امام مسجد کی دعااورمیری اُلجھن

میرے مولا تیری شان کہ وطن پاک میں موجود وہ لوگ جو سنی، شیعہ اور دیوبندی وغیرہ وغیرہ ہونے کی وجہ سے ایک صف میں کھڑے ہو کر نماز تک ادا کرنے سے قاصر ہیں پچھلے دو دنوں سے لگاتار سوشل میڈیا، اخبارات اور ٹی وی چینلز پر بیٹھے یہ تبصرے کر رہے ہیں کہ ایران، سعودیہ، قطر، بحرین اور امارات وغیرہ وغیرہ کو سارے اختلافات بھلا کر بحیثیت اُمت مسلمہ ایک ہو جانا چاہیے۔

ارے صاحب………پہلی بات یہ کہ آپ کو پوچھتا کون ہے یعنی آپ یا آپ کے حکمراں ہیں کس کھیت کی مولی اور دوسری بات آپ ان کی فکر چهوڑیں اور پہلے اپنے اختلافات تو دور کریں.

خدا را آپ دوسرے ممالک کی ٹھیکیداری چھوڑ کر اپنے بارے میں سوچو کہ معاشی یا مذھبی لحاظ سے ہم کتنے مضبوط ہیں یا با حثیت مسلمان ہمارا اپنا ایمان کتنا مضبوط ہے؟

مذھبی اختلافات کو ہمارے ہاں روزی روٹی کے چکروں میں اتنا بے رحمی سے پروان چڑھایا جا رہا ہے کہ لفظوں میں بیاں کرنا مشکل ہے.

پچھلے ماہ وطن پاک میں چھٹیوں کے دوران نماز جمعہ ادا کرنے ایک امام صاحب کی اقتدا نصیب ہوئی.

ممبرِ رسول پہ بیٹھے ایک گھنٹے کے خطاب میں مخالف مسالک کے بخیے ادھیڑنے کے بعد بڑے خشوع و خضوع کے ساتھ انھوں نے جب یہ دعا مانگی کہ "یا اللہ امتِ مسلمہ میں اتحاد پیدا فرما” تو میرا ایک دم ترا نکل گیا.

اونچی آواز سے میں نے بھی آمین و سبحان اللہ تو کہا لیکن اتنے طنز کے ساتھ کہ موصوف نے ایک بار ایسی نظروں سے دیکھا جیسے کچا چبا جائیں گے.

جان پیاری تھی اس لیے چپ چاپ نماز جمعہ ادا کی اور گھر کی راه لی..

باقی سب چھوڑیں اپنے ہاں جون کی اس گرمی میں روزہ رکھنے والے مسلمانوں کو بھی کچھ لوگ بڑے آرام سے صرف اس لئے کافر کہہ دیتے ہیں کیونکہ وه ان کے مسلک سی منسلک نہیں ہوتے.

سب ڈھکوسلے اور دکان داریاں اپنی اپنی جگہ لیکن خدا جانے دل میں کیوں بہت تکلیف ہوتی ہے جب کسی شوریدہ سر کو دن رات ملک کے استحکام کی دعا مانگتے اور پھر خود ہی اس کی بنیادوں میں پڑی اینٹیں اکھیڑنے دیکھتا ہوں.

یقین کیجیے کہ کوئی اس ملک سے محبت کا کتنا بڑا ہی دعوے دار کیوں نہ ہو لیکن اگر وہ یکجہتی کے بجائے شدت پسندی، تعصب پرستی، قبیلہ پرستی، انا پرستی، منافقت، توہم پرستی، جہالت اور جھوٹ کو پروموٹ کرتے ہوئے معاشرے پر منفی اثر ڈال رہا ہے تو دعا ہے کہ خدا پاک اس کی ساری نام نہاد محبت اس کے منہ پر دے مارے. آمین

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے