جو بولے سو نہال

لیجیے نہال ہاشمی بھی تاریک راہوں کے مسافر ہوئے،اللہ بھلا کرے نادان دوستوں کا کہ جنکے ہوتے ہوئے ن لیگ کو اپوزیشن کی بالکل بھی ضرورت نہیں ہے۔ وزیر اعظم کے بیٹوں کی جے آئی ٹی میں حاضری پر کم و بیش تمام رہنما اتنے ہی برہم ہیں جتنے نہال ہاشمی، بس ان بیچارے کی خطا یہ ہے کہ وڈیو بنتے دیکھی پھر بھی۔۔۔ خیر جانے دیں۔ اب صورتحال یہ ہے کہ مشاہد اللہ، پرویز رشید، طارق فاطمی کے بعد نہال ہاشمی اس راہ کے چوتھے مسافر ہیں۔ مشاہد اللہ وفاداری کے پل صراط سے واپسی پر سرفراز ہوئے، پرویز رشید بادی النظر میں نیم معتوبی کا چلہ کاٹ رہے ہیں اور طارق فاطمی اور نہال ہاشمی عالم برزخ میں ندائے غیبی کے منتظر ہیں۔

کیا پتہ یہ کوئی سوچا سمجھا منصوبہ تھا یا پھر جذباتی لمحہ، لگتا یہی ہے کہ ن لیگ کیلئے خودکش حملہ ثابت ہوا ہے۔ اگرچہ ن لیگ کی جانب سے جے آئی ٹی کے دو ارکان عامر عزیز اور بلال رسول پر اعتراضات سپریم کورٹ مسترد کر چکی ہے مگر یہ اعتراضات اتنے بے بنیاد بھی نہ تھے اور یہی پیغام ن لیگ کو اپنے ووٹ بینک کیلئے دینا تھا۔ صرف اتنا ہی نہیں ایک دن پہلے ایس ای سی پی واٹس ایپ کے انکشاف نے ان اعتراضات کو مزید چمکا بنا دیا تھا، اب آپ اسے انوسٹیگیشن رپورٹ کہہ لیں یا پلانٹیڈ اسٹوری، کیا فرق پڑتا ہے۔ بہرحال اس دوران نہال ہاشمی کی گنڈاسے بردار تقریر نے ن لیگ کی صفوں میں کھلبلی مچا دی۔ نہال ہاشمی کی شعلہ بیانی کی تپش دور تک محسوس کی گئی۔ مگر ایک اور اہم معاملہ یہ ہے کہ مذکورہ تقریر کراچی میں یوم تکبیر کی تقریب میں 28 مئی کو کی گئی اور منظر عام پر 31 کو آئی، ظاہر ہے میڈیا نے اس تقریب کی کوریج نہیں کی ہو گی ورنہ ریٹنگ کی بدہضمی میں تین دن تک خبر دبائے رکھنا ممکن نہیں ہے۔ تین دن بعد تقریر کو ریلیز کیا گیا، کس نے کیا؟ پھر وہی اسٹیبلشمنٹ، نادیدہ ہاتھ جیسی پراسرار سرگوشیاں، خیرجو بھی ہو تقریر کو جذباتی کہا جا سکتا ہے مگر اسے ریلیز کرنے کا فیصلہ خاصا سمجھا بوجھا اور پرفیکٹ ٹائم پر کیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ن لیگ کی جانب سے یہ خودکش بیان نہ پہلا ہے اور نہ آخری، گاہے بگاہے لیگی رہنمائوں میں سے کوئی نہ کوئی لائن کراس کرتا رہتا ہے۔ آپ کو بھی خوب پتہ ہے کہ ن لیگ کی جانب سے ذمہ داران کیخلاف کارروائیوں اور اسکے بعد نوازشات کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے جو بہرنوع شبہات کو بھی جنم دیتا ہے۔ غلطیاں انفرادی ہوتی ہیں یا اجتماعی، تاثر بہرحال یہ پایا جاتا ہے کہ ن لیگ وفاداری کی بھرپور قدر اور حوصلہ افزائی کرنے کی روایت پر قائم ہے، گویا جو بولے سو نہال والی پالیسی ہے۔ نہال ہاشمی کے بیان پر سپریم کورٹ کے ریمارکس شاید ضرورت سے زیادہ سخت ہیں تو ترجمان ن لیگ کا رد عمل سخت ترین کہا جا سکتا ہے۔ سسلی کی مافیا والے ریمارکس پر حکومتی ترجمان کا شدید رد عمل سامنے آیا ہے مگر میرے خیال میں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ اصل اعتراض سسلی پر ہے یا مافیا پر، خیر اسے جملہ معترضہ سمجھیئے بہرحال ن لیگ نے ایک بار پھر عدالت عظمیٰ کے سامنے آنے کا فیصلہ کیا ہے، خدا خیر کرے دیکھیں کیا گزرے ہے قطرے پہ گہر ہونے تک

آئین کی نطر میں سب برابر، قانون کیلئے سب یکساں، حضور یہ سب باتیں عوام کیلئے ہیں، بھلا بتائیے دو شہزادے، ٹکے کے سرکاری ملازمین کے سامنے پیش ہوں تو مصاحبین کا خون کیوں نہ کھولے، کیا قیامت گزر رہی ہو گی دلوں پر آپ کو کیا اندازہ، ذمہ داران کی آنیوالی نسلوں کو کیوں نہ دھمکایا جائے تاکہ آئندہ کسی بھی سیاسی خانوادے کے سامنے انصاف و قانون سر نہ اٹھا سکے۔ معاف فرمائیے گا یہ طرز عمل صرف ن لیگ خاص نہیں ہے الحمداللہ ہمارے سیاسی کلچر میں قیادت اعلیٰ کا درجہ اولیا سے کچھ ہی کم ہے۔ بس نہیں چلتا ورنہ ہر قائد اعلیٰ، شہنشاہ اکبر کی طرح سنگھاسن پر بیٹھ کر ظل الہیٰ بن بیٹھے۔ دل پر ہاتھ رکھکر بتائیے کیا بیشتر وزرا اور رہنما خاندانی خدمتگار اور نورتن نہین لگتے۔ کیا کہیں سے لگتا ہے کہ اس کیس کا حکومت یا وزیر اعظم سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ شریف کے خاندان سے متعلق ہے۔ لیگی رہنمائوں کا بس نہیں چلتا ورنہ مستقبل کی قیادت اعلیٰ کے سامنے کورنش بجا لائیں اور اعتراض کرنیوالوں کو منہ نوچ لیں کیونکہ یہی سیاسی مستقبل کی بہترین ضمانت ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے میاں صاحب کے پاس نہ گلو بٹوں کی کوئی کمی ہے نہ شعلہ بیاں مقررین کی، رانا ثنا اللہ، سعد رفیق تو مخالفین کے چھکے چھڑاتے رہتے ہیں خواجہ آصف اور چوہدری نثار بھی کسی سے پینچھے نہیں رہتے۔ بہت ساری مولا جٹ جیسی سیاسی بڑھکیں میڈیا آرکائیوز میں محفوظ ہیں اور موقعہ پڑنے پر بےدریغ استعمال بھی کی جاتی ہیں، تو بھلا سپریم کورٹ اور دیگر ادارے ان بڑھکوں اور جگتوں کو کیونکر بھول سکتے ہیں۔

ابتدا میں عرض کیا تھا کہ ماشااللہ سے ن لیگ کو کسی اپوزیشن کی ضرورت نہیں، اب ملاحظہ فرمائیں مشترکہ پارلیمنٹ سے صدر مملکت کے خطاب پر گو نواز گو کے نعرے گونجتے رہے خوب ہنگامہ بھی ہوا، اسکا کریڈٹ اپوزیشن کو دینا ن لیگ کیساتھ سراسر نا انصافی ہو گی۔ بھئی یہ سارا فسانہ اپوزیشن لیڈر کے بجٹ خطاب کی کوریج براہ راست نہ کروانے کا نتیجہ تھا، سو اپوزیشن نے اجلاس ایوان کے باہر منعقد کیے اور سارے میڈیا نے تقاریر براہ راست دکھائیں بھی، اب بتائیے بھلا ایوان سے براہ راست دکھانے میں کیا حرج تھا۔ رہی بات وزارت اطلاعات کے قواعد و قوانیں کی تو یہ اس وقت کہاں ہوتے ہیں جب روزانہ دانیال اینڈ طلال کمپنی شریف خاندان کے دفاع میں وزارت اطلاعات کے پلیٹ فارم سے گھنٹوں براہ راست خطاب فرماتے ہیں۔ خدارا جمہوریت کو گھر کی باندی نہ بنائیں، عوام کیساتھ مذاق نہ کیجیئے اسپیکر قومی اسمبلی اگر ذرا سی بھی غیر جانبداری کا مظاہرہ فرما لیتے تو صدر مملکت ممنون حسین مشترکہ پارلیمنٹ میں باعزت خطاب کر سکتے تھے، دنیا کے سامنے مذاق نہ بنتا مگر اے بسا آرزو کہ خاک شدہ

میاں صاحب نے چار سال گزار لیئے، آپ کو سب اچھا لگ رہا ہے مگر بھائی گھائل کا دکھ گھائل جانے اور نہ جانے کوئی، اللہ اللہ کر کے جنرل راحیل شریف کی باعزت رخصتی کا چمتکار ہوا، ٹوئٹ اور ڈان لیکس کا معاملہ بھی معجزانہ طور پر نمٹ گیا مگر کمبخت پاناما ایسے گلے میں اٹکا ہے کہ بس نہ پوچھیئے۔ زرادری صاحب سیاسی کاریگری سے خوب واقف ہیں۔ مفاہمت کے نام پر خود بھی خوش رہتے ہیں اور دوسروں کو خوش رکھنے کا فن بخوبی جانتے ہیں مگر نواز حکومت پر ہر دور میں اداروں کی نظر کرم کچھ زیادہ ہی ہوتی ہے، لے سانس بھی آہستہ کہ نازک بہت ہے کام والا معاملہ ہو جاتا ہے۔ ابھی ایک سال باقی ہے، ایک تھیوری یہ بھی گردش میں ہے کہ ن لیگ سیاسی شہادت کے رتبے کو پا کر آئندہ انتخابات میں ریکارڈ کامیابی چاہتی ہے۔ آپ کو اختلاف کا پورا حق ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں سیاست اور فوج کا رشتہ ہمیشہ بے اعتباری کو شکار رہا ہے، اب عدلیہ جیسے ادارے سے مزید بگاڑ کر کے جمہوریت کو دائوں پر لگانا کہاں کی عقلمندی ہے۔ حافظ نے کیا خوب کہا ہے

رموز مملکت خویش خسروان دانند
گدائے گوشہ نشیں تو کہ حافظا مخروش

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے