ دینے والے ان جھونپڑیوں کو نہیں دیکھتے جو ان فوجیوں کا اوڑھنا بچھونا ہوتی ہیں۔

فوج وہ یک واحد ادارہ ہے جس میں شامل ہونے والا جوان یا آفیسر کسی بھی قسم کا دوسرا بزنس نہیں کر سکتا جبکہ باقی محکموں کے افسران اور ملازمین سروس کے ساتھ ساتھ اپنا سائڈ بزنس بھی کر لیتے ہیں جس سے ان کے فرایض منصبی کی ادائیگی میں بھی کوئی خاص فرق نہیں پڑتا.

لیکن فوجی اگر کوئی اور کام کرنا بھی چاہے تواس کی روزمرہ کی مصروفیات کا شیڈول اتنا سخت ہوتا ہے کہ وہ ایسا نہیں کر سکتا۔مثلا صبح کے وقت منہ اندھیرے اٹھ کر پی ٹی کے لئے تیار ہونا ، بروقت موسمی شدت دیکھے بغیر پریڈ گروانڈ پہنچنا، دوپہر تک اپنے پیشہ وارانی دفتری امور دیکھنا اور بعد از نماز ظہر کھیل کے میدانوں میں نکل جانا۔ وقت پر کھانا وقت پر اپنی رہایش گاہوں میں جانا نماز پنچگانہ کے ساتھ ساتھ رات کو گارڈ اور سکیورٹی کی مختلف ڈیوٹیاں سرانجام دینا یہ کچھ ایسے فرائض ہیں جو تقریبا ہر افسر اور جوان کو سر انجام دینا پڑتے ہیں۔اس کے علاوہ سال میں دو بار ایکسر سائزوں پے باہر نکالنا اور ایک سے دو ماہ تک جنگلوں ، بیابانوں اور صحرائوں میں رہنا یہ وہ مشکلات اور پابندیاں ہیں جو فوجیوں کو غیر پیشہ وارانہ کاموں کے قابل نہیں چھوڑتیں اگر دیکھا جائے تو فوجیوں کی نوکری صحیح معنوں میں چوبیس گھنٹے کی نوکری ہے۔

فوج وہ ایک واحد ادارہ ہے جو دوسرے سرکاری اداروں کی نسبت ڈبل ٹائم لگاتا ہے اور اس اضافی وقت کا کوئی معاوضہ بھی نہیں لیتا۔آج تک کسی بھی فوجی کو کھبی کوئی اوور ٹائم الائونس نہیں ملا۔

افواج پاکستان ایک ایسا ادارہ ہے جو نوجوانی میں ہی اپنے افسروں اور جوانوں کو فوج سے نکال دیتا ہی، ایک سپاہی 35برس کی عمر میں جبکہ میجر چالیس بیالیس سال کی عمر میںریٹائر کر دیا جاتا ہے ان میں سے اکثریت کے پاس کوئی ٹیکنیکل نالج نہیں ہوتا کہ وہ ریٹائر منٹ کے بعد کوئی اور نوکری کر سکیں۔ پینشن اتنی کم ہوتی ہے کہ گھر کے یوٹیلٹی بل ہی مشکل سے پورے ہوتے ہیں۔ افسر کو جو گھر ملتا ہے وہ پوری ادائیگی کے بعد ملتا ہے۔ یہ جو مختلف کنٹونمنٹ میں عسکری اپارٹمنٹس نظر آتے ہیں ان کی ایک ایک اینٹ کی قیمت مارکیٹ کے حساب سے وصول کر کے ہی یہ گھر افسروں کے سپرد کئے جاتے ہیں۔لہذا ان لاکھوں سپاہیوں، لانس نائیکوں، نائیکوں ، حوالداروں، صوبیداروں، لیفٹینوں ، کپتانوں ، میجروں اور کرنلوں کو جو کہ ایک سادہ زندگی گزار رہے ہیں مراعات یافتہ طبقہ قرار دینا کسی زیادتی سے کم نہیں۔پاکستان میں اگر لوگ مادر وطن کی خدمت اور حفاظت کے جذبے سے سر شار ہوکرجوق در جوق فوج کا رخ کرتے ہیں توان کو مراعات یافتہ طبقہ کہہ کر ان کے جذبات کی توہین نہیں کرنے چاہیے بلکہ جو مراعات انہیں دی جاتی ہیں ان کی محنت کے آگے آٹے میں نمک کے برابر ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے