9/11 کے بعد کے واقعات کا سنسنی خیز خلاصہ

چند برس قبل انعام یافتہ برطانوی صحافیوں ایڈریان لیوی اور کیتھی اسکاٹ کلارک نے کتاب The Meadow ترتیب دیکر تفتیشی صحافت کے نئے میعارات قائم کئے ۔ اس کتاب میں انہوں نے جولائی 1995میں جنوبی کشمیر میں ایک غیر معروف عسکری تنظیم الفاران کے ذریعہ اغوا کئے گئے پانچ مغربی سیاحوں کے معاملے پر سے پردے اٹھائے تھے۔اغوا کے اس واقعہ نے اس وقت زبردست سنسنی پھیلا دی تھی۔ جب اغواکئے گئے سیاحوں میں سے ایک ناروے کے ہانس کرسٹیان اوسٹرو کی سربریدہ لاش پائی گئی ، تو امریکہ اور برطانیہ کے سیکورٹی ماہرین سری نگر کی خاک چھاننے کے لئے پہنچ گئے۔ حالانکہ یہ خبر تو ضرور ملی کہ الفاران کا صفایا کردیا گیا لیکن دنیا کو یہ معلوم نہ ہوسکا کہ اغوا کئے گئے مغربی سیاحوں کا انجام کیا ہوا۔کتاب کے مصنفین نے ہندوستانی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ انالسس ونگ کے دو سابق سربراہوں کے حوالے سے لکھا ، کہ اغوا کے اس واقعہ کو عالمی برادری میں پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے بھرپور استعمال کیا گیا۔مصنفین کا کہنا تھا کہ ان مغربی سیاحوں کو بچایا جاسکتا تھا کیوں کہ را (R&AW)کے اہلکاراغوا کے پورے واقعے کے دوران نہ صرف سیاحوں ا ور اغواکاروں پر مسلسل نگاہ رکھے ہوئے تھے بلکہ ان کی تصویریں بھی لیتے رہے تھے۔دونوں برطانوی صحافیوں نے شواہد کی بنیاد پر لکھا کہ بھارت نے چاروں سیاحوں کو مرنے کے لئے چھوڑ دیا تاکہ پاکستان کے خلاف ایک بڑی سرد جنگ جیتی جا سکے۔

اسی طرز پر حال ہی میں ان دونوں مصنفین کی ایک ا و ر مشترکہ تصنیف The Exile منظر عام پر آئی ہے۔ تقریباََ 600 صفحات پر مشتمل یہ کتاب کسی حیرت انگیز تھریلر سے کم نہیں ہے۔یہ کتاب القائدہ، اسامہ بن لادن اور دیگر کمانڈروں کی پناہ گاہوں اور 9/11کے بعد وقوع پذیر واقعات کا احاطہ کرتی ہے۔ اسمیں دنیا بھر کی سیکورٹی ایجنسیوں کے خطرناک کھیل او ر ان کی آپس کی رقابت کواجاگر کیا گیا ہے۔ اس کتا ب اور اس میں انکشافات کے حوالے سے راقم نے اینڈریان لیوی کا ایک خصوصی تفصیلی انٹرویو لیا۔ جس کے دلچسپ اور چونکا دینے والے مندرجات اس کالم کے ذریعے قارئین کے حوالے کر رہا ہوں۔ جب میں نے اینڈریان لیوی سے پوچھا ، ’’کہ 13دسمبر 2001کو بھارتی پارلیمنٹ پر ہوئے حملہ کو بھی آپ نے القائدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کے ساتھ جوڑا ہے۔ آخر یہ کیسے ممکن ہے؟‘‘ تو برطانوی مصنف نے جواب دیاکہ دراصل یہ حملہ ایک مکمل سازش کا حصہ تھا۔ جس کا مقصد بھارت اور پاکستان کو جنگ کی دہلیز پر کھڑا کرنا تھا۔
تاکہ افغانستان کے تو را بورا پہاڑوں کے عقب میں 6000پاکستانی افواج پر مشتمل دستہ کو ہٹانے کا سامان مہیا ہو۔

’’ اگر آپ کو یاد ہوگا کہ دسمبر 2001 میں امریکی اور حلیف دستوں نے تورا بورا کے پہاڑوں میں موجود غاروں کے گرد گھیرا تنگ کیا ہوا تھا۔ پاکستانی فوجوں کو یہ ذمہ داری دی گئی تھی، کہ وہ اپنے علاقہ میں پہاڑوں کے عقب میں چوکسی برتیں۔ اسی دوران اسامہ کے دست راست اور لیبائی باشندہ ابن شیخ الیبی کے توسل سے اسامہ اور القائدہ کے دیگر جنگجوں کی خود سپردگی کے حوالے سے بات چیت شروع ہوگئی تھی۔11دسمبر تک گفت و شنید کے کئی دور ہوئے، مگر 12دسمبر کو غاروں سے کسی نے رابط نہیں کیا ۔ ایک مکمل خاموشی چھا گئی۔ جب اسکا تجزیہ کیا جارہا تھا، کہ 13 دسمبر کو بھارتی پارلیمنٹ پر حملہ ہوا، اور آناً فاناً بھارت نے سرحد کی طرف فوج کو کوچ کا حکم دیا ۔ اس کا جواب دینے کیلئے پاکستان نے باقی سبھی سرحدوں سے فوج ہٹا کر انکو مشرقی سرحد پر جمع کیا”۔ تقریباً ڈیڑھ سال تک چلے اس فوجی جماو ٗ پر بھارت کو 3.4بلین ڈالر اور پاکستان کو 1.4بلین ڈالر خرچ کرنے پڑے۔ باقاعدہ جنگ کے بغیر ہی بھارتی فوج کے 789 سپاہی بارودی سرنگیں بچھاتے ہوئے ہلاک ہوگئے۔

کتاب میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے، کہ9/11 کے بعد امریکی انتظامیہ اسامہ بن لادن ، اسکے افراد خانہ اور دیگر راہنماؤں کے ٹھکانوں سے پوری طرح باخبر تھی۔ مگر اس نے انکو نشانہ بنانے یا گھیرنے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ بجائے ان کے نام پر غیر متعلق علاقوں یعنی افغانستان، پاکستان پر بم برسائے گئے اور تباہی پھیلانے والے ہتھیار رکھنے اور القائدہ کو پناہ دینے کے الزام میں عراق پر فوج کشی کرکے اسکو تباہ و برباد کیا گیا۔ میں نے جب اسکی تفصیلات جاننی چاہی، تو لیوی نے کہا کہ اکثر ممالک اپنے سیاسی اہداف حاصل کرنے کیلئے دہشت گردی اور انسرجنسی کو استعمال کرتے ہیں۔

2002 میں ہی القائدہ اور اسکی ملٹری کونسل کے اراکین اور اسامہ بن لادن کی فیملی کوحراست میں لیکر القائدہ کے سربراہ کو منظر عام پر آنے پر مجبور کرسکتے تھے۔ امریکیوں کو معلوم تھا، کہ ان میں سے اکثر اس وقت ایران میں موجود تھے۔ مگر صدر بش نے دیگر سیاسی اہداف حاصل کرنے لئے اسکو عراق پر حملہ کرنے کا بہانہ بنایا۔ بالکل اسی طرح جس طرح بھارت نے کشمیر میں غیر ملکی سیاحوں کے معاملہ کو طول دیکر پاکستان کو سفارتی محاذ پر کٹہرے میں لاکر کھڑا کرکے رکھ دیا۔‘‘ میں نے عالمی شہرت یافتہ تفتیشی صحافی سے پوچھا، کہ آخر 9/11 کی پلاننگ کو القائدہ نے کس طرح اس حد تک خفیہ رکھا ، کہ دنیا کی کسی بھی خفیہ ایجنسی کو اسکی ہلکی سی بھنک بھی نہیں لگ پائی؟ تو لیوی نے کہا، کہ القائدہ کی سیاسی، مذہبی یا ملٹری کونسل کا 9/11 کے واقعات سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ سازش اسامہ نے تنظیم سے باہر رچی تھی

۔ جب خالد شیخ محمد(جس کا القائدہ کے ساتھ کوئی واسط نہیں تھا) کی ایما پر اسامہ نے یہ تجویز ملٹری اور مذہبی کونسل کے سامنے رکھی تو اسکی زبردست مخالفت ہوئی۔ اسامہ کے مذہبی مرشد محفوظ الولید نے تو احتجاج کرکے استعفیٰ دے دیا۔ ا ن کا کہنا تھا، کہ امریکہ کو مشتعل کرنے سے القائدہ اور انکے میزبان افغان طالبان حکومت کا قافیہ تنگ ہوگا۔ الولید نے مشورہ دیا تھا، کہ امریکہ کے بجائے القائدہ اوراسکے سربراہ کو اپنی توجہ اور توانائیاں اسرائیل اور فلسطین کو آزاد کروانے پر مرکوز کرنی چاہے۔‘‘ مگر اسامہ نے القائدہ کے کسی حد تک اندرونی جمہوری اداروں کو درکنار کرتے ہوئے خالد شیخ محمد کے ساتھ 9/11 کی سازش کے تانے بنے۔ خالد نے بعد میں کراچی میں مغربی صحافی ڈینیل پرل کو قتل کرکے پاکستان میں بھی القائدہ کے لیڈروں کا جینا مشکل کردیا۔ اس کے بعد اسامہ کے افراد خانہ ایران منتقل ہوگئے۔

جب میں نے پوچھا ، کہ آخر یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایران ایک شیعہ ملک، القائد ہ جیسی کٹر عرب سنی تنظیموں کو پناہ دے سکتا ہے کیونکہ بظاہر ایران آج بھی ایسی دیگر تنظیموں کے ساتھ دنیا کے دیگر خطوں میں بر سرپیکار ہے؟ تو لیوی کا کہنا تھا، کہ ان کے پاس القائدہ لیڈران کے خطوط، دیگر کمیونی کیشن اور انٹریوز کی صورت میں شواہد کا ایک ذخیر ہ موجود ہے، جن سے ثابت ہوتا ہے، کہ 9/11کے فوراً بعد ہی القائدہ کے ایران کے ساتھ روابط قائم ہوچکے تھے۔اسامہ کے مرشد الولیدکے سبھی خدشات درست ثابت ہورہے تھے۔ وہ اسامہ کی فیملی اور دیگر لیڈروں کیلئے پناہ گاہیں تلاش کررہے تھے۔ پاکستان ، امریکہ کے ساتھ جنگ میں شامل ہوچکا تھا۔ بقول الولید، ان کے پاس آپشنز محدود تھے اور ایرا ن واحد ایسا آپشن تھا، جس پر بھروسہ کیا جاسکتا تھا۔

19دسمبر2001 کو الولید نے ایرانی سرحد پر دستک دی، جہاں ایران کی القدس فورس کے کمانڈر میجر جنرل قاسم سلیمانی نے اس کو ہاتھوں ہاتھ لے لیا۔افسانوی کردار کے حامل جنرل سلیمانی کے کارنامے ایران کی فوجی تاریخ میں ایک درخشاں باب کی حیثیت اختیار کرچکے ہیں۔وہ آیت اللہ خامنہ ای کے قریبی حلقوں میں شمار کئے جاتے ہیں۔ مارچ2002میں القائدہ کے اراکین کیلئے ایران نے افغان سرحد سے متصل ہی ایک پناہ گاہ بنائی تھی۔ بعد میں انکو تہران منتقل کیا گیا۔خواتین اور بچوں کو تہران کی طالقان شاہراہ پر واقع ہوزیہ ہوٹل میں ٹھہرایا گیا۔ جبکہ دیگر جہادیوں کو اسی شاہراہ کے دوسری طرف عامر ہوٹل میں منتقل کیا گیا۔ ان کے پرمٹ اور دیگر کاغذات بنائے گئے، جن میں انکی شناخت عراقی شیعہ پناہ گزینوں کے طور پر کی گئی۔ ان میں امریکیوں کو انتہائی مطلوب سیف العادل بھی تھے۔جس نے 1998میں مشرقی افریقہ میں امریکی سفارت خانہ کو نشانہ بنایا تھا۔

اسی دوران ایرانی شہر مشہد میں شواہد کے مطابق القائدہ کے اراکین نے2003 میں سعودی شہر ریاض میں ہوئے بم دھماکوں کی پلاننگ کی، جس میں 39افراد ہلاک ہوگئے۔2005تک القائدہ کے چوٹی کے لیڈران ایران میں مقیم رہے۔ بعد میں ان میں سے چار لیڈران کو انتہائی خفیہ مشن کے ذریعے دمشق پہنچایا گیا۔ جن میں اسامہ کے بیٹے حمزہ کے والد نسبتی ابو محمد المصری بھی شامل تھے۔وہ ابھی بھی شام میں ہی پناہ گزین ہیں۔ حالیہ شواہد کے مطابق ڈاکٹر ایمن الظواہری بھی ایران سے شام منتقل ہوچکے ہیں۔ حمزہ بن لادن کی فیملی ابھی بھی ایران کی ہی پناہ میں ہے۔

دوران انٹرویو لیوی نے ایک اور انکشاف کیا، کہ 1998میں افغانستان پر امریکی میزائل کے حملوں کے بعد طالبان کے امیر ملا عمر اور اسامہ بن لادن کے درمیان خاص تلخیاں پیدا ہوگئی تھیں۔جس کا فائدہ اٹھا کر اسلام آبادمیں سی آئی اے کے چیف باب گرینیر نے پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور ملا عمر کے درمیان ایک ڈیل کروائی۔ جس کے مطابق آئی ایس آئی کے ریٹائرڈ اہلکاروں پر مشتمل ایک دستہ اسامہ کے ٹھکانے پر حملہ کرکے اسکو اغوا کرکے پاکستان لائے گا۔ طالبان حکومت اس آپریشن میں کسی بھی طرح کی مداخلت نہیں کرے گی۔مگر جب اس آپریشن کے خد وخال طے ہوگئے، پاکستان میں نواز شریف حکومت کا تختہ پلٹ گیا۔ آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ضیاء الدین کو برطرف اور گرفتار کرکے کمان جنرل محمود احمد کے سپرد کی گئی، جو امریکیوں سے خائف تھے۔ اس کے بعد قندھار میں ملا عمر کی رہائش گاہ کے باہر ایک بم پھٹا، گو کہ طالبان سربراہ بچ گئے، مگر دبے لفظوں میں وہ اس دھماکہ کیلئے اسامہ کو ذمہ دار گر دانتے تھے

بشکریہ روزنامہ 92 نیوز

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے