افغان حکومت حقائق کو درک کرے

گذشتہ روز افغان دارالحکومت کابل کے ڈپلومیٹک انکلیو میں دھماکہ ہوا، دھماکے کے نتیجے میں 90 افراد ہلاک جبکہ درجنوں زخمی ہوگئے ہیں۔ کابل دھماکے میں دیگر ممالک کے سفارتخانوں کے علاوہ پاکستانی سفارتخانے کے ملازمین بھی زخمی ہوئے ہیں۔ دوسری طرف وزیراعظم نواز شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ نے کابل کے سفارتی علاقے میں بم دھماکے سے نوے افراد کی ہلاکت اور سینکڑوں شہریوں کے زخمی ہونے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔ اس سے پہلے کہ افغان حکومت اس واقعے کی ذمہ داری پاکستان پر عائد کرے، افغانستان کو اپنی ملکی و قومی سلامتی کے لئے زمینی حقائق کو درک کرنا چاہیے۔ گذشتہ کچھ عرصے میں ہندوستان نے افغانستان کو یہ باور کروایا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردوں کی سرپرستی پاکستان کر رہا ہے۔ اس بنا پر افغانستان حکومت پاکستان سے شدید احتجاج بھی کرچکی ہے اور گذشتہ کچھ عرصے میں افغانستان میں پاکستان کے خلاف مظاہرے بھی ہوئے ہیں۔ ہندوستان نے افغانستان کو یہ تاثر دے رکھا ہے کہ مسلم شدت پسندوں کو پاکستان کنٹرول کر رہا ہے۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کہ افغانستان کو روس سے آزاد کروانے کے لئے پاکستان نے سعودی عرب اور امریکہ کے تعاون سے مختلف جہادی گروپ خصوصاً طالبان کا گروہ تشکیل دیا۔

وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ وہ کنٹرولڈ طالبان پاکستان کے قبضے سے نکل کر براہ راست سعودی عرب اور امریکہ کے ماتحت کام کرنے لگے۔ اس کا واضح ثبوت پاکستان میں ہونے والے متعدد خودکش دھماکے، فوج اور پولیس کے مراکز پر حملے اور آرمی پبلک سکول پشاور میں بچوں کا قتلِ عام ہے۔ اس وقت ٹھیک ہے کہ سعودی فوجی اتحاد کی سربراہی کا لیبل ایک پاکستانی ریٹائرڈ جنرل پر لگا ہوا ہے، لیکن پاکستان کے سعودی عرب اور امریکہ سے تعلقات کی گہرائی کا اندازہ ریاض کانفرنس سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے۔ اس کانفرنس میں بھارت کا ذکر تو ہوا، لیکن پاکستان کا نام تک نہیں لیا گیا اور وزیراعظم پاکستان کو تقریر بھی نہیں کرنے دی گئی۔ دوسری طرف بین الاقوامی اداروں کی ریسرچ رپورٹس کے مطابق اس وقت ہندوستان روزانہ پانچ لاکھ بیرل پٹرول سعودی عرب سے خریدتا ہے، دنیا میں سعودی عرب کا چوتھا بڑا کاروباری شریک ہندوستان ہے، جبکہ پاکستان کے ساتھ سعودی تجارت فقط 4.5 بلین ڈالرز سالانہ ہے۔ موجودہ حالات میں سعودی عرب سے پاکستانی لیبرز کو بھی دھڑا دھڑا نکالا جا رہا ہے اور ہندوستانی لیبرز کو ریاستی تعلقات کی بنا پر حسبِ سابق کوئی پریشانی نہیں۔

معاشی تعلقات کے علاوہ سعودی عرب اور ہندوستان کے درمیان زبردست دفاعی تعلقات ہیں۔ 2009ء میں سعودی عرب اور ہندوستان کے درمیان اپنی تاریخ کے سب سے اہم دفاعی معاہدے ہوئے، جس کے بعد سعودی عرب نے پاکستان پر کشمیر کے مسئلے پر دباو ڈالا اور پاکستان میں موجود کشمیری مجاہدین کے جہادی کیمپوں کی سرگرمیوں کو محدود کیا گیا، اس کے علاوہ کئی جہادی تنظیموں پر پابندی بھی لگائی گئی۔ اسی طرح مذکورہ دونوں ممالک یعنی سعودری عرب اور ہندوستان کے دفاعی تربیتی اداروں کی مشترکہ ٹریننگ کے کئی منصوبوں کا آغاز ہوا اور دونوں ممالک کے درمیان جنگی جہازوں اور اسلحے کے تبادلوں نے عروج پکڑا۔ سعودی عرب کی دوستی کی وجہ سے گذشتہ چند سالوں میں ہندوستان اور امریکہ کے تعلقات میں بھی بہت وسعت آئی ہے۔

اس وقت بھارت، سعودی عرب اور امریکہ کی دوستی اس منطقے میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ لہذا زمینی حقائق یہی ہیں کہ اس خطے میں سعودی و امریکی پالیسیوں کا محافظ پاکستان کے بجائے ہندوستان ہے۔ اگر افغانستان میں دہشت گردی نہیں رک رہی تو افغانستان کو پاکستان کو کوسنے کے بجائے یہ دیکھنا چاہیے کہ دہشت گردوں کا دینی، مسلکی اور مالی سرپرست کون ہے اور وہ کس کے ذریعے دہشت گردوں کو کنٹرول کر رہا ہے۔ اگر افغانستان حقائق کو سمجھنا چاہے تو سعودی عرب، امریکہ اور بھارت کے تعلقات کے تناظر میں کلبھوشن یادو کے انکشافات اور احسان اللہ احسان کے اعترافات بھی افغانستان کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے