ملاوٹ زدہ سماج اور بے چارے لوگ

سب سے پہلے ان تمام افراد کا شکریہ جو میری کالم لکھنے کی غیر حاضری پر ای میلز کے ذریعے مجھے حاضر ہونے پر مجبور کرتے رہے اور ان کا بھی شکریہ جنہوں نے ذاتی طور پر مل کر اس غیر حاضری پر نرم احتجاج کیا ۔میں ان افراد کا بھی ممنون ہوں جن کے پیغامات مجھے براستہ موصول ہوئے ۔

صورتحال کچھ یوں تھی کہ مجھے سماجی ذمہ داریوں کے باعث غیر حاضر رہنا پڑا اور ان سماجی کاموں کو پورا کرنے کے لیے وقت کی قلت کے باعث حاضر نہ ہو سکا امید ہے سب مہربان میری بات کو سمجھ گئے ہوں گے اور مجھے روایتی سا فقرہ نہیں بولنا پڑے گا کہ میں معذرت خواہ ہوں ۔اب زیادہ لمبی بات کر کے آپ کو بوریت میں نہیں ڈالنا چاہتا ۔اس لیے اصل موضوع شروع کرتے ہیں ۔

ہمارے حکمران اور ان کے مخالفین تو عرصہ دراز سے ایک دوسرے کو نیچا دیکھانے میں لگے ہیں ان کے درمیان تو میچ جاری رہے گا ۔لیکن عوام کو اس سارے کھیل میں کچھ حاصل ہونے والا نہیں ۔کیونکہ یہ عوام کے مسائل کی جنگ نہیں ۔جس مافیا کا معزز سپریم کورٹ ذکر کر رہی ہے اس کا شکار تو ہم قیام پاکستا ن کے بعد سے ہوتے چلے آ رہے ہیں ۔یہ مافیا ہمارے اوپر کسی نہ کسی طور ہمشہ مسلط رہا اب تو ہم اس کے لگائے ہوے زخموں سے سانس لینے میں بھی تکلیف محسوس کر رہے ہیں ۔اب اگر اس کی نشاندہی ہو رہی ہے تو عوام صرف دعا گو ہیں کہ اس مافیا کی پکڑ ہو سکے ۔

عوام جن مشکلات کا شکار ہیں ان میں ایک ایسی وجہ بھی ہے جس کا تعلق معاشرے کے ہر فرد سے ہے ۔اور وہ ہے ملاوٹ جس کا ہم روزانہ شکار ہو رہے ہیں اور بے بسی کے عالم میں مسلسل زندگی گزار رہے ہیں ۔ملاوٹ صرف کھانے پینے کی اشیا میں نہیں بلکہ آپس کے میل جول میں بھی ملاوٹ شامل ہو چکی ہے ابھی چند روز پہلے کی بات ہے تھرپارکر کے علاقہ مھٹی سے تعلق رکھنے والی کہنہ مشق خاتون صحافی مریم صدیقہ بتا رہی تھیں کہ کسی جاننے والے نے میری صحافتی خدمات کو سرانے کے لیے نامزد کیا اور عین وقت پر کسی اور کا اعلان کر دیا

مریم کو اس بات کا رنج ہے کہ اس کے ساتھ دھوکا ہوا اس کی صلاحیتوں کی توہین کی گئی اور ان کی اس بات کے سچ ہونے کی میں گواہی دیتا ہوں گو میں نے صرف ان کے کام کی وجہ سے جانتا ہوں لیکن وہ جس طرح خبر کو محنت کے ساتھ فائل کرتی ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے شہر میں خاتون ہونے کے باوجود اور کسی معاوضے کے بغیر اعلیٰ کارکردگی کا مظاہرہ کررہی ہیں ان کے ساتھ اگر کسی نے دھوکا کیا ہے تو وہ اعلیٰ اقدار میں ملاوٹ کرنے کی ایک کوشش ہے ۔

ایسے ہی کئی واقعات ہیں جن کے باعث انسان مایوسی کی جانب مائل ہوتا ہے ۔کچھ عرصہ قبل دودھ کے حوالے سے ایک کالم تحریر کیا تھا وہی صورتحال آج بھی قائم ہے اور دودہ میں ملاوٹ کا کام زورو شور سے جاری ہے اس وقت مجھے بھائی طارق اعجاز کی بات یاد آ رہی ہے کہ اس وقت دودھ کی بے قدر ی ہو رہی ہے ان کا تعلق فیصل آباد کے ایک گاوں ونجواں سے ہے اور کچھ عرصہ قبل تک ان کے پاس دودھ کے وافر خریددار تھے اب یہ صورتحال تبدیل ہو چکی ہے اور جب سے کیمکل والا دودھ مارکیٹ میں کھلے عام دستیاب ہوا ہے ان کے خریددار کم ہو گئے ہیں اور یہ صرف ان کے ساتھ نہیں ہوا ساتھ والے علاقوں میں بھی یہی حالات ہیں

حیران کن بات ہے کہ خالص دودھ خریدنے والے منظر سے غائب ہو رہے ہیں ۔چند روز قبل ایک ورکشاپ پر گاڑی ٹھیک کروانے گیا تو وہاں پر ایک مشہور دودھ فروش سے ملاقات ہوئی وہاں پر ملاوٹ والے دودھ کا ذکر چھڑ گیا تو میں نے اپنی معلامات کے مطابق کہا کہ اب ایک کلو خشک پورڈر سے ایک من دودھ بنایا جاتا ہے تو ورکشاپ کے مالک نے اس دودھ فروش کی طرف دیکھا تو تعلقات کے باعث اس نے میری بات کو رد نہیں کیا بلکہ معلومات میں اضافہ کرتے ہوئے وہ صاحب بولے کہ ایک کلو نہیں چار کلو سے ایک من دودھ بنا جاتا ہے ۔

جب ورکشاپ کے اونر نے پانی ملے دودھ کی بات کی تو صاحب بہادر کا کہنا تھا کہ اب ہم دودھ میں پانی نہیں ملاتے بلکہ کیمیکل والا دودھ مکس کرتے ہیں یہ بات میرے لیے حیران کن تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ ہم ایسے ہی شور مچاتے ہیں جب پانی ملا دودھ مل رہا تھا تو کیا ضرورت تھی ملاوٹ کے خلاف آواز آٹھانے کی اب کیمکل والا دودھ اگر ہم پی رہے ہیں تو یہ ہمارا اپنا ہی قصور ہے ۔

کس کس ملاوٹ کا ذکر کریں ۔ہمارے دوست شیخ اعجاز جو کہ معاشرے کی برائیوں پر گہری نظر رکھتے ہیں اور اکثر ملاقات یا پھر فون پر کسی نہ کسی مسئلے کی طرف توجہ دلاتے ہیں اور ہمیشہ ایک نیا انکشاف کرتے ہیں وہ اگر صحافی ہوتے تو یقینی طور پر اب تک مافیا کا شکار ہو چکے ہوتے ۔شیخ اعجاز کا کہنا ہے کہ ان کے علاقہ میں ایک ایسی مشہور دودھ کی دوکان ہے جہاں پر کبھی باہر سے دودھ آتا نہیں دیکھا اور پھر بھی روزانہ سینکڑوں من دودھ وہاں پر فروخت ہوتا ہے ۔ایک دوسرا انکشاف کرتے ہوے انہوں نے فرمایا کہ اب مٹی سے دال من رہی ہے اور اسے اصل دال میں مکس کر کے فروخت کیا جا رہا ہے ۔یا خدایا یہ کیا ماجرا ہے ہم تو اس پاک ہستیﷺ کی امت ہیں جنہوں نے کہا کہ جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں اور ہم ہیں کہ کوئی کام ملاوٹ کے بغیر نہیں کرتے ۔

ہمارے معاشرے کی پہچان جھوٹ فریب اور ملاوٹ بن چکی ہے ہم ذاتی نفع کے لیے انسانی اقدار کو مسلسل تباہ کرنے پر تلے ہیں ۔حالانکہ ہم خود کو تباہی کے راستے پر ڈال کر اپنی تباہی کا رونا بھی خود ہی رو رہے ہیں ۔ ملاوٹ کا ایک اور واقع راوی پل اور لاہور نہر کنارئے بھی پیش آیا جہاں پر صدقے کے گوشت میں ملاوٹ کرنے پر چیلیں بھی ماتم کر رہی ہیں ہوا کچھ یوں کہ صدقے کا گوشت سڑکوں پر فروخت کرنے والوں کے خلاف جب ضلعی انتظامیہ نے ایکشن لیا اور ایسے افراد کو گرفتار کرنا شروع کیا جو صدقے کا گوشت فروخت کر رہے تھے تو تب یہ بات سامنے آئی کہ اس گوشت میں کس طرح ملاوٹ کی جاتی ہے ۔یہ لوگ فوم کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کرکے ان کو سرخ رنگ میں ڈبو کر گوشت میں مکس کر دیتے تھے اور جسے ہی کوئی گاہک آتا اور ریٹ طے کرنے کے بعد اس گوشت کو اس کا ہاتھ نے یا پھر اس کے سر پر گوشت کے سات چکر لگوا کر جانوروں کو ڈال دیتے ۔

سوچنے کی بات ہے چند ٹکوں کی خاطر یہ لوگ اپنا ایمان اور ضمیر تو کیا سب کچھ بیچ دیتے ہیں ۔ گھر سے سودا سلف لینے نکلو تو بہت مشکل ہے کہ آپ کو کچھ اصل مل سکے ۔گھریلو مسالوں سے لے کر گھی ،گوشت،دودھ،سبزیوں پھل تک میں ملاوٹ کا عنصر شامل کر دیا جاتا ۔میں کئی بار سوچتا ہوں کہ جو لوگ ملاوٹ کرتے ہیں وہ خود کیا کھاتے ہیں آخر وہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں ۔ابھی اس سوال کا جواب واضح طور پر نہیں مل سکا پر اتنی معلومات ملی ہیں کہ بڑے لوگ اپنے فارم پر ملاوٹ سے پاک ہر چیز حاصل کر لیتے ہیں ۔اور عام آدمی ملاوٹ کا شکار ہو کرزندگی کی بازی ہار جاتا ہے ۔ میری وقت کے حکمرانوں سے عاجزانہ درخواست ہے کہ اگر کبھی اقتدار کی جنگ سے فرست ملے تو عوام کا خیال بھی کریں ۔

کبھی یہ بھی سوچیں کہ اگر ملاوٹ کے باعث عوام ہی زندہ نہ رہے تو آپ کس پر حکمرانی کریں گئے ۔کیا دیواروں پر اپنا حکم نامہ جاری کریں گئے ۔کیا جانوروں سے خطاب کریں گے اور جانور کیوں آپ کا خطاب سنے گئے ان کے پاس تو پہلے ہی شیروں کی بھیڑ ہے اور ان شیروں کی حکمرانی سے چرند پرند انسانوں سے زیادہ واقف ہیں کہ وہ اپنی بھوک مٹانے کے لیے صرف اپنا مفاد عزیز رکھتا ہے ۔ اس لیے اے طوقت کے حکمرانو صرف اپنا مفاد عزیز نہ رکھو انسانوں کو بچانے کے اقدامات کرو ورنہ گلیوں بازاروں میں کہتے پھرو گے کہ ہم وقت کے حکمران ہیں اور کوئی مانے گا نہیں ۔

بات ملاوٹ کی ہو رہی تھی اور ذکر حکمرانوں کا آ گیا یہ بھی مجبوری ہے کیونکہ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ یہ دھاندلی سے برسراقتدار آےئ ہیں یعنی یہاں بھی ملاوٹ ۔ خدا پناہ عوام کس کی طرف دیکھیں ۔لیکن مایوس ہونے کی ضرورت نہیں اگر شہروں سے کوڑا کرکٹ اٹھانے اور پھلوں کی قیمتیں کنٹرول کرنے کے لیے عوام خود میدان میں اتر سکتے ہیں تو وہ وقت بھی دور نہیں جب ملاوٹ مافیا کے خلاف بڑی تحریک چلے گی اور ملاوٹ زدہ اشیاء ہی نہیں وقت کے حکمرانوں کو بھی بہا کر لے جائے گی ۔اللہ ہمیں سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق دے ۔آمین

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے