آخر قطر ہی کو کیوں نشانہ بنایا گیا؟

قطر اور سعودی عرب کے درمیان جاری کشیدگی ہر گزرتے دن کے ساتھ بدترین صورت حال اختیار کرتی جارہی ہے اور اس میں مزید اضافہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک، جن میں مصر، متحدہ عرب امارات اور بحرین شامل ہیں، نے ایک مشترکہ جاری ہونے والے بیان میں قطر سے تعلق رکھنے والے 59 افراد اور 12 تنظیموں کو دہشت گرد فہرست میں شامل کردیا گیا۔

اگر کوئی خلیجی تعاون کونسل (جی سی سی) کی سیاست سے واقف ہے تو وہ اس حقیقت کو جانتا ہوگا کہ 6 ملکی خلیجی ممالک کے بلاک میں اٹھائے جانے والے حالیہ اقدام کی نظیر گذشتہ 3 دہائیوں کی تاریخ میں نہیں ملتی جبکہ پردے کے پیچھے سازش اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنا کوئی نئی بات نہیں ہے، کسی ایک ریاست کے لیے اس قسم کے سخت اقدامات عرب ممالک کے درمیان تنازعات کے عکاس ہیں۔ جی سی سی میں جنگ کی لائینز کھینچی جاچکی ہیں، جس کے مطابق سعودی عرب نے متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ مل کر قطر کو لگ تھلگ کردیا ہے جبکہ کویت اور عمان سمیت جی سی سی کے دیگر ارکان نے اس گروپ میں شمولیت کو مشکل کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔

قطر سے متعلق بنائی گئی دہشت گردی کی فہرست کے حوالے سے دو اہم نکات جاننے کی ضرورت ہے۔ پہلا یہ کہ انتہائی اہم دہشت گردوں اور ان کے حمایتوں کے علاوہ اس فہرست میں قطر کے اہم عہدیداروں اور قطر کے تاجروں، حکومتی حکام، قطر کی حکمران خاندان الثانی کے لوگ، مصر کے جلاوطن عالم یوسف القرضاوی، انہیں اخوان المسلمون کا روحانی پیشوا سمجھا جاتا ہے، شامل ہیں۔

عرب اتحاد کی جانب سے ترتیب دی گئی فہرست میں عبدالعزیز العطیہ، جو قطر کی بلئرڈس اور اسنوکر فیڈریشن کے سربراہ کے طور پر اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں اور وہ قطر کی اولمپک کمیٹی کے رکن بھی ہیں، عبدالرحمٰن بن عمیر النعیمی، جو قطر کی فٹبال ایسوسی ایشن کے سابق سربراہ ہیں اور عبداللہ بن خالد الثانی، جو قطر کے شاہی خاندان کے فرد ہیں اور سابق وزیر داخلہ و موقوفات بھی رہ چکے ہیں۔

مشرق وسطیٰ کے میڈیا میں دہشت گردی کی فہرست میں شامل افراد کے دہشت گردی کی حمایت کے حوالے سے کافی تفصیلات شائع ہوئی ہیں، مثال کے طور پر، کچھ افراد پر امریکا اور اقوام متحدہ نے دہشت گرد گروپ القاعدہ کی امداد کے سلسلے میں پابندی عائد کی تھی، الزامات کی یہ فہرست بہت سال پہلے 2008 میں ترتیب دی گئی تھی؛ تو کیوں اچانک سے یہ تفصیلات 2017 میں بڑھا چڑھا کر پیش کی گئیں؟ درحقیقت ان میں سے بیشتر نام امریکا اور اقوام متحدہ کی فہرست سے لیے گئے ہیں جو بہت سال قبل بنائی گئی تھی، جس میں القاعدہ اور شام میں موجود اس سے جڑے ذیلی گروپوں سے تعلقات بتائے گئے ہیں، جس میں داعش کا معمولی سا ذکر بھی ملتا ہے۔

اس کے علاوہ، سعودی عرب اور امارات نے اسلامی سیاسی جدوجہد اخوان المسلمون کو کالعدم القاعدہ اور داعش جسے گروپوں سے ملایا۔ یہ ایک انتہائی عجیب سی درجہ بندی ہے، جیسا کہ اخوان المسلمون ایک قدامت پرست مذہبی سیاسی طاقت ہے، یہ سمجھنا انتہائی مشکل ہے کہ کیوں اسے شدت پسند عسکری تنظیموں کے گروپ میں شامل کیا گیا۔

اخوان المسلون کے محمد مرسی جو جدید مصر کی سوچ کے حامل تھے، نے 2012 کے صدارتی انتخابات میں واضح کامیابی حاصل کی؛ دوسری جانب القاعدہ اور داعش جمہوریت کو ختم کرنا چاہتی ہیں۔ شاید عرب بادشاہوں کو سب سے زیادہ مشکل یہ ہے کہ اخوان المسلمون اور اس سے متاثر گروپس جمہوریت کو اسلام کے مطابق ڈھال رہے ہیں، جو مطلق العنان حکمرانی کی قانونی حیثیت کے لیے براہ راست خطرہ ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے