عقل ،عشق اور یقین

کہا جاتاہے کہ آنکھ نہ ہو نظارے کا کوئی قصور نہیں ہوتا۔حضوری قلب نہ ہو تو قرب حقیقت کا کوئی مطلب نہیں نکلتا۔تمنائے سفر نہ ہو تو جزائے سفر کی کیا بات کرتی اور دل مومن نہ ہو تو زبان کا کلمہ کسی کام کا نہیں ۔دل کے مومن ہونے کے لیئے یقین کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے کیونکہ یقین خدا ہے ،یقین ایمان ہے اور یقین ہی منزل ہے۔

حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں کہ’’ ہر علم کے برعکس ایک علم ہے،اپنے علم کو مخالف علوم کی زد سے بچانے کے لیئے بھی علم چاہیئے۔چراغ جلانا آسان ہے اسے آندھیوں سے بچانا ضروری بھی ہے اور مشکل بھی۔ہر خواہش کے برعکس ایک خواہش موجود رہتی ہے۔انسان کے اندر تضاد اور بے یقینی اسے بروقت فیصلہ نہیں کرنے دیتی،صاحب یقین صیح فیصلہ کرتا ہے ،صیح قدم صیح وقت پر اٹھا تاہے اورنتیجہ خدا کے سپرد کردیتا ہے‘‘۔یقین انسان کو زمین سے اٹھا کر آسمان تک پہنچاتا ہے اور بے یقینی انسان کو شہر خاموشاں میں پہنچا دیتی ہے۔

بے یقینی ایمان کی نفی ہے اور وسوسہ یقین کا گھن ہے،اگر عاقبت اور خدا پر یقین نہ ہو تو خیال پراگندہ ہو جاتا ہے۔پراگندہ خیال سماج میں انتشار پیدا کرتا ہے ۔جب تک انسان کو اپنے عقیدے پر یقین نہ ہو حقیقت کو تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔

آج کے مسلمان کے لیئے یہ مرحلہ انتہائی مشکل ہے کہ وہ اپنے عقیدے کو محفوظ رکھے ،عقیدہ قدم قدم پر ہاتھ سے نکل جاتا ہے۔ہم یہ مانتے ہیں کہ ہمیں خدا نے پیدا کیاوہی اس کائنات کا خالق و مالک ہے ،ہم سوچتے اور دیکھتے ہیں کہ رزق کی تقسیم نامنصفانہ ہے ،ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اللہ نے کچھ انسانوں کو غریب جینے اور غریب مرنے کے لیئے پیدا کیا ہے ،یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ خدا جس نے سب انسانوں کے لیئے یکساں زندگی پیدا کی ،سورج کی روشنی سب کے لیئے،آسمان سے برستا پانی سب کے لیئے،موسموں کا آناجانا سب کے لیئے،پیدائش ایک جیسی اور موت بھی سب کے لیئے یکساں۔پھریہ معاشی ناہمواری کا سبب کیا ہے؟جب غریب یہ سوچتا ہے کہ خدا اس کے ساتھ ناانصافی کرتا ہے اور امیروں پر خدا بہت مہربان ہے یہی سے گمان اور بے یقینی کا جنم ہوتا ہے۔

المیہ تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں جب کوئی انسان ناجائز ذرائع سے دولت کما کر امیر بنتا ہے تو وہ اس دولت کو خدا کا خاص فضل و کرم بیان کرتا ہے ،وہ ناجائز طریقے سے دولت کماتا رہتا ہے اور کہتا ہے اسکی عبادت منظور ہوگئی اور خدا نے خصوصی رحمت کی۔یتیم کا مال کھانے والا حج کرتا ہے اور خدا کے گھر میں داخل ہوتاہے بڑے یقین کے ساتھ۔اللہ کا حکم نہ مان کر اس کے روبرو ہونا اس کے دوبدو ہونے کے برابر ہے۔امیر آدمی کا یہی غلط یقین غریب آدمی میں وسوسہ اور بے یقینی پیدا کرتا ہے ،غریب سے اس کی عبادت بھی چھن جاتی ہے وہ سوچتا ہے خدا تو صرف امیر آدمی کا خدا ہے امیر کو اس کی نافرمانیوں کی سزا کی بجائے اسے انعام دیتا ہے اور غریب کو صرف غریبی برداشت کرنے کادرس۔یہیں سے یقین کمزور ہونا شروع ہوتا ہے اور عقیدے میں دراڑ پڑتی ہے ۔امیر کی دولت کی نمائش غریب کو خدا کی رحمت سے مایوس کر دیتی ہے۔

آج کا دور سائنس اور فلسفے کی وجہ سے بے یقینی کا شکار ہے اور بالخصوص ہمارا معاشرہ یورپ کی برابری کی خواہش میں بے یقینی اور انتشار کے نرغے میں ہے اور نتیجہ یہ ہے کہ کثرت مال کے اندر بھی تنگی حال موجود ہے ۔انسان کو غافل کردیا ہے معاشرتی برائیوں نے اور کثرت مال نے حتیٰ کہ انسان مر جاتا ہے،قبر میں جا گرتا ہے اور پھر ان خوشیوں پر افسوس ہوتا ہے جو غریب کا حق مار کر حاصل کی گئیں تھیں۔

آج ہمارا ذہن شبہات کی آماجگاہ ہے ،شکوک پرورش پا رہے ہیں،گمان پل رہے ہیں،دل سوز سے خالی ہوگیا ہے،انسان خدا سے دور ہوگیا ہے کیونکہ دولت کی پوجا شروع ہوگئی ہے۔کوئی انسان دوآقاؤں کا غلام نہیں ہوسکتامگر آج ہم نہ جانے کتنے ہی آقاؤں کے غلام ہیں؟دولت کے غلام ہم۔جمہوریت کے غلام ہم ۔سیاستدانوں کے غلام ہم۔غنڈہ گردوں کے غلام ہم۔کرپشن کے غلام ہم۔مغربی تہذیب وکلچر کے غلام ہم۔مختصراََ یہ کہ خواہشات کے غلام ہم۔ہم اپنی آرزؤں کے آگے سجدہ کرتے ہیں خدا کے آگے نہیں جھکتے،وہ ایک سجدہ جو ہزار سجدوں سے نجات دلاتا ہے وہ آج ہمیں حاصل نہیں۔

ٓآج لاکھو ں کروڑوں مساجد میں دن میں پانچ ٹائم دین کی بات ہوتی ہے،نماز کے لیئے پکارا جاتا ہے ،لاوڈ سپیکروں سے آذان کی صدائیں بلند ہوتی ہیں،جمعہ کے خطبات ہوتے ہیں،تبلیغی اجتماح منعقد کروائے جاتے ہیں مگر تاثیر کا عالم یہ ہے کہ معاشرہ پراگندہ ہوگیا ہے ۔کیا نہیں ہو رہا اور کیا نہیں ہوا؟مبلغ یقین نہ ہو تبلیغ تاثیر سے محروم ہوجاتی ہے ۔آج بے یقینی ایک وبائی صورت اختیار کر چکی ہے ،جب انسان کو اپنے آپ پر یقین نہیں تو وہ خدا پر کیا یقین رکھے گا؟َہم محروم ہوچکے ہیں ان مسرتوں سے جو صرف یقین سے حاصل ہوتی ہیں۔جو شخص روزے نہ رکھے وہ عید کی کیا مسرت حاصل کرے گا؟عید کی خوشی دولت سے نہیں یقین سے حاصل ہوتی ہے۔روزے کے انکاری جب عید مناتے ہیں تو ان کے چہرے بے نور ہوتے ہیں اور روزے دار کا چہرہ تابدار ہوتا ہے ،اس کا سینہ یقین سے پرنور ہوتا ہے،اس کے لیئے عید کی نمار سجدہ نیاز ہے بے نیاز کے حضور۔

صاحب یقین حوف حزن سے آزاد ہوتا ہے ۔اسے نہ آنے والا کا ڈر ہوتا ہے نہ جانے والے کا ملال،وہ صرف اپنے مالک کے عمل کو دیکھتا ہے اور خوش ہوتا ہے۔
صاحب یقین خرد کی گھتیال بھی سلجھاتاہے اور گیسوؤں ہستی بھی سنوارتا ہے اور صاحب گمان اپنے وسوسوں اور بے یقینی کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے ،اسے نہ یہ زندگی راس آتی ہے اور نہ وہ جس کے بارے میں اسے شک ہے۔وہ اندر سے ٹوٹتا رہتا ہے اور پھر شکستہ جہاز کو کوئی ہوا بھی راس نہیںآتی ۔

گمان اور بے یقینی کے سامنے یقین کا ثبات ایسے ہے جیسے یزیدی فوج کے سامنے امام حسین علیہ السلام کا ایمان تھااورامام حسین علیہ السلام کا ایمان اور یقین تاریخ عالم میں اپنی مثال آپ رکھتا ہے،اس سے بڑھ کر یقین کی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی ہے۔دنیا میں بے شمار ایسے لوگ گزرے ہیں جنہوں نے صاحب یقین ہونے کا ثبوت دیا ہے مگر ایسا کوئی صاحب یقین نہیں جس کے یقین کے سامنے موت نے بھی گھٹنے ٹیک دیئے ہوں۔امام حسین علیہ السلام مدینے سے جب کربلا کے لیئے نکلنے لگے تو لوگوں نے آپؑ کو کربلا کی طرف جانے سے روکاتو آپؑ نے انکار کر دیا ،لوگوں نے پھر کوشش کی اور کہا آپ تو جارہے مگر یہ بچے یہ پردہ دار بیبیاں ساتھ نہ لے کر جائیں تو امام حسین علیہ السلام نے جو کلمات ادا کیئے وہ تاقیامت تک امر ہوکر رہ گئے،آپؑ نے فرمایامیرا خدا مجھے اور ان بچوں کو شہید دیکھنا چاہتا ہے اور ان بیبیوں کو قید دیکھنا چاہتا ہے اس لیئے میں جاؤں گا کیونکہ مجھے خدا کی مشیت پر یقین ہے اور خود اپنی شہادت پر یقین ہے ۔یہ امام حسین علیہ السلام کا یقین۔اسی یقین نے حسین علیہ السلام سے نیزے کی نوک پر قرآن پڑھوایا۔

قارئین کرام! اگر آپ کو معلوم ہوجائے کہ فلاں گلی یا محلے میں جانے سے آپ قتل کر دیئے جاؤ گے تو کیا آپ وہاں جاؤ گے؟ ۔۔۔۔۔آپ نے سوچنا شروع کردیا کیونکہ ابھی آپ کے پاس عقل ہے اور جب عقل پر عشق غالب ہوجائے تو اس کو یقین کہتے ہیں اور یہ یقین کی آخری منزل ہوتی ہے جو ہمیں کربلا میں نظر آتی ہے۔بدقسمتی سے ہمارا یقین پہلی منزل پر بھی نہیں ۔

آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بے یقینی کی وبا سے جان چھڑائیں ،ہم اپنے دل سے اپنے عقیدے پر اعتقاد کریں۔ہمیں دعا کرنی چاہیے خداوند تعالیٰ سے کہ وہ ہمیں شبہات کی دلدل سے نکالے اور ہمیں دولت یقین عطاکرے ۔ہمیں بے یقینی کے تاریک راستوں پر یقین کی روشنی کے چراغ جلانا ہوں گے ۔ہمیں کسی صاحب یقین اور ایماندار راہنما کو تلاش کرنا ہوگا۔ہمیں آرزؤں کی کثرت سے نکل کر یقین کی وحدت کو اپنانا ہوگا۔

یقین کبھی متزلزل نہیں ہوتا ،اس کے پاؤں ڈگمگاتے نہیں۔اس کے اعتقاد میں لغزش نہیںآتی۔اسے نہ تو کوئی دبدبہ ڈرا سکتا ہے اورنہ ہی کوئی پیشکش لبھا سکتی ہے،اس لیئے ہمیں اپنے ایمان اور یقین کو پختہ کرنے کی ضرورت ہے اور اسی میں ہماری بقا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے