تحریک انصاف ، لانڈری اور ایرانی لابی

میں پی ٹی آئی کونئی مسلم لیگ (ق) سمجھ رہا تھا اور میں نے ہی اسے نئی مسلم لیگ (ق) کا نام دیا تھا۔وجہ یہ تھی کہ یہاں مسلم لیگ (ق) کی تمام خصوصیات دیکھنے کو ملتی تھیں۔ مثلاً مسلم لیگ (ق) اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ تھی اور گزشتہ چھ سال سے یہ خدمت پی ٹی آئی بدرجہ اتم سرانجام دے رہی ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ (ق) میں ایجنسیاں افراد کو شامل کرواتی اور عہدے دلواتی تھیں اور 2011ء کے بعد ایک لمبے عرصے تک ایجنسیاں مختلف شخصیات کو پی ٹی آئی میں شامل کراتی اور ان کو مناصب دلواتی رہیں۔ اسی طرح مسلم لیگ (ق) کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ وہ کرپٹ اور بدنام سیاستدانوں کیلئے لانڈری کی حیثیت رکھتی تھی اورجو اس میں شامل ہوجاتا احتساب سے بچ کر صاف ہوجاتا۔ ایک عرصے سے لانڈری کی یہ حیثیت پی ٹی آئی کو حاصل ہوچکی ہے۔ شاہ محمود قریشی آصف علی زرداری کے دست راست اور گیلانی کابینہ کے وزیر تھے لیکن پی ٹی آئی میں آئے تو صاف قرار پائے۔

بیرسٹر سلطان محمود اور رحمان ملک ایک ہی طرح کی صفات کے حامل تھے لیکن پی ٹی آئی میں آئے تو فرشتہ قرار پائے۔ پرویز خٹک زرداری صاحب کے سپاہی، آفتاب شیرپائو کے دست راست اور حیدر ہوتی کابینہ کی صوبائی کابینہ کے رکن تھے لیکن پی ٹی آئی میں آئے تو ایسے صاف ہوگئے کہ پی ٹی آئی کے ترجمان قرآنی آیات پڑھ پڑھ کر ان کے پاک صاف ہونے کی گواہیاں دینے لگے۔ اعظم سواتی،مولانا فضل الرحمان صاحب کے دست راست تھے اور امریکہ سے لائے ہوئے مبینہ ڈالروں کے عوض سینیٹ میں اور پھر گیلانی کابینہ میں آئے تھے لیکن پی ٹی آئی میں آئے تو امامت کے یوں اہل قرار پائے اور علامہ علی محمد خان اور مفتی شہریار آفریدی نے باجماعت ان کو سیاسی امام تسلیم کیا۔ وہ پہلے صوبائی صدر بنائے گئے اور اب الیکشن کے نام پر سلیکشن کیلئے بنائے گئے الیکشن کمیشن کے سربراہ مقرر ہوئے۔ علیٰ ہذا القیاس۔ لیکن اب ایک اور طرح کی تبدیلی آگئی ہے۔

اب پی ٹی آئی میں پیپلز پارٹی کی تمام صفات در آئی ہیں اور قیادت پر بھی پیپلز پارٹی کا واضح غلبہ ہوگیا ہے۔ ویسے تو سب سے طاقتور نام بلکہ شاید عمران خان سے بھی زیادہ طاقتور جہانگیر خان ترین ہیںجو پیپلز پارٹی سے نہیںبلکہ مسلم لیگ (ق) سے پی ٹی آئی میں آئے تھے لیکن انہیں اللہ نے مال کے ساتھ ساتھ چال چلانے کی بھی ایسی صلاحیت دی ہے کہ انہیں بجا طور پرپی ٹی آئی کا آصف زرداری قرار دیا جاسکتا ہے۔ لیکن جہانگیر ترین کے نیچے دیکھیں تو ہر طرف پیپلز پارٹی ہی پیپلز پارٹی نظر آتی ہے۔ شاہ محمود قریشی اگرچہ 2001ء سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رابطے میں تھے ( عمران خان نے 2002 ء میں ایک دن پرویز مشرف کو شکایت کی تھی کہ ان کے دوست شاہ محمود قریشی ان کی پارٹی میں آنا چاہتے ہیں لیکن ایجنسیاں ان کو آنے نہیں دے رہیں ) لیکن وہ پہلے بے نظیر بھٹو اور پھر آصف علی زرداری کے رازدان تھے۔ اب وہ جہانگیر ترین کے بعد پی ٹی آئی کے اہم ترین رہنما ہیں۔ اسی پرویز خٹک بنیادی طور پر جیالے اور پیپلئے ہیں تاہم اسد قیصر جیسے عمران خان کے کئی پرانے خدمتگاروں کو پیچھے چھوڑ کر وہ نہ صرف وزیراعلیٰ بنے بلکہ خیبر پختونخوا کی پی ٹی آئی ان کی مٹی میں بند ہے۔ غلام مصطفیٰ کھر کی تو پہچان ہی پیپلز پارٹی تھی۔ اب ماشاء اللہ وہ بھی پی ٹی آئی کے رہنما بن گئے ہیں۔ چوہدری محمد سرور کچھ عرصہ کیلئے شریفوں کے سیاسی دسترخوان سے بھی مستفید ہوئے لیکن وہ اصل میں بے نظیر بھٹو کے آدمی تھے۔ اب وہ بھی پی ٹی آئی کے اہم ترین رہنما ہیں۔

اسی طرح سردار آصف احمد علی بھی معروف پیپلئے تھے۔ عرصہ ہوا وہ بھی پی ٹی آئی کے رہنما بن گئے ہیں۔ بلوچستان کی پی ٹی آئی کے صدر سرداریار محمد رند اگرچہ مسلم لیگ (ق) میں بھی رہے اور شوکت عزیز کابینہ کے وزیر تھے لیکن پرانے پیپلئے ہیں۔ راجہ ریاض کے جیالا پن کو کون بھول سکتا ہے۔ ان سے آصف علی زرداری صاحب وہی کام لیا کرتے تھے جو میاں صاحب طلال چوہدری اور دانیال عزیز سے لیتے ہیں لیکن اب ماشاء اللہ وہ بھی پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما ہیں۔ہمارے دوست فواد چوہدری تو نہ صرف پیپلز پارٹی کے معروف خاندان کے چشم وچراغ ہیں بلکہ آج بھی نظریاتی حوالوں سے یا پھر عادتوں کے لحاظ سے سر تا پا پیپلئے ہیں۔ الحمد للہ آج وہ عمران خان صاحب کے مشیر خاص اور ترجمان ہیں۔ بابر اعوان کے جیالاپن سے تو ایک دنیا واقف ہے۔ گزشتہ حکومت میں وہ زرداری صاحب کی وکالت میں کن حدوں تک جاتے تھے، کوئی بھول گیا ہو تو عمران خان کے ساتھ ان کی وہ ویڈیو دیکھیں جس میں وہ ان کو لاجواب کرنے کیلئے ٹیریان تک جاپہنچے تھے۔ اعوان صاحب آج بھی کاغذی طور پر پیپلز پارٹی میں ہیں لیکن عرصہ ہوا کہ وہ اصلاً عمران خان کے وکیل اور مشیربن گئے ہیں۔ غرض کس کس کا ذکر کروں۔ آج خان صاحب کے اردگرد نظر دوڑائیں تو پیپلز پارٹی ہی پیپلز پارٹی نظر آتی ہے۔ کہیں اشرف سوہنا تو کہیں ممتاز تارڑ، کہیں نور عالم خان تو کہیں عامر ڈوگر۔

لیکن بنی گالہ میں بننے والی پیپلز پارٹی کے تاج محل کی یہ تصویرشاید فردوس عاشق اعوان کے بغیر نامکمل تھی۔ اگرچہ انہوں نے اپنی وزارت کے دنوں کے اپنے فرنٹ مین کو پہلے سے عمران خان کے ساتھ فٹ کرلیا تھا ( جن کو میڈیا کنسلٹینسی کے نا م پر اشتہارات وغیرہ کی آڑ میں کمانے کا تجربہ فردوس عاشق اعوان کے ساتھ ہوچکا تھا اور اسی لئے انہوں نے ایک صاحب کے ساتھ مل کر خیبرپختونخوا کے اشتہارات کے کئی ارب روپے ایک کمپنی کی آڑ لے کراڑانے کا منصوبہ بنایا تھا جو وقتی طور پر ڈان کے اسماعیل خان اور میری کوششوں سے ناکام ہوا لیکن اب سنا ہے کہ وہ دونوں ایک اور طریقے سے واردات کرنے جارہے ہیں۔ افتخاردرانی پیپلز پارٹی کے دور حکومت کے مزے لینے اور اپنی اہلیہ کو فردوس عاشق اعوان کے ذریعے پیمرا میں تعینات کرانے کے بعد اب پی ٹی آئی کے میڈیا کے انچارج ہیں اور شام کو ٹی وی پربیٹھنے والے پی ٹی آئی کے ممبران اسمبلی کی ڈیوٹی وہ لگاتے ہیں کہ شام کو کس نے کس چینل پر جاکر کس کی کیا بے عزتی کرنی ہے)۔ بہر حال فردوس عاشق اعوان کی آمد سے پی ٹی آئی کے پیپلز پارٹی بننے میں جو کسر رہ گئی تھی، پوری ہوگئی۔ جس طرح عمران خان نے رنگ برنگے ٹریک سوٹ کے ساتھ کیمروں کے سامنے بیٹھ کر فردوس عاشق اعوان کو شامل کروایا اس سے عیاں ہوتا ہے کہ فردوس صاحبہ کیلئے بھی موزوں ترین جگہ یہی تھی اور پی ٹی آئی میں بھی بس ان کی کمی تھی۔ الحمد للہ پی ٹی آئی اب مسلم لیگ (ق) اور پیپلز پارٹی کا مرکب تو بن گئی لیکن سوال یہ ہے کہ اب قیادت کون کرے۔ یہاں اب نہ تو زرداری صاحب قیادت کیلئے آسکتے ہیں اور نہ چوہدری شجاعت حسین صاحب۔ بدقسمتی سے ایسے حالات بنتے جارہے ہیں کہ اگلے انتخابات سے عمران خان بھی آئوٹ ہوں۔ نہ صرف یہ کہ وہ خاص قوتوں کیلئے بوجھ بنتے جارہے ہیں بلکہ خود پارٹی کی سیکنڈ رینک کے بعض اہم کردار بھی ان کو آئوٹ کراکر پارٹی پر قبضے کا سوچ رہے ہیں۔

اب ایک گروپ جہانگیر ترین کا ہے ۔ دوسرا شاہ محمود قریشی کا ہے ۔ تیسرا اسدعمر اور شیریں مزاری وغیرہ کا ہے ۔ جو نظریاتی لوگ تھے یا جو پھر خان صاحب کے وفادار تھے ، ان کی اب کوئی حیثیت نہیں ۔ وہ ان تینوں میں سے کسی ایک کے قدموں میں بیٹھے ہوتے ہیں ۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ لڑائی اس لئے شدت اختیار کرتی جارہی ہے کیونکہ شاہ محمود قریشی اور اسد عمر گروپ کو احساس ہوگیا ہے کہ وہ کچھ بھی کرلیں خان صاحب کوجہانگیر ترین کے سحر سے نہیں نکال سکتے ۔

دوسری طرف اس وقت پی ٹی آئی کو شناخت اور پالیسی کا بھی چیلنج درپیش ہے ۔ ابھی تو اس کی سیاست صرف نوازشریف دشمنی اور اقتدار تک پہنچنے کی کوشش تک محدود ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ لیفٹ کی پارٹی ہوگی یا رائٹ کی یا پھر سینٹرکی ۔ اس کی اقتصادی پالیسی پیپلز پارٹی والی ہوگی ، مسلم لیگ (ق) والی یا پھر کچھ اور ۔ یہ اس وقت شاید واحد سیاسی جماعت ہے جس کی کوئی خارجہ پالیسی بھی نہیں ۔ صرف ایک چیز واضح ہے کہ علی زیدی کی قیادت میں ایرانی لابی کا ایک گروپ بڑی ہوشیاری کے ساتھ پی ٹی آئی کو ایران کی پراکسی میں بدل چکا ہے اور تادم تحریر یہ گروپ بڑی خاموشی کے ساتھ کام کرکے خان صاحب کو عرب مخالف لیڈر بناچکے ہیں۔ اسی گروپ نے ہی پی ٹی آئی کو چین سے دور کرنے میں بھی بنیادی کردار ادا کیا۔ باقی افغانستان ہو کہ چین ، امریکہ ہو کہ ہندوستان کسی ایشو سے متعلق پی ٹی آئی کی خارجہ پالیسی واضح نہیں ۔ اس میں دو رائے نہیں کہ میاں نوازشریف کی عوامی سطح پر مقبولیت کا گراف نہایت تیزی کے ساتھ گرا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ عالمی اور قومی مقتدر حلقے کیا اس پارٹی کو مقتدر بنانا چاہیں گےجس کی سمت معلوم ہو، خارجہ پالیسی اور نہ لیڈر۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے