یہ کیسی جمہوریت ہے؟

آج کی دنیا میں جمہوریت کو معروف معنوں میں ایسا نظام کہا جاتا ہے جس میں مسلسل غیر جانبدارانہ‘ منصفانہ اور آزادانہ انتخابات ہوتے ہیں۔ اس نظام کو جمہوری اس لئے بھی کہا جاتا ہے کہ اس میں کسی فرد کی نہیں بلکہ قانون کی حکمرانی ہوتی ہے‘ کسی ایک ادارے کی آمریت اور زبردستی نہیں چلتی بلکہ اداروں میں چیک اینڈ بیلنس کے اصول کے تحت اختیارات کی تقسیم ہوتی ہے۔ جمہوری نظام کے لیے ضروری ہے کہ بنیادی آزادیوں یعنی آزادی ء اظہار‘ جلسہ جلوس‘ اپنے اپنے مذہب کی آزادی اور ذاتی ملکیت کا تحفظ موجود ہو۔ پاکستان اسلامی دنیا کا وہ واحد مُلک ہے جس کے آئین میں جمہوری نظام کی بالکل ایسے ہی تعبیر کی گئی ہے جس طرح دنیا کی آئیڈیل جمہوریتوں میں کی جاتی ہے۔ پاکستان کے آئین میں ہر انسانی آزادی‘ اداروں میں اختیارات کی تقسیم اور قانون کی حکمرانی کو صراحت سے بیان کیا گیا ہے۔ سوال یہ ہے کہ بہترین آئینی انتظام ہونے کے باوجود ہماری جمہوریت میں خرابیاں کیوں ہیں اور یہ خرابیاں کیسے دور ہوں گی؟

جمہوریت کے تسلسل اور استحکام کے لیے سب سے اہم کردار مڈل کلاس کا ہوتا ہے۔ مڈل کلاس ہی کو جمہوریت کا سب سے زیادہ فائدہ بھی ہوتا ہے۔ پاکستان کی جمہوریت کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ یہ اشرافیہ کی جمہوریت ہے‘ مڈل کلاس کی جمہوریت نہیں۔ برطانیہ میں بس ڈرائیور کا بیٹا‘ کلرک‘ کان کن‘ مزدور اور بیروزگار بھی رکن پارلیمان بن سکتا ہے۔ اسی طرح امریکہ میں ایسی مثالیں ہیں کہ بل کلنٹن جیسا یتیم بچہ یا لکڑہارے باپ کا بیٹا ابراہام لنکن اعلیٰ ترین سیاسی عہدے تک پہنچ سکتے ہیں‘ مگر پاکستان میں کوئی کلرک کوئی ”مڈل کلاسیا‘‘ سیاست میں آگے نہیں جا سکتا۔ پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی میں نوجوانوں اور مڈل کلاس کے لیے راستے بند ہیں‘ کیونکہ تمام اہم سیٹوں پر پرانے لوگ پہلے ہی قابض ہیں۔ صرف تحریکِ انصاف ایسی جماعت ہے جس میں مڈل کلاس کے راستے کھلے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ تحریک انصاف اور عمران خان‘ مڈل کلاس کی خواہشات اور امنگوں کی تجسیم ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا تحریکِ انصاف کی لیڈر شپ مڈل کلاس کی خواہشات کے سپرد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب ریاست کا مسئلہ دہشت گردی کے خلاف لڑائی تھا تو عمران خان طالبان سے مذاکرات کی بات کرتے تھے اور پھر آرمی پبلک سکول پشاور کے سانحے کے بعد عمران خان نے طالبان پر اپنا موقف تبدیل کیا تو تحریکِ انصاف میں ایک بھی انگلی ایسی نہیں اٹھی جو موقف میں اتنی بڑی تبدیلی پر اعتراض کر سکے۔ وجہ وہی ہے کہ مڈل کلاس کی خواہشات ہی تحریکِ انصاف کی لیڈر ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی ایسے اقدامات کریں جن سے مڈل کلاس ان کی طرف متوجہ ہو۔ تبھی جمہوری سیاست مضبوط ہو گی۔

پارلیمانی جمہوریت میں منتخب اراکینِ پارلیمان براہ راست حکومت چلانے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ کابینہ کے اکثریتی اراکین بھی پارلیمان سے ہوتے ہیں۔ پارلیمان ہی حکومت اور وزیراعظم کی جواب طلبی کرتی ہے۔ بدقسمتی سے موجودہ حکومت‘ پارلیمان سے طاقت حاصل کرنے کا موقع تو ہاتھ سے جانے نہیں دیتی لیکن پارلیمان کو اہمیت دینا ہو یا اس کے سامنے جوابدہ ہونا ہو تو اسے اہمیت نہیں دی جاتی۔ کیا یہ بہتر نہ ہوتا کہ وزیراعظم‘ پارلیمانی احتساب کے ٹی او آرز پر اتفاق کر لیتے اور آج جے آئی ٹی کے سامنے پیشیاں نہ بھگتنی پڑتیں۔ سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی باقاعدگی سے پارلیمان میں آتے تھے جبکہ نوازشریف اور عمران خان کو بھی باقاعدگی سے قومی اسمبلی میں جانا چاہیے اور ایک دوسرے کے سامنے قومی مسائل پر مباحثہ کرنا چاہیے جسے پوری قوم ٹی وی پر براہ راست دیکھے۔ پارلیمانی نظامِ حکومت میں پارلیمانی کمیٹیاں وزارتوں کی نگرانی کرتی ہیں۔ ہمارے ہاں پارلیمانی کمیٹیاں تو موجود ہیں مگر وہ وزارتوں پر کوئی اثر نہیں رکھتیں اور نہ ہی وہ ان کے احتساب پر قادر ہیں۔

سیاسی پارٹیاں جمہوریت کے نام پر کام کرتی ہیں مگر ان کے اندر جمہوریت ندارد۔ کسی بھی سیاسی جماعت کے اندر انتخابات کا منصفانہ نظام نہیں ہے۔ قیادت کی مرضی ہی سے انتخابات کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے۔ مسلم لیگ نون کے انتخابات ہوں یا پیپلز پارٹی کے انتخابات سب کچھ منصوبہ بندی کے تحت الیکشن کمیشن کی شرط پورا کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ حال ہی میں تحریکِ انصاف نے پارٹی انتخابات کے لیے قاف لیگ سے مشاورت کی اور الیکشن کمیشن کے اعتراضات کو عین اسی طرح ختم کیا گیا جیسی باقی سیاسی جماعتوں نے پورا کیا تھا سیاسی جماعتوں کے پارٹی انتخابات پر اعتراض اٹھانے کا مطلب یہ نہیں کہ قاف لیگ میں منصفانہ انتخابات ہوں تو چوہدری شجاعت کے علاوہ کوئی اور منتخب ہو جائے گا یا پھر تحریکِ انصاف میں کوئی عمران خان اور نون لیگ میں نوازشریف اور پیپلز پارٹی میں بلاول بھٹو زرداری کی جگہ لے سکتا ہے‘ مگر جس مضحکہ خیز طریقے سے پارٹی انتخابات کروائے جاتے ہیں اس سے سب سیاسی جماعتوں کی اخلاقی حیثیت اور جمہوریت سے ان کی کمزور کمٹمنٹ ظاہر ہوتی ہے۔ کیا سیاسی جماعتیں اپنے اس طریق کار کو بہتر نہیں بنا سکتیں؟

پارلیمانی جمہوریت کے لئے لازم ہے کہ وزرا کو اپنے محکموں کی مکمل سوجھ بوجھ ہو اور وہ اپنی وزارت کو پالیسی دینے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ بدقسمتی سے پاکستانی وزرا کو نہ اپنے محکموں کے بارے میں واقفیت ہوتی ہے اور نہ وہ انہیں چلانے کے اہل ہوتے ہیں۔ اسی لئے نوکر شاہی طاقت ور ہو جاتی ہے۔ برطانیہ کی پارلیمانی جمہوریت میں اپنے اراکین کو باقاعدہ مرحلہ وار ٹریننگ دی جاتی ہے۔ پہلے پارلیمانی سیکرٹری ‘ پھر نائب وزیر اور بعد میں وزیر بنایا جاتا ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں یہ تجربہ کیا گیا تھاکہ کئی نوجوانوں کو سٹیٹ منسٹر کا عہدہ دیا گیا تاکہ ان کی تربیت ہو اور وہ بعد میں اپنے محکمے سنبھال سکیں۔ اس حوالے سے سیاسی قیادت کو اقدامات کرنے چاہئیں اور ریاستی سطح پر اپنے سیاسی لیڈرشپ کے معیار کو بڑھانے کا طریق کار وضع کرنا چاہئے۔

یہ کیسی جمہوریت ہے کہ سیاسی جماعتیں اقتدار میں آنے کے بعد کی تیاری ہی نہیں کرتیں۔ نہ کوئی تھنک ٹینک‘ نہ کوئی پالیسی پیپر‘ نہ خارجہ پالیسی پر غور‘ نہ معاشی پالیسی کی تیاری۔ ہر سیاسی جماعت کے لیے لازم ہونا چاہیے کہ وہ الیکشن سے پہلے اپنا ورکنگ پیپر لوگوں کے سامنے رکھے‘ کابینہ کے ناموں کا بھی پہلے ہی سے علم ہونا چاہیے۔ ممکن ہو تو اپوزیشن کو شیڈو کابینہ کا پہلے ہی اعلان کر دینا چاہیے‘ اوورسیز پاکستانیوں کو قومی دھارے میں شامل کرنا چاہیے اور جو کچھ انہوں نے بیرونِ ملک سیکھا ہے اس سے ہمیں فائدہ اٹھانا چاہیے۔

آخر میں گزارش یہ ہے کہ پاکستان کی جمہوریت قطعاً آئیڈیل نہیں ہے۔ اس میں شدید خرابیاں ہیں‘ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم جمہوریت کی جو قدریں موجود ہیں ان کو ختم کرنے چل پڑیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستانی جمہوریت میں خرابیوں کو دور کرنے کے لیے دبائو بڑھایا جائے۔ جمہوریت کا خاتمہ مسائل کو حل نہیں کرے گا بلکہ ان کو مزید پیچیدہ بنادے گا۔ حل یہ ہے کہ جمہوریت کو مزید جمہوری بنایا جائے اور جہاں غلطیاں ہیں ان کی اصلاح کی جائے یہی وہ واحد راستہ ہے جو باقی دنیا نے اپنایا‘ ہمیں بھی یہی کرنا ہو گا…!!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے