شرقِ اوسط کی تازہ صورتحال!

دنیائےعرب میں سعودی عرب کواہم مقام حاصل ہے۔عرب امارات،بحرین،اوریمن اس مقام وحیثیت کےسبب شاہ سےزیادہ شاہ کےوفادارکےطورپرکسی بھی موقع پرسامنےآتےہیں۔مصراورسعودی عرب کےتعلقات بھی یک جان دوقالب کی مثال ہیں سومصربھی بادشاہ سلامت کےسامنےسرتسلیمِ خم کرنےمیں ہی عافیت جانتاہے۔

حال ہی میں سعودی عرب،مصر،لیبیا،متحدہ عرب امارات،بحرین اوریمن نےعرب ملک قطرسےتمام تر تعقات ختم کرنےکااعلان کیاہے۔مذکورہ ممالک کےقطرسےاپنےاپنےگِلےشکوے ہیں جن کااظہارانہوں نےاپنےاپنے اعلامیہ میں کیاہے۔بحرین ویمن نےقطرپراپنےممالک میں باغیوں سےتعلقات کاالزام عائدکیاہے،مصراخوان المسلمون سےہمدردی کےسبب نالاں ہےاورلیبیاکی حکومت کوبھی یہی شکوہ ہے کہ قطراسلامی انتہاپسندوں کی معاونت کررہاہے۔
سعودی عرب نےقطرپرجوالزامات عائدکئےہیں وہ یہی ہیں کہ قطرپڑوسی ممالک کےاندرونی معاملات میں مداخلت کامرتکب ہورہاہےاورخطےکی دشمن قوتوں سےدوستانہ مراسم ہیں جبکہ انتہاپسندوں کی معاونت بھی کررہاہے۔قطع تعلقی کرنےوالےممالک میں ایک نام متحدہ عرب امارات کابھی ہےجس کےوزیرِ خارجہ نے بادشاہ سلامت سےاپنی وفاداری کاثبوت ان الفاظ میں دیا”ہم نےشاہ سلمان کوچنا”یعنی ان کےاس اقدام کی واحد وجہ شاہ سلمان سےان کی محبت ہی ہے۔

سوال مگریہ ہےکہ یکایک کیاآفت آن پڑی کہ 6،7ممالک نےاہم ملک سےتعلقات ختم کرکےاپنےممالک سے قطرکےسفارتی عملہ کوملک چھوڑنےکاحکم سنادیا۔قطری باشندوں کو14دن کی مہلت کہ وہ ان ممالک سے اپنا بوریابسترلپیٹ لےجائیں۔؟وجہ بہت واضح ہےکہ امیرقطرنےحالیہ بیان میں ایران،حزب اللہ اورحماس واخوان کی مدح سرائی کی۔ااہم عرب ملک ایران وحزب اللہ کےکردارکوسراہتےہوئےانہیں ایک قوت کے طور پر تسلیم کرےیہ بات سعودی عرب اورایرانیت زدہ ممالک کےلیےکیوںکرقابلِ برداشت ہوگی۔
ایران اورحزب اللہ کی مدح سرائی مان لیتےہیں کہ ایسےوقت میں جبکہ "امریکن عرب اسلامک کانفرنس” منعقدہوئےکچھ ہی روزگزرےہوں جس کایک لفظی اعلامیہ ایرانی مداخلت روکناتھانہایت نامناسب بات ہے۔یوں بھی مشرق وسطیٰ میں ایران وحزب اللہ کاکردارواقعۃ متنازعہ ہےتوامیرِ قطرکاان کی شان میں رطب السان ہوناعرب کےلیےناقابلِ قبول ہی تھا۔ایروان وحزب اللہ کے ساتھ دونام حماس اوراخوان المسلمون کے بھی ہیں جن کی حمایت کرنےکاجرم قطراک عرصہ سےکررہاہے۔

حماس اسرائیل کےخلاف مزاحمت کااستعارہ ہےجواسرائیلی مظالم کامقابلہ کررہی ہے۔قطرمیں حماس راہنما خالدمشعل رہائش رکھتےہیں۔اس کےعلاوہ قطرحماس کی اخلاقی ومالی معاونت کابھی "مرتکب "ہوتارہتاہے۔حماس سےقطرکی ہمدردی عربوں کےنزدیک”جرم” ہونےکواس زاویےسےدیکھتےہیں کہ امریکی صدرنے دورہ سعودی عرب کےبعدفوری دورہ اسرائیل کیااوروہاں امریکہ واسرائیل کےباہمی گہرے رشتے کااظہار ضروری سمجھا۔سعودی عرب میں انہوں نےایران کےحوالےسےجن خیالات کااظہارکیاوہ عربوں کوخوش کرنےکوکافی تھے۔بدلےمیں امریکہ کوبھی کچھ چاہئےتھاسوحماس بھی عربوں کو”بُری” لگنےلگی ہے۔

اخوان المسلمون مصرکی ایک اسلامی سیاسی تنظیم ہےاورعرب ممالک کی کچھ حکومتوں نےاسے”انتہاپسند” جماعت ہونےکےسبب کاالعدم قراردیاہواہے۔حماس کی طرح اخوان کی قیادت کےبھی قطری حکومت سےبہتر تعلقات ہیں جبکہ السیسی کےمظالم کےخلاف بھی قطرنےاخوان کی کھلم کھلاحمایت کی جس کا "خمیازہ” انہیں اس موقع پربھگتناپڑرہاہے۔اخوان ایک سیاسی تنظیم ہےاورمصرکی ڈکٹیٹرشپ کےلئےایک کھلاچیلنج ہے۔یہی وجہ ہےکہ جمال عبدالناصرسےلےکرالسیسی تک ہرآمرنےاخوان کاراستہ روکنےکےلیے اوچھے ہتھکنڈوں کا استعمال کیاہے۔

آخرسعودی عرب ایک سیاسی تنظیم اخوان سےکیوں خوف زدہ ہے۔؟وجہ صاف ظاہرہےکہ حماس ایک سیاسی قوت ہےجبکہ عرب میں سیاست نام کی کوئی شےمعیوب ہی سمجھی جاتی ہےیاکم ازکم سیاسی جماعت کاوجود مملکت کےاجلےچہرےپرایک بدنماداغ۔ سعودی عرب خطہ میں ہراس گروہ یاتنظیم کوصرف اس لیےبرداشت نہیں کرتاکہ مباداکہیں وہ کسی ملک میں کامیاب ہوجائےتوہمارے ملک میں بھی اس طرح کےلوگ سراٹھانے لگیں گے۔وہ جانتےہیں کہ اس طرح کےسرپھروں کاسراٹھانامملکتِ شاہانہ میں سردردکاباعث بنےگا۔

قطرکےیہ جرائم بقول شاہانِ عرب کےبہت دیرسےبرداشت کیےجارہےتھےمگراب مزیدنہیں۔کچھ جائزہ ان جرائم کی نوعیت کالیتےہوئےیہ عرض کروں گاکہ ایران کےحؤالےسےامیرِقطرکابیان کچھ غلط بھی نہیں۔ایران واقعتاََخطہ میں اپنااثرورسوخ بڑھاچکاہےجبکہ مزیدبڑھابھی رہاہے۔اگران حالات میں ایران سےکچھ لوکچھ دوکی بناپرمفاہمت کرلی جائےتواس میں حرج ہی کیاہے۔؟لبنان وعراق میں ایران اہم قوت ہےاورشام میں جو صورت حال ہےوہ بھی ایران کےمضبوط کردارکی عکاس ہے۔یہ بھی قابلِ غورہےکہ عرب ممالک نے بشار الاسد کوہٹانےکےلیےایڑی چوٹی کازورلگایامگرناکام ہی رہےادھریمن میں بھی کچھ اسی صورتحال کا سامنا ہے۔مفاہمت کی شرط مگریہ ہوکہ ایران عرب خطہ میں عربوں کےمفادات کونقصان نہیں پہنچائےگا۔

عرب ممالک کوایران دشمنی کی عینک اتارکرامیرِقطرکےایران کےحوالےسےبیان پرغؤرکرناچاہئےکہ آخر کب تک مسلم دنیاایک دوسرےکےخلاف ہی محاذآرارہےگی۔یورپ نےجنگِ عظیم اول ودوم میں اپناخاصآ نقصان کرنےکےبعدایک دوسرےسےتعاون کاہاتھ بڑھانےمیں ہی عافیت جانی۔مسلم دنیابھی اپنابہت کچھ گنوا چکی ہےاب ایک دوسرےکےمفادات کونقصان پہنچائےبغیرامن وترقی کی راہ پرگامزن ہونےکی ضرورت ہے۔جہاں تک معاملہ حزب اللہ کاہےتوایسی تنظیموں کاوجودواقعۃ ہمارےلیےخطرہ ہےکہ انہی نجی ملیشیائوں کے ” کارِ عظیم” لابدلہ ہم لہودےکرچکارہےہیں۔سوایسی کسی بھی تنظیم کومرحباکہنایااسےقابلِ قبول سمجھناقطعی دانشمندی نہیں۔

حماس جیسی عسکری تنظیم جوغاصب قوت کےخلاف صف آراہےانہیں عربوں کی اخلاقی،سفارتی ومالی مددکی ضرورت ہے۔حماس اورالفتح کےمابین تعلقات کی بہتری کےلیےعرب ممالک اپنااثرورسوخ استعمال کریں توارضِ قدس کےلیےبہترہوگا۔اہم ترین بات یہ کہ عرب ممالک کوسیاسی جماعتوں اورجدیدسیاسی نظریات سےخوفزدہ ہونےکی بجائےانہیں پنپنےکابھی موقع دینا چاہیے۔کہ مملکتوں میں شورش وسازش کےدرتبھی واہوتےہیں جب وہاں طاقت کےبلبوتےپرریاستی ادارےجائزدربند کر دیتےہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے