افغان طالبان کے لیے پاکستانی علماء کی چندہ مہم

ریڈیو فری یورپ اور ریڈیو لبرٹی کی رپورٹ کے مطابق، ’’بظاہر ملک کی انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، افغانستان سے ملحقہ پاکستان کی مغربی سرحد پر دینی علما ٴکھلے عام افغان طالبان کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کی مہم چلا رہے ہیں‘‘

پاکستان ہمیشہ اِن الزامات کو مسترد کرتا ہے کہ افغانستان میں طالبان کی پُرتشدد کارروائیاں اُس کی پشت پناہی میں کی جاتی ہیں؛ جس کے برعکس، پاکستان کا کہنا ہے کہ ہمسائے ملک کا استحکام پاکستان کے اپنے مفاد میں ہے۔

تاہم، ایک رپورٹ کے مطابق، ’’بظاہر ملک کی انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، افغانستان سے ملحقہ پاکستان کی مغربی سرحد پر دینی علما ٴکھلے عام افغان طالبان کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کی مہم چلا رہے ہیں‘‘۔ یہ بات ’ریڈیو فری یورپ‘ اور ’ریڈیو لبرٹی‘ کے بوریوال کاکڑ اور ابوبکر صدیق نے اپنی شائع ہونے والی تحریر میں کہی ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مولوی اللہ داد کا تعلق صوبہٴ بلوچستان سے ہے، جو ایک بااثر دینی عالم ہیں۔ اُنھوں نے کہا ہے کہ اُنھیں اس بات پر فخر ہے کہ وہ کئی برسوں سے افغان طالبان کی لڑائی میں درکار رقوم اکٹھی کرنے میں مدد فراہم کر رہے ہیں۔

اُنھوں نے ’ریڈیو مشعل‘ کو بتایا کہ ’’اسلامی امارات کا مرکزی مالیاتی کمیشن (افغان طالبان کا باضابطہ نام) ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم ہر سال بابرکت ماہ رمضان کے دوران چندہ اکٹھا کرکے مدد کریں۔ یہ پہلا سال نہیں ہے کہ ہم ایسا کر رہے ہیں‘‘۔

داد کی عمر 70 کے پیٹے میں ہے۔ وہ بلوچستان کے جنوبی شہر، زوب میں ایک جامع مسجد چلاتے ہیں۔ وہ جمیعت علمائے اسلام کے مذہبی دھڑے کے ایک سینئر راہنما ہیں۔ وہ علاقے کی اکثریتی پشتون آبادی پر کافی اثر و رسوخ رکھتے ہیں، جہاں وہ 1980 کی دہائی سے لڑائی میں شریک مختلف افغان مذہبی دھڑوں کی سرپرستی کرتے رہے ہیں۔

مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ اُن کا ایک بھانجا 1990کے عشرے میں شمالی افغانستان میں طالبان کے ہمراہ لڑتے ہوئے ہلاک ہوا۔

داد نے بتایا کہ بلوچستان بھر کے دینی عالم رمضان میں چندے کی مہم میں حصہ لیتے ہیں، جب مسلمان خیرات نکالتے ہیں۔ بقول اُن کے، ’’یہ راز کی بات نہیں، ہم کھلے عام یہ کام کرتے ہیں‘‘۔

رپورٹ کے مطابق، اُنھوں نے اِس بات کی تصدیق کی ہے کہ اُنھوں نے گذشتہ ماہ ایک مراسلہ جاری کیا تھا جس میں علاقے کے ساتھی دینی بھائیوں سے اپیل کی گئی تھی کہ مہم کو کامیاب بنایا جائے۔

بظاہر نیٹو کی قیادت والے بین الاقوامی فوجی مشن، جسے ’انٹرنیشنل سکیورٹی اسسٹنس فورس (آئی ایس اے ایف) کہا جاتا ہے، اُس کے حوالے سے، اُنھوں نے لکھا ہے کہ ’’(طالبان) اسلامی امارات نے اکیلے سر 42 کافروں کی طاقت کو شکست دی ہے‘‘۔ نیٹو 28 ارکان پر مشتمل ہے، جب کہ اس میں 14 غیر نیٹو ملک شامل ہیں جو ’آئی ایس اے ایف‘ کے لیے فوجیں فراہم کرتے تھے، جس کا مشن دسمبر، 2014ء میں مکمل ہوا۔

اُن کا خط، جسے سماجی میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز پر جاری کیا گیا ہے۔ اُنھوں نے دلیل دی ہے کہ ’’طالبان کی مالی حالت خراب ہے۔ اس لیے یہ ہمارا اخلاقی اور مذہبی فرض ہے کہ ہم اُن کی امداد کریں۔ ہم روایتی طور پر ہر سال 200000 سے 300000 روپے (2000 سے 3000 ڈالر) جمع کرتے ہیں‘‘۔ اُنھوں نے یہ بات طالبان کے خزانے میں رقوم جمع کرانے کے بارے میں بتائی۔

داد چندہ اکٹھے کرنے والے اکیلے مذہبی رہنما نہیں ہیں۔ اُنھوں نے بتایا کہ صرف کوئٹہ شہر میں طالبان کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کے کم از کم 15 مراکز ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بڑے رقبے پر پھیلا ہوا صوبہٴ بلوچستان افغان طالبان کا فی الواقع ہیڈکوارٹر بنا رہا ہے جب سے 2001ء میں اُن کی حکومت کا خاتمہ ہوا ہے۔ سنہ 2003 میں طالبان قیادت اور اُس کی بڑی تعداد نے بغاوت کی ابتدا کے لیے شہر کا رُخ کیا۔ گذشتہ سال، طالبان لیڈر ملا اختر محمد منصور بلوچستان کے دور افتادہ علاقے میں ہلاک ہوا، جب وہ ایران سے کوئٹہ کے سفر پر تھا۔

اُن کے خط میں ملا عبدالمنان کی شناخت کی گئی ہے کہ وہ طالبان کے مالی کمیشن کے اہم فرد ہیں، جو بلوچستان بھر میں رقوم اکٹھی کرنے کے کام سے وابستہ ہیں۔

پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی حکمت عملی میں، جسے باضابطہ طور پر ’نیشنل ایکشن پلان‘ کہا جاتا ہے، ’’دہشت گردی اور دہشت گرد تنظیموں کی مالی اعانت کو بند کرنے‘‘ کے لیے کہا گیا ہے؛ ساتھ ہی، ’’دینی مدارس کی رجسٹریشن اور ضابطوں‘‘ پر زور دیا گیا ہے، جہاں داد جیسے دینی عالم حکومت کی نگاہ سے اوجھل ہیں۔

تاہم، حکام کا کہنا ہے کہ وہ اُن کی جانب سے چندہ جمع کرنے سے آگاہ نہیں۔

سرفراز بگٹی، بلوچستان کے وزیر داخلہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ کسی نے بھی اُنھیں چند اکٹھا کرنے کی سرگرمی کی رپورٹ نہیں دی۔

اُنھوں نے ’ریڈیو مشعل‘ کو بتایا کہ ’’میرا دھیان آپ کی اس رپورٹ کے نتیجے میں مبذول ہوا ہے۔ ہم اس بارے میں چھان بین کریں گے۔ ہم کسی دہشت گرد نتظیم کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ ہم اُن سب کو سزا دیں گے جو ایسی کارروائیوں میں ملوث پائے جائیں گے‘‘۔

کابل اکثر پاکستان پر طالبان کو تحفظ فراہم کرنے اور مالی اعانت کا الزام دیتا ہے۔ 31 مئی کو کابل کے سفارتی علاقے میں ٹرک پر نصب بم دھماکے میں 90 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ اس ضمن میں، افغانستان کی ’نیشنل ڈائریکٹوریٹ آف سکیورٹی‘ نے پاکستان کی جانب انگلی اٹھائی۔

حملے کے روز افغانستان کے جاسوسی کےادارے نے پڑھ کر سنائے گئے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ’’آج کے حملے کی منصوبہ بندی حقانی نیٹ ورک نے پاکستان کی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے رابطے اور تعاون سے تیار کی‘‘۔

تاہم، پاکستان نے اِس دعوے کو مسترد کیا ہے۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان، نفیس ذکریا نے اِسے ’’بے بنیاد‘‘ قرار دیا اور کہا ہے کہ ’’افغانستان کا استحکام ہمارے اپنے مفاد میں ہے‘‘۔

اُنھوں نے ’’دوسروں پر الزام دھرنے کے بیانئے’’ کی مذمت کی اور کہا کہ کابل اپنی ناکامی چھپانے کے لیے یہ الزام لگایا جا رہا ہے۔

بقول اُن کے، ’’پاکستان کا اپنا مفاد افغانستان کے امن و استحکام سے وابستہ ہے۔ افغانستان میں عدم استحکام کا کسی اور ملک پر اتنا اثر نہیں پڑتا جتنا کہ پاکستان پر۔‘‘

اُنھوں نے مزید کہا کہ ’’اس لیے، افغانستان میں امن اور استحکام کے بارے میں پاکستان کا عزم کسی شک و شبہے سے بالا تر ہے‘‘۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے