وفاقی بجٹ پرایک نظر

مسلم لیگ ن نے اپنے دورِ حکومت میں پانچواں بجٹ پیش کردیاہے۔ اِس سے قبل وزیراعظم نوازشریف دو بار منتخب ہوئے ،لیکن وہ پانچ سال کا عرصہ مکمل نہیں کر پائے تھے ۔بجٹ کی تیاری کے دوران وزیراعظم محمدنوازشریف نے وزیر خزانہ کوبجٹ میں عام آدمی کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دینے کی ہدایت جاری کی تھی۔بجٹ کے اعلان کے بعدوزیراعظم نے اپنے اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے کہاہے کہ بجٹ انتہائی متوازن ہے اور اِس سے ملکی معیشت پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے ۔ انہوں نے مزید کہاکہ معاشرے کے غریب طبقوں کو خصوصی ریلیف دیاگیا ہے ۔جبکہ اپوزیشن جماعتوں نے بجٹ کو عام آدمی کے لیے غریب کش اورسرمایہ داروں کے لیے سُودمندگرداناہے۔

بجٹ الفاظ کی بازیگری اوراَعدادوشمارکاکھیل ہے۔خوش نما وعدوں اورحسین خوابوں کے پس پردہ ہلاکت خیزیاں منہ چڑاتی ہیں۔اوّل تو عام آدمی کوبجٹ کے ساتھ کوئی دل چسپی ہی نہیں ہوتی۔اُسے غم روزگاراورفکرِ عیال سے فرصت ہی کب ہوتی ہے کہ وہ وزیرخزانہ کی بجٹ تقریرسُن یا پڑھ سکے۔دوم یہ کہ اُسے معلوم ہے کہ بجٹ کتنا ہی غریب دوست کیوں نہ ہو،آخراُسے مہنگائی ہی کے بوجھ تلے دبنااورکراہناہے۔اپنی ناتواں جان کے علاوہ کوئی اُس کی خبرگیری کے لیے نہیں آئے گا۔اِس لیے وہ ہمیشہ بجٹ تقریروں سے لاتعلق اوراَپنی ضروریاتِ زندگی پوراکرنے کے لیے مصروف رہنے میں ہی بہتری سمجھتاہے۔اُسے معلوم ہے کہ حکمرانوں کے لولی پاپ اورخوش کن نعرے واِعلانات محض سراب ہیں۔دووَقت کا کھانا اُسے خودہی تلاش کرناہے،بوڑھے والدین کی دیکھ بھال،بیماربیوی کے لیے دواکا انتظام اوربھوک سے نڈھال بچوں کی بھوک مٹانے کاانتظام اُسے ہرصورت میں آپ ہی کرناہے۔دلیلوں کے غباروں سے کھیلنے اورحسین سپنے دیکھنے کے لیے اُسے فرصت کہاں!یہ تو بھرے ہوئے پیٹوں اورفکرمعاش سے بے پرواہوں کی عیاشیاں ہیں۔بھوکے کامقدر تو فقط روٹی کی تلاش میں ماراماراہی پھرنا ہے۔

عوامی بجٹ میں 120؍ارب روپے کے ٹیکس عوام پر نافذکرنے کی ’’خوش خبری‘‘ سنائی گئی ہے اورجناب اسحق ڈارصاحب فرماتے ہیں کہ غریب پر کوئی ٹیکس نہیں لگایاگیا۔حضوروالا!بچوں کی ٹافی اوردواکی گولی سے لے کرپینے والے پانی تک ٹیکس ہی ٹیکس ہیں اورپہلے سے عائدہیں ۔یہ ٹیکس بھی غریب ہی دے رہاہے۔اشرافیہ تو ٹیکس اداہی نہیں کرتی،بلکہ ہرسال پانچ سو اَرب روپے صرف ٹیکس چوری کی نذرہوجاتے ہیں،اِس کے باوجودٹیکس نظام میں بہتری یا مالیاتی خسارے کو کم کرنے کے لیے اس بار بھی بجٹ میں کوئی نمایاں اقدامات نہیں کیے گئے ،بلکہ عوام سے بالواسطہ ٹیکس وصول کرکے اشرافیہ کی عیش وعشرت کا سامان مہیاکرنے کے پلان بنائے گئے ہیں۔عوام دوست بجٹ ہوتاتو غریب کو سستی روٹی اوراعلیٰ تعلیم مہیاکرنے اورصحت کے معیارکو بلندکرنے کے عملی اقدامات کا اعلان ہوتا،اُلٹاٹیکسوں کی افراط سے مہنگائی میں اضافہ کرنے کامنصوبہ ترتیب دے کر عوام پر مہنگائی کا بم گرادیاگیاہے۔ 565 مصنوعات پر ریگولیٹری ڈیوٹی کے اضافے سے مہنگائی کا طوفانِ بلاخیز آنے کو ہے۔

قوتِ خریدکی حالت یہاں تک آپہنچی ہے کہ لوگ سبزی خریدنے کی بھی طاقت نہیں رکھتے ،یہاں گاڑیوں پر سے ڈیوٹی کم کرکے امیروں کو خوشی کی نویدسنائی جارہی ہے۔ملازمین کی تنخواہوں میں صرف دس فی صداضافہ کرکے یہ سمجھ لیاگیاہے کہ تنحواہ دارطبقہ خوش حال ہوگیاہے۔حالانکہ اشیائے صرف کی گرانی نے عوام کی کمرتوڑ دی ہے ۔چودہ ہزارروپے ماہانہ میں گھر چلانے کا درس دینے والے حکام سے کوئی پوچھے کہ دس پندرہ ہزارروپے میں کوئی کیسے گھرکا بجٹ چلاسکتاہے۔حالات کی سنگینی سے گھرکا چُولہا جلانا اورجسم وجان کارِشتہ برقراررکھنامشکل ترین ہوچکاہے۔عالمی سطح پر فرنس آئل کی قیمتوں میں کمی آئی ،لیکن بجلی کے ہوشربابِلوں میں کمی نہ آسکی۔یہ بجٹ توانائی کے مزیدمنصوبے لے کے آیاہے،مگرعوام کو بجلی کے نرخوں میں ریلیف مل سکا اورنہ لوڈشیڈنگ کے عذاب سے اُن کی جان چھوٹ سکی۔ ایٹمی قوت ہوتے ہوئے بھی ملک وقوم اپنی تاریک قسمت کی طرح لوڈشیڈنگ کے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔

زراعت ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہے ،گزشتہ بیس برس سے زراعت کو بری طرح سے نظراَندازکیاجارہاہے۔حالانکہ 60فیصد صنعت اور سروسز سیکٹر کا انحصار زراعت پر ہے ۔ہمارے معیشت دانوں نے پچھلے چالیس سال میں ایک بھی ہائیڈروڈیم کی تعمیرکا منصوبہ رُوبہ عمل نہیں لایا۔جس کی وجہ سے ملک میں پانی کی شدیدقلت ہے۔بجٹ سے ایک روزپہلے کسانوں کی ’’مرمت‘‘ کرکے انہیں اپنی حدمیں رہنے کا پیغام دیاگیاہے۔کے سی سی آئی کے سابق صدر
ہارون اگر نے کہا کہ زرعی سیکٹر کے لیے حکومت نے جن مراعات کا اعلان کیا ہے۔ وہ زراعت کی ترقی کا نہیں،بلکہ بدحالی کا باعث ہوں گے ۔

وزیرخزانہ نے اقتصادی جائزہ رپورٹ پیش کردی ہے ۔ وہ 5.3فیصد گروتھ ریٹ پر خوشی کے شادیانے بجارہے ہیں مگر کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو نظرانداز کررہے ہیں جو گزشتہ سال 2.5بلین ڈالر تھا اور اس سال 8.5بلین ڈالر تک جاپہنچاہے ۔قرضوں اور سود کی واپسی کیلئے رکھا گیا 1500؍ارب کا بجٹ تعلیم، صحت ،انفراسٹرکچر کے مجموعی بجٹ سے بھی زیادہ ہے ۔1947سے 2007تک ساٹھ سالوں میں پاکستان کا مجموعی بیرونی قرضہ تیس سے پینتیس ارب ڈالرکے لگ بھگ تھا اورہمارے موجودہ حکمران اپنے پانچ سالہ دورانیہ ہی میں بتیس ارب ارب ڈالرزکا قرض لے چکے ہیں۔وزیرخزانہ کا ارشادہے کہ 1366؍ارب روپے کاہرسال سُوددیناہے اوراصل سرمائے کی کچھ خبرنہیں ہے۔ہمیں جہاں اتنابھاری سُود اَداکرناہے،حیرت ہے کہ وہاں ایک تجزیہ نگارکے بقول ایک اَرب گیارہ کروڑ رُوپے کی گاڑیاں ایک سال میں صرف ایک وزیراعظم ریفارمزپروگرام کے لیے خریدی جاچکی ہیں۔تعیشات کی حدہے کہ صدر اوروزیراعظم ہاؤس کا خرچ ایک ایک اَرب روپے سالانہ ہے۔

آئین کے آرٹیکل نمبر 38میں تحریرہے کہ’’ریاست عام آدمی کے معیار زندگی کو بلند کرکے ، دولت اور وسائل پیداوار و تقسیم کو چند اشخاص کے ہاتھوں میں اس طرح جمع ہونے سے روک کر کہ اس سے مفاد عامہ کو نقصان پہنچے اور آجر اَجیر اور زمیندار و مزارع کے درمیان حقوق کی منصفانہ تقسیم کی ضمانت دے کر: بلا لحاظِ جنس، ذات، مذہب یا نسل عوام کی فلاح و بہبود کے حصول کی کوشش کرے گی۔‘‘َ عوام پر تو ٹیکسوں ،مہنگائی اورقرضوں کا پشتارہ لاددیاگیاہے،مگر حکمران اوراُن کے مصاحبین کے اللّے تللّے ہیں کہ ختم ہونے کی بجائے بڑھتے ہی جارہے ہیں۔عوام یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ ریاست کے اقتدارپر قابض حکمرانوں نے اُن کے دُکھ،درداورتکالیف کو کم کرنے کے لیے کیاکرداراَداکیاہے؟آئین وقانون کہاں اورکس پر نافذہے؟ہم حالات کی تلخی سے ملول ضرورہیں،مایوس ہرگزنہیں ہیں۔اچھاوقت ضرورآئے گا،مگراہل اقتدارکو بروقت سوچ لینا چاہیے کہ تب اُن کا نام وکردارتاریخ کے کس باب میں جگہ پائے گا۔کوئی ہے جو غورکرے!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے