پھل بائیکاٹ مہم، اعتراضات کا جواب

پھلوں کے تین روزہ بائیکاٹ کی مہم سوشل میڈیا کی پہلی باقاعدہ مہم ہے جس کو بےانتہا مقبولیت حاصل ہو رہی ہے۔ اب کچھ لوگ ہیں جو پنجے جھاڑ کے بائیکاٹ کرنے والوں کے پیچھے پڑے ہیں، ان کا خیال ہے کہ جو بائیکاٹ کر رہے ہیں، انہیں غریبوں کا درد نہیں۔ اور یہ کہ ریڑھی والے کی بائیکاٹ سے بھلا کیا فائدہ ہوسکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ بائیکاٹ کرنے والوں کی اپنی لاجک ہے اور بالکل درست ہے۔ دنیا کے امیر ترین ملکوں میں جو مسلم ممالک بھی نہیں، مسلمانوں اور غیر مسلموں کے ہر تہوار کے موقع پہ اسپیشل رعائتی اسکیموں کا اعلان کیا جاتا ہے۔ حتی کے رمضان کے آتے ہی رمضان میں زیادہ استعمال کی جانے والی اشیاء کی مسلسل رسد یقینی بنائی جاتی ہے اور ان کو رعایتی داموں پہ فروخت کیا جاتا ہے۔

ملک عزیز میں البتہ گنگا الٹی ہی بہا کرتی ہے۔ رمضان آتے ہی چیزوں کی قیمتوں کو پر لگ جاتے ہیں۔ کھجوریں اور پھل کے دام خاص طور پہ آسمانوں سے باتیں کرنے لگتے ہیں۔ غریب بے چارہ ویسے ہی مہنگائی میں مشکل سے دو چار ہوتا ہے، تو اس صورتحال میں پھل خریدنا اس کی استطاعت سے باہر ہوجاتا ہے۔

پھلوں کی ہڑتال کا مقصد ان منافع خوروں کو ایک پیغام دینا ہے جنھوں نے رمضان شروع ہونے سے پہلے ہی پھلوں کی ذخیرہ اندوزی اور منڈیوں سے پھلوں کی رسد میں کمی کر دیتے ہیں۔ نتیجتا کہ پھلوں کی رسد طلب سے کم ہونے کی وجہ سے قیمتوں میں ہوشربا اضافہ ہوجاتا ہے۔ اس گھناؤنے کاروبار میں سب کے سب کسی نہ کسی حد تک ملوث ہیں۔

دکانیں، ٹھیلے اور ریڑھی والے اسی معاشرے اور نظام کا حصہ ہیں۔ اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا ہے کہ معاشرہ میں لوگوں کی اکثریت اتنی مہنگی قیمتوں پر پھل نہیں خرید سکتے۔ آپ خود سوچیں جتنی تعداد پھل کی دکانوں کی ہے، اس سے کہیں زیادہ ریڑھی یا ٹھیلے والوں پر پھل فروخت کرنے والوں کی ہے، لیکن کتنے لوگ ان سے پھل خرید سکتے ہیں؟ حتی کے غریب کے لیے تو رمضان میں کھجور تک خریدنا محال ہو جاتا ہے۔

کیا یہ ناجائز منافع خوری نہیں؟ کیا اس قسم کی منافع خوری کی اجازت اسلام دیتا ہے؟ اور اسلام ہی پہ کیا موقوف کوئی مہذب معاشرہ اس قسم کی منافع خوری کے حق میں نہیں ہوسکتا جو صرف پاکستان میں خصوصی طور پہ رمضان المبارک میں کی جاتی ہے۔ کسی اور اسلامی و غیر اسلامی ملک میں روضہ داروں کے ساتھہ یہ ناجائز منافع خوری نہیں کی جاتی ہے۔ اور اسی پہ بس نہیں، ناپ تول میں کمی، ملاوٹ اور ناجائز منافع خوری ایک ایسی معاشرتی برائی ہے کس کی وجہ سے قوموں پر عذاب آیا ہے اور جو قرآن مجید واضح طور پہ مذکور ہے۔

یہ ساری صورتحال آج کی نہیں، کئی برسوں سے یہی سب ہوتا آ رہا ہے اور افسوس کا مقام یہ نہیں کہ ایسا ہوتا ہے، افسوس کا مقام یہ ہے کہ ایسا ہونے دیا جاتا ہے اور لوگ اس کو قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں۔ اب اگر برسوں بعد سوتی ہوئی عوام کو ہوش آنے ہی لگا ہے تو حوصلہ شکنی کرنے والے برساتی مینڈکوں کی طرح نکل آئے ہیں۔ جی ان کے آدرش بہت بڑے ہیں، ملک کے اہم مسائل کی لسٹ ہے جس پہ کام ہونا چاہیے نہ کہ اس غیر ضروری پھلوں کے مہنگے ہونے جیسے چھوٹے ایشو پہ۔

اب ہم جیسے لوگ جو اِس بائیکاٹ کے حق میں ہیں، ہم بھی اس بائیکاٹ سے کوئی غیر حقیقی قسم کے نتائج کی امید نہیں رکھتے۔ ہم اس بائیکاٹ کی سپورٹ صرف اس لیے کر رہے ہیں کہ اس سے اس قوم میں جو سالوں سے اپنے ساتھ ہوتے ہر معاشی، معاشرتی اور سیاسی ناانصافی اور ظلم کو بلا چون و چراں برداشت کرتی رہی ہے، ایک تحریک پیدا ہوئی ہے، زندگی کے آثار نمایاں ہوئے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ شاید یہ ایک طویل اندھیری رات کے اختتام کی پہلی کرن ہو۔

آج ایک آواز اٹھی ہے، اور شاید ایک بظاہر چھوٹے سے مسئلے پر لیکن اس آواز سے آواز ملانے والے بڑی تعداد میں ساتھ اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ تو کل یہی آواز ایک طاقت بن کر ابھرے گی اور اپنے ساتھ ہونے والے بڑے مظالم کے لیے بھی ہم آواز ہوگی۔

مخالفت کرنے والے کہتے ہیں کہ آواز اٹھانی ہے تو مافیا کے لیے اٹھائیے۔ یہ بھی خاصی غیر منطقی اعتراض ہے۔ اگر آٹے کی قیمت زیادہ ہو تو کسان کے خلاف نہیں فلور ملز کے خلاف ہوگی آٹا نہ خرید کر۔ لیکن عام صارف آٹا عام دکانوں سے خریدتا ہے تو بائیکاٹ کا اثر بھی اسی چین کے ذریعے آگے بڑھے گا۔ آخر عام صارف کو کیا پتہ آڑھتی کون ہے اور منڈی مافیا کہاں آپریٹ کرتی ہے سوائے دوکانوں اور ریڑھی والوں کے۔ اگر اس پہ ان سے سوال کریں تو شاید آئیں بائیں شائیں ہی سننے کو ملے۔

کچھ مخالفوں کو یہ بھی یاد آیا کہ غریب پھل فروشوں کے پھل گل سڑ جائیں گے اور یہ کہ غریب پھل فروش کا گھر تین دن کیسے چلے گا۔ شاید انہیں خود بھی علم نہیں کہ بیشتر پھل فروش اپنے پھل روز علی الصبح منڈی سے لاتے ہیں تو بائیکاٹ کا سن کر وہ نہ منڈی جائیں گے نہ پھل لیں گے اور نہ نقصان ہوگا۔ اس سلسلے میں بھی بائیکاٹ کے حامی اس بات پہ بالکل متفق ہیں کہ اگر گلی محلے کا کوئی غریب پھل فروش آپ کو لگے کہ اس سے متاثر ہوسکتا ہے تو اس کی کچھ مالی امداد ضرور کردیں۔ صرف تین دن کی بات ہے۔ رمضان ہے اللہ اس نیکی کا اجر و ثواب الگ دے گا۔

جناب ایک اور اعتراض یہ بھی ہے کہ قوم کو تو یہی نہیں پتہ کہ اصل مسئلہ یہ پھلوں کا مہنگا ہونا نہیں بلکہ امن، سلامتی، تعلیم و صحت، کرپشن زدہ نظام، کرپٹ سیاستدان اور کمزور ادارے ہیں۔ اور یہ کہ اس قوم کو صحیح ڈائریکشن کا نہیں پتہ تو منزل کیسے ملے گی۔ ساتھ ہی سونے پہ سہاگہ یہ بھی کہنا کہ ویسے بھی ہم اس مردہ معاشرے سے بالکل مایوس ہوچکے ہیں۔

ذرا منطق کے ترازو پہ تول لیجیے اس پورے پیرگراف کو۔ جی یہ مردہ قوم ہے اس کو بڑے بڑے ظلم پہ بولنے کی عادت نہیں، اس لیے اس سے کوئی توقع نہیں کی جاسکتی۔ پھر دوسری طرف جب یہ قوم ایک چھوٹے سے مسئلے پہ آواز اٹھاتی ہے اور ہم آواز ہونے والوں کی تعداد بڑھنے لگتی ہے تو اچانک آپ کو یاد آتا ہے کہ ارے یہ کیسی قوم ہے، اس کو اپنے اصل مسائل کا ہی علم نہیں آئے بڑے انقلابی۔ اس طرح کے غیر منطقی دلائل سن کر تو یہی دل چاہتا ہے بقول غالب
حیران ہوں کے روؤں کے پیٹوں جگر کو میں

آپ ایک طرف اس قوم کو مردہ کہتے ہیں، دوسری طرف اس نے انقلابی اقدامات کی توقع رکھتے ہیں۔ یہ کُھلا تضاد نہیں تو اور کیا ہے۔ اعتراض کرنے والوں کو چاہیے کہ اپنا اونٹ کسی ایک کروٹ بٹھانے کی کوشش کریں اور تنقید برائے تنقید کے بجائے منطقی دلائل سے چیزوں کو رد کریں۔

سوچیں جب پتھر کے دور کے انسان نے پہلی مرتبہ آگ جلائی ہوگی، ایک الٹی سیدھی لکڑی کا ہتھیار بنایا ہوگا۔ ایک تختے پہ تیرنے کی کوشش کی ہوگی۔ وہ بھی ایک تبدیلی اور آسانی کی طرف بنی نوع کا پہلا قدم ہوگا۔ ایسا کیسے ممکن ہے کہ سالوں کی خوابیدہ قوم ایک دم جاگ کر میراتھن میں حصہ لینے کے لیے تیار ہوجائے۔ ایک چنگاری ایک تحریک اس قوم میں بیدار تو ہو لینے دیں، پھر ارتقاء اپنے ساتھ ساتھ ڈائریکشن بھی طے کرلے گی۔ اعتراض کرنے والوں سے درخواست ہے کہ خوابوں اور خیالی منطق کی دنیا سے باہر نکلیے، دیکھیے اور پھر اعتراض بنتا ہو تو ضرور کیجیے لیکن اعتراض برائے اعتراض اور تنقید برائے تنقید ہرگز نہیں۔ اگر آپ کی انقلابیت کا لیول عام آدمی کی سطح کو نہیں چھو سکتا، تو اس میں عام آدمی کو نہیں آپ کو اپنے انقلابی آدرش پہ نظرثانی کی سخت ضرورت ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے