حسین نواز کی چوتھی مرتبہ پاناما جے آئی ٹی کے سامنے پیشی

اسلام آباد: وزیراعظم نواز شریف کے بڑے صاحبزادے حسین نواز پاناما پیپر کیس کے سلسلے میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سامنے چوتھی مرتبہ پیش ہوگئے۔

حسین نواز کی فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی کے موقع پر حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے رہنما بھی موجود تھے۔

اس موقع پر کارکنوں نے ان کا والہانہ استقبال کیا اور حسین نواز نے ہاتھ ہلا کر نعروں کا جواب دیا۔

ذرائع کے مطابق حسین نواز منی ٹریل اور لندن جائیداد سے متعلق سوالوں کے جواب دیں گے۔

گذشتہ روز وزیراعظم کے چھوٹے صاحبزادے حسن نواز بھی پاناما جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے تھے، جہاں ان سے 7 گھنٹے تک پوچھ گچھ کی گئی تھی۔

ذرائع کے مطابق جے آئی ٹی نے حسن نواز کے برطانوی نشریاتی ادارے (بی بی سی) کو دیئے گئے انٹرویو کے حوالے سے پوچھ گچھ کی تھی، جس میں حسن نواز نے دعویٰ کیا تھا کہ 1999 میں وہ لندن میں طالب علم کی حیثیت سے مقیم تھے اور ان کی آمدن کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔

تفتیش کاروں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ وزیراعظم کے صاحب زادے نے اعتراف کیا تھا کہ 1999 تک ان کا کوئی ذریعہ آمدن نہیں تاہم اپریل 2001 کی مالیاتی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے پاس 70 لاکھ 571 پاؤنڈز کریڈٹ موجود تھا۔

ذرائع کا مزید کہنا تھا کہ پوچھ گچھ کے دوران کیے گئے زیادہ تر سوالات ان کی کمپنیوں کی ملکیت کے حوالے سے تھے۔

دوران پوچھ گچھ سابق وزیر رحمٰن ملک کی تیار کی گئی اس رپورٹ کا بھی حوالہ دیا گیا جس میں اسحٰق ڈار نے وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے مبینہ منی لانڈرنگ کا اعتراف کیا تھا۔

ذرائع کے مطابق حسن نواز نے ان تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر ایسا واقعی ہوتا تو رحمٰن ملک جو پیپلز پارٹی کی حکومت میں وزیرداخلہ تھے ان کے خاندان کے خلاف ایکشن لے چکے ہوتے۔

حسن نواز کا کہنا تھا کہ والد نواز شریف کی جلاوطنی کے دور میں انہوں نے تمام کمپنیاں بنائیں اور قرضہ لے کر اپنا کاروبار جاری رکھا۔

انہوں نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ یہ تمام کاروبار قانونی طریقے سے شروع کیا گیا تھا جس کے شواہد انہوں نے جے آئی ٹی کو پیش کیے۔

پاناما پییر کیس اور جے آئی ٹی کی تشکیل

یاد رہے کہ رواں برس 20 اپریل کو سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس کے تاریخی فیصلے میں وزیراعظم نواز شریف کے خلاف مزید تحقیقات کے لیے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کے اعلیٰ افسر کی سربراہی میں جے آئی ٹی بنانے کا حکم دیا تھا۔

فیصلے میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ایف آئی اے کے سینئر ڈائریکٹر کی سربراہی میں جے آئی ٹی تشکیل دی جائے گی جو 2 ماہ میں اپنی تحقیقات مکمل کرے گی، جبکہ جے آئی ٹی کو ہر 2 ہفتے بعد سپریم کورٹ کے بینچ کے سامنے اپنی رپورٹ پیش کرنے کی بھی ہدایت کی گئی تھی۔

اس کے بعد 6 مئی کو سپریم کورٹ کے جسٹس اعجاز افضل خان، جسٹس شیخ عظمت سعید اور جسٹس اعجاز الحسن پر مشتمل تین رکنی خصوصی بینچ نے جے آئی ٹی میں شامل ارکان کے ناموں کا اعلان کیا تھا۔

جے آئی ٹی کا سربراہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل واجد ضیاء کو مقرر کیا گیا ہے جبکہ دیگر ارکان میں ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی) کے بریگیڈیئر کامران خورشید، انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) کے بریگیڈیئر نعمان سعید، قومی احتساب بیورو (نیب) کے گریڈ 20 کے افسرعرفان نعیم منگی، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے بلال رسول اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے عامر عزیز شامل ہیں۔

وزیراعظم کے صاحبزادے حسین نواز اس سے قبل جے آئی ٹی کے سامنے 3 مرتبہ جبکہ حسن نواز ایک مرتبہ پیش ہوچکے ہیں۔

جے آئی ٹی ارکان پر اعتراض کا معاملہ

یہ بھی یاد رہے کہ گذشتہ دنوں حسین نواز نے رجسٹرار سپریم کورٹ کو کی گئی ایک ای میل کے ذریعے جے آئی ٹی کے کچھ افسران کی غیر جانبداری پر سوال اٹھائے تھے جن کے بارے میں خدشہ ظاہر کیا گیا تھا کہ وہ تحقیقات پر مبینہ طور پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔

تاہم بعد ازاں جے آئی ٹی کے دو ارکان کے خلاف اعتراض سے متعلق حسین نواز کی درخواست سپریم کورٹ کے خصوصی بینچ نے مسترد کردی تھی۔

حسین نواز کی درخواست کی سماعت کے دوران جسٹس اعجاز افضل نے کہا تھا کہ نہ جے آئی ٹی کے کسی رکن کو تبدیل کریں گے نہ ہی کسی کو کام سے روکیں گے، کسی کے خلاف خدشات قابل جواز ہونا ضروری ہیں، ہم نے ہی جے آئی ٹی کے ان ممبران کو منتخب کیا تھا، اگر کسی پر مجرمانہ بدنیتی کا شبہ ہے تو اسے سامنے لائیں اسی صورت میں اس کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے