ایسا ٹیلنٹ اور کہاں؟

آج میں ایک بات آپ کی مدد سے سمجھنا چاہتا ہوں۔ افغانستان میں جب سوویت فوج دس برس رہی تو پاکستان کے بائیں بازو والے یہ کیوں کہتے رہے کہ امریکا اور روس کی لڑائی میں پاکستان ایران کی طرح سائیڈ لائن پر رہے۔ جنرل ضیا الحق کی حکومت اور مذہبی سیاسی جماعتیں اس آگ سے ہاتھ نا تاپیں ورنہ یہ آگ پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ جب کہ ریگن، فہد، ضیا الحق اور مذہبی سیاسی جماعتیں کہہ رہے تھے کہ افغان جنگ الحاد کے خلاف خدا پرستوں کا جہاد ہے۔

اگر اسے افغانستان میں نا روکا گیا تو نا اسلام اور ناعیسائیت سلامت رہے گی۔ یہ تو سیدھی سیدھی جنت مکانیوں اور جہنم رسیدوں کی جنگ ہے۔ جنت مکانی مر کے بھی منافع میں رہیں گے اور جہنمی زندہ رہ کے بھی راندہ درگاہ ہوں گے۔ سعودی عرب نے کہا، ایک ڈالر امریکا دے گا تو ایک ڈالر میری طرف سے اور مینجمنٹ آئی ایس آئی اور سی آئی اے کی اور ہر مہمان جہادی سب کا سانجھا مہمان۔

امریکا نے کہا، آپ نوجوانوں کو نیک مقصد کے لیے تیار کریں۔ نصاب کی تیاری اور خرچہ میرے ذمے۔ آج کے بعد الف سے انار نہیں الف سے اللہ ب سے بکری نہیں ب سے بہشت، پ سے پانی نہیں پ سے پتھر، ج سے جوتا نہیں ج سے جہاد، چ سے چمچہ نہیں چ سے چادر، ح سے حلوہ نہیں ح سے ہمت، خ سے خنجر ٹھیک ہے لیکن د سے دل نہیں دادا چلے گا۔ اور پھر یہ ہوگیا۔ تو پھر آج وہی امریکا آملیٹ کو دوبارہ انڈہ کیوں بنانے پر لگا ہوا ہے۔ وہ دوبارہ ج سے جوتا اور پ سے پانی کیوں بحال کرانا چاہ رہا ہے؟

افغانستان سے روسی انخلا کے صرف بارہ سال بعد ایسا کیا ہوا کہ اسٹیج تو وہی رہا، اداکار بھی وہی رہے لیکن کاسٹیوم اور مکالمے بدل گئے۔ جب اکتوبر دو ہزار ایک میں افغانستان میں امریکی فوجیں اترنے لگیں تو احمد شاہ مسعود اور صبغت اللہ مجددی کا شمالی اتحاد طالبانی کابل میں ایسے ہی داخل ہوا جیسے تئیس برس پہلے ببرک کرمال کے پرچمی فوجی حفیظ اللہ امین کی خلقی حکومت گرانے کے لیے کابل میں داخل ہوئے تھے۔

لیکن مجاہدین کے سابق عاشق پاکستان، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے طالبان کو وہی اہمیت دی جو سوویت یونین نے افغانی کمیونسٹ گروہوں کو دے رکھی تھی اور امریکا اور ناردرن الائنس کے بارے پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور دائیں بازو کی لابی کا وہی رویہ بن گیا جو پہلے سوویت یونین اور اس کے افغان پٹھوؤں کے بارے میں تھا۔

تیس برس پہلے پاکستان کا بایاں بازو کہہ رہا تھا کہ پاکستان خود کو امریکا کی تھوپی ہوئی جنگ سے نکال لے مگر دایاں بازو کہہ رہا تھا کہ اس جنگ سے پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کا مطالبہ کرنے والے روسی ایجنٹ اور پاکستان میں سرخ انقلاب لانے کے خواہاں ہیں۔ اب پاکستان کا دایاں بازو کہہ رہا ہے کہ پاکستان خود کو امریکا کی تھوپی ہوئی جنگ سے الگ کرلے کیونکہ امریکا مسلمانوں کا کھلا دشمن ہے تو اب بائیں بازو والے کہہ رہے ہیں کہ جو لوگ اسے امریکا کی جنگ کہہ رہے ہیں وہ دراصل القاعدہ اور طالبان کی بی ٹیم ہیں۔

جب انیس سو اسی کے عشرے میں پاکستان میں بم دھماکے ہورہے تھے تو بائیں بازو والے کہہ رہے تھے کہ یہ امریکا کی تھوپی افغان جنگ میں بلا سوچے سمجھے کودنے کا پھل ہے۔ اور دائیں بازو والے کہہ رہے تھے کہ یہ دشمنِ جہاد سرخ ایجنٹوں کی تخریب کاری ہے جو پاکستان کو حق گوئی کا علم بلند کرنے کی سزا دینا چاہتے ہیں۔ جب آج خود کش حملے ہورہے ہیں تو بائیں بازو والے کہتے ہیں کہ اس کا مقصد پاکستانی ریاست کو ختم کرکے تاریکی کے دور میں دھکیلنا ہے مگر دائیں بازو والے کہتے ہیں کہ یہ امریکی ڈرون حملوں میں مرنے والے مظلوموں کا امریکی کٹھ پتلی دیسی اسٹیبلشمنٹ سے انتقام ہے۔

جب پچیس برس پہلے سوویت گن شپ ہیلی کاپٹر مجاہدین کے کندھوں سے فائر ہونے والے امریکی اسٹنگرز کا نشانہ بن رہے تھے تو بہت سے علمائے کرام ان اسٹنگرز کو ابرہہ کے لشکر پر برسنے والی کنکریوں کی جدید شکل سمجھ کے بغلیں بجا رہے تھے۔ لیکن پچیس برس بعد جب اسی امریکا کے اسٹنگرز ڈرونز بن چکے ہیں تو یہی علما انھیں ابلیسی مشین بتا رہے ہیں۔

ہاں سب بدل گیا۔ اداکار بھی، ان کے لباس بھی اور مکالمے بھی۔ مگر ایک چیز نہیں بدلی۔ جب کل امریکا جہادی ڈارلنگ تھا تب بھی اس کی فوجی و اقتصادی امداد کو آمنا و صدقنا کہا گیا اور جب امریکا مسلمانوں کا دشمن نمبر ایک قرار دے دیا گیا تب بھی اس کی فوجی و اقتصادی و ترقیاتی امداد لینے سے انکار نہیں ہوا۔ امریکی و دیگر مغربی اہلکاروں اور سفارت کاروں کے رابطے پہلے بھی لیفٹ رائٹ سب سے تھے، آج بھی ہیں۔ بس یہ ہوا کہ کل جو لوگ ان ملاقاتوں کو حلال سمجھتے تھے آج مکروہات سمجھ کے ملتے ہیں مگر ملتے ضرور ہیں۔

اب تو مجھے یوں لگتا ہے کہ اس دنیا میں بس دو طرح کے لوگ ہیں۔ سیلز مین اور گاہک۔ اور ایک اچھا سیلز مین وہی کہلاتا ہے جو گاہک یا پروڈکٹ سے زیادہ اپنے کمیشن سے وفادار ہو اور گاہک کو اس کی ضرورت کے علاوہ ہر فالتو چیز انتہائی ضروری ثابت کرکے فروخت کر نے کی صلاحیت سے مالامال ہو۔ اس کے لیے یہ معمول کی بات ہو کہ کل وہ جس کمپنی کی چائے کی خوبیوں کے بارے میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہا تھا آج وہ چائے کی پتی کو ہی کینسر زدہ ثابت کرکے کافی کو پانچ عظیم صحت بخش قدرتی تحائف کی فہرست میں ڈال دے اور کل جب اسے شیمپو میں منافع نظر آرہا ہو تو گاہک کو اس پہ قائل کرلے کہ کافی یا چائے بھلے پئیں لیکن ان کے مضر اثرات کے نتیجے میں جو بال جھڑیں گے انھیں روکنے کے لیے یہ والا شیمپو لگانا نہایت ضروری ہے۔

کل جو روس کو ٹھیلے پر بیچ رہا تھا آج وہ امریکا کو ٹھیلے پر رکھے گھوم رہا ہے اور کل جس نے امریکی ہیئر ڈرائر بیچ لیا، آج وہ اینٹی امریکا کنگھے لیے گلی گلی گھوم رہا ہے۔ کل جو یہ بتا رہا تھا کہ طالبان اکسیر ہیں، آج یہ کہہ رہا ہے کہ نئی ریسرچ سے ثابت ہوا ہے کہ طالبان میں پائی جانے والی مخصوص تیزابیت انسانی صحت کے لیے انتہائی مضر ہے، اسی لیے ترقی یافتہ ممالک نے اس پروڈکٹ کو مارکیٹ سے اٹھا لیا ہے اور اب اسے تیسری دنیا میں ڈمپ کیا جارہا ہے۔

کوئی بھی نظریہ، عقیدہ، افواہ، رد، قبول، منصوبہ، بات، بے وقوفی، چالاکی، احساس، بے حسی، دکھ، خوشی، ایجاد، فراڈ، شکل، عقل، زاویہ، نظر، رنگ، بے رنگی، رونق، سناٹا، ہجوم، تنہائی، علم، جہالت، کمال، زوال، ذہن، دل، حلال، حرام، مکروہ، تازہ، باسی، ایک نمبر، دو نمبر، جعلی، اصلی، خالص، ناخالص، سیدھا، ٹیڑھا، قاتل، مقتول، ظلم، مظلومیت، معصومیت، خرانٹ پن، سادگی، چالاکی، وفا، بے وفائی، محبت، دشمنی، جھوٹ، سچ، سادگی، پرکاری، دوا، لادوا، رشتہ، ناتا، چہرہ، بے چہرگی، غیرت، بے غیرتی، ڈھٹائی، ثابت قدمی، رحم، بے رحمی، آڑھا، سیدھا، بھینگا، کانا، آنکھوں والا، نابینا، دوربیں و نزدیک بیں، طاقت، کمزوری، زندگی، موت، عزت، بے عزتی الغرض کیا ہے جو خریدا یا بیچا نہیں جا سکتا۔ ذرا اردگرد تو دیکھئے، کیا اس کے سوا بھی کچھ اور بک رہا ہے۔ کیا ایک سے ایک چمپئن سیلز مین کے سوا بھی کوئی نظر آرہا ہے۔ ایسا ایسا سیلز مین جو قطبِ شمالی میں فریج بیچ دے۔ جو آپ کو آپ ہی کے ہاتھوں بیچ دے۔ کون کہتا ہے کہ یہ دھرتی ٹیلنٹ سے خالی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے