گیمز شو اور سیلف ریسپیکٹ

آج کے گیم شو دیکھ کر جب اسی کی دہائی میں ہونے والے نیلام گھر کو یاد کرتا ہوں ، تو مجھے اُس وقت لوگوں کی معصومیت پر رشک آتا ہے، اُس وقت لوگوں کے پاس پیسوں کی فراوانی نہیں تھی، نہ ریفریجریٹر ہرگھر میں تھا اور نہ ہر گھر میں ٹی وی ہوا کرتا تھا، آج کے ہر گھر میں جو ضروریات زندگی کی آشیا ہیں ان کا تصور ہی نہیں تھا، موٹر سائیکل اور موٹر کار اشرافیہ طبقے کے پاس ہوا کرتا تھا ۔ مگر لوگ اپنی عزتوں کی پاسداری کرتے تھے۔اس پر انچ تک نہیں آنے دیتے۔ وہ نیلام گھر میں آتے تو یہ سمجھ کر نہیں آتے تھے کہ وہ گھر میں پڑی ہوئی چیزوں کے ہوتے ہوئے بھی مزید ان چیزوں کی لالچ کیا کریں ۔ مجھے اس دور کے لوگوں سے محبت کیوں ہے ؟کہ وہ تعلیم یافتہ نہیں تھے مگر ُان میں ایک سیلف ریسپیکٹ ہوتی تھی،وہ آج کے تعلیم یافتہ لوگوں سے زیادہ باخبر ہوا کرتے تھے ۔ وہ عزت دار لوگ تھے، خود کی عزت کرنا ور دوسروں کو عزت دینا ان کا شیوہ تھا ، اس لئے وہ کامیاب تھے۔ وہ نیلام گھر میں آتے تھے مگر انہوںنے اپنے وقار پر کبھی بھی آنچ نہیں آنے دیا۔وہ موٹر سائیکل ، موٹر کار اور عمرہ کے ٹکٹوں کے لئے اتنے مرے نہیں جاتے تھے، جتنا کچھ آج کے گیمز شوز میں کیا جاتا ہے ۔

جب رمضان شروع ہوتا ہے ان گیمز شو میں اضافہ ہوجاتا ہے ، اور وہ لوگ ان پروگراموں کی ہوسٹنگ کرتے ہیں جو اپنے فیلڈ میں بدنام ہوتے ہیں ، ساحر لودھی، وینا ملک، شائستہ لودھی، عامر لیاقت حسین اور ان جیسے اور لوگ ان پروگراموں کا خاصہ ہوتے ہیں ،ان پروگراموں کا بنیادی مقصد لوگوں کی توجہ حاصل کرنا ہوتی ہے اور ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی بکری کرنا چاہتی ہے ، جس کے لئے وہ نت نئے ہتھکنڈوں کا سہارا لیتے ہیں ، جس میںجتنا دم ہوتا ہے وہ اتنے کامیاب ہوتے ہیں ، ہم یہاں ان کے طریقوں پر کوئی گفتگو نہیں کر رہے ۔ ہم صرف اس بات کو ڈسکس کرنا چاہتے ہیں ، کہ اسی کے دہائی میں بھی یہی پروگرام ہو ا کرتے تھے، اس وقت بھی یہی لوگ ہوا کرتے تھے، ان کی بھی ضرورتیں ہوا کرتی تھیں، وہ بھی موٹر سائیکل گھر میں رکھنے کو اچھا سمجھتے تھے ان کی بھی خواہش ہوتی تھی کہ اُن کے گھر میں بھی کار ہو ، ہر وہ چیز اُن کے گھر میں ہو جس سے زندگی آسان ہو ،

اگر نیلام گھر میں خواتین کو طارق عزیز میری بہن ، میری بھابھی،میری ماں کہہ کر بلا سکتا ہے تو آج کے ان گیم شوز میں موٹی تازی آنٹیاں، نازک اندام ، خوبصورت لڑکیاں کہہ کر کیوں بلایا جاتا ہے ، اُس وقت جب جوڑوں کو بلایا جاتا تھا ، تو ایک مخصوص ساز بجایا جاتا تھا جو ایک مخصوص نمبر لکھتے تھے تو انہیں کوئی چیز تحفے میں دی جاتی تھی، جنرل نالج کے سوالات پوچھے جاتے تھے۔ بڑے بوڑھوںکو ڈانس نہیں کروایا جاتا تھا، جوڑوں کو سٹیج پر دوڑانے کی پریکٹس نہیں کروائی جاتی تھی، ہر کوئی آکر عمرے کے ٹکٹ کی رٹ نہیں لگاتا تھا، حتی کہ آج کل تو بچوں کو بھی والدین نے سمجھایا ہوتا ہے کہ انکل سے عمرے کے ٹکٹ یا پھر موٹر سائیکل کی فرمائش کرنی ہے ، یا پھرسونا ہی جیت کر لے جانا ہے ، خواہ کچھ بھی ہو بس مالامال ہونا ہے اور کچھ نہ کچھ ہاتھ میں لے کر جانا ہے ۔

سوچتا ہوں اس وقت بھی عزت ہوتی تھی آج بھی عزت ہے ، اُس وقت بھی عزت نفس ہوا کرتی تھی آج بھی وہی عزت نفس کا تصور ہے ، اُس وقت خاتون خانہ گھر کی شان ہوتی تھی اور آج بھی ہے مگر یہ آج کے لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ چند روپوں کی خاطر اپنی عزت نفس کو مجروح کرنے پر تلے ہوئے ہیں ، اور غیرمرد اُن کو اپنے مردوں ، بھائی، باپ اور خاوند کے سامنے نچا رہے ہیں ،اُن سے وہ کچھ کروایا جاتا ہے جس کا پاکستانی معاشرے میں تصور نہیں کیا جاسکتا ۔ سوچتا ہوں حالات بدل گئے ہیں ، وقت بدل گیا ہے ، یا ہم لوگوں کی ترجیحات بدل گئی ہیں ہماری سوچیں بدل گئی ہیں یا ہمارے خیالات میں تبدیلی آگئی ہے کہ فہدمصطفی ، ساحر لودھی جیسے لوگ ہماری ماﺅں ، بہنوں کو دنیا کے سامنے ذلیل کرتے ہیں بلکہ ہم وہاں بیٹھ کر تالیاں بجاتے ہیں ہمیں نہ غیرت آتی ہے اور نہ ہی اور کچھ ہوتا ہے ۔ اُس وقت تعلیم کی کمی تھی مگر شعو ر تھاآج تعلیم ہے مگر شعور نہیں ہے اس لئے ہماری عزت نفس مجروح ہورہی ہے ۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے