تحریک انصاف کو منہ توڑ جواب

۔۔۔

حاسدوں اور دل میں وسوسے ڈالنے والوں کو کائی علاج نہیں ہوتا۔ اور کامیاب لوگ ان کی پرواہ بھی نہیں کرتے۔ وہ اپنی دھن میں مست ، اپنے کام سے کام رکھتے ہوئے اپنی منزل مقصود کی طرف روان دواں رہتے ہیں۔حاسد حسد کرتے رہتے ہیں اور کام کرنے والے کام کرتے رہتے ہیں۔

2013میں جس دن یہ حکومت برسر اقتدار آئی پاکستان پہلی بار ایک سنہرے دور میں داخل ہوا اور دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرنے لگ گیا۔ ماشا ءاللہ۔ اللہ نظر بد سے محفوظ رکھے۔ اپوزیشن ایسے ہی جل کے کوئلہ ہوتی رہے۔دھوئیں نکلتے رہیں۔ آہیں بھرتے رہیں۔ مخالفین نے بڑی بڑی تہمتیں لگائیں ۔ عیب ڈھونڈنے اور بیان کرنے میں زمین و آسمان کے قلابے ایک کر دیئے۔ لیکن آج ہم ان سب حاسدوں اور جلنے والوں کو ایسا منہ توڑ جواب دیں گے کہ انہیں چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی۔

کہتے ہیں حکومت نے گزشتہ اڑھائی سال میں 47 کھرب روپے کا بیرونی قرضہ لیا اور پاکستان کا بیرونی قرضہ 67 ارب ڈالرکی بلند ترین سطح کو چھونے لگ گیا۔ اڑھائی سال میں بانڈز کی مد میں 3.5 ارب ڈالر اور آئی ایم ایف سے 4.77 ارب ڈالر حاصل کیئے ۔مالی سال 2015-16 ءکے ابتدائی چھ ماہ میں 5.15 ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ حاصل کیا۔

لو۔۔ یہ کوئی باتیں ہیں کرنے والی؟ کبھی حکومت کی ہو، کبھی ملک چلایا ہو تو پتا ہو نا۔ اس قدر اخراجات۔ اور پھر بین الاقوامی مارکیٹ میں اس قدر مہنگائی۔ اُف توبہ۔ ایک چھوٹی سی دیوار بنواﺅ تو سارا بجٹ آﺅٹ ہو جاتا ہے۔ یہاں اتنی سڑکیں، وہ بھی بڑی بڑی اور پھر کئی اور طرح کے خرچے۔

سب سے زیادہ شور وہ مچاتے ہیں ، کیا نام ہے ان کا لمبے سے ہیں۔ ہاں اسد عمر ۔ انہیں تو خدا واسطے کا بیر ہے۔ ایک بار کہہ رہے تھے حکومت نے 28.6 ارب ڈالر کے معاہدے کر رکھے ہیں جن سے پاکستان آئندہ تین برسوں میں104.6 ارب ڈالر قرض لے سکے گا۔ معاشی امورکے محکمے کی دستاویزات کے مطابق آئی ایم ایف کی اقساط کے علاوہ دوسرے مالیاتی اداروں اور مختلف ممالک سے 9.18 ارب ڈالر قرضہ حاصل ہونے کا امکان ہے۔اسی طرح ایشیائی ترقیاتی بینک سے 607.4 ملین ڈالر‘ یورو بانڈ سے پانچ سو ملین ڈالر ‘ چین سے امدادی قرضہ 561.4 ملین ڈالر‘ کمرشل بینکوں سے 956 ملین ڈالر ‘ انٹرنیشنل بینک تعمیر و ترقی سے 36.19 ملین ڈالر‘ انٹرنیشنل ڈویلپمنٹ ایسوسی ایشن 594.89 ملین ڈالر‘ جرمنی سے 21.67 ملین ڈالر‘ جاپان سے 26.52 ملین ڈالر‘ کویت سے 36.7 ملین ڈالر‘ برطانیہ سے 247.2 ملین ڈالر اور امریکہ سے 80.86 ملین ڈالر قرضہ حاصل کیا گیا۔ صاف محسوس ہو رہا ہے کہ اسد عمر صاحب کو کوئی ذاتی پرخاش ہے۔ ورنہ اتنی عظیم کامیابی پر تعریف کرتے ۔ آج کل کے دور میں جیب سے چار آنے کوئی نہیں نکالتا۔ انہیں کوئی سمجھائے کہ حضور گٹس چاہئیںگٹس اتنے بڑے بڑے قرضے لینے کے لیئے ۔یہ ایک خداد داد صلاحیت ہوتی ہے۔ لیکن وہ نہیں مانیں گے۔ بعض لوگوں کا کوا ہوتا ہی سفید ہے۔ گڈ ورک ڈار صاحب۔ کیپ اِٹ اَپ۔

اچھا جی پھر کچھ لوگ اور بھی ہیں رونے والے۔ بعض لوگوں کی قسمت میں ہی رونا لکھا ہوتا ہے۔کہتے ہیں 2013 میں ملک کی کل برآمدات 21 ارب ڈالر تھیں جو 2017 میں کم ہوکر 17 ارب ڈالر ہوگئیں۔یہ بڑی گہری بات ہے۔

کہاں ان لوگوں کی موٹی سمجھ اور کہاں یہ مالی معارفت کی گہرائیاں۔میں اپنے گھر سے چیزیں نکال نکال کے محلے میں تقسیم کرتا پھروں ۔ ۔ ۔ کون عقلمند کہے گا مجھے؟ ارے بھائی اول خویش بعد درویش۔ پہلے اپنے لوگوں کا حق ہے تو انہیں دینا چاہئیے نہ کہ دنیا میں بانٹتے پھریں۔ اپنی چیزیں ہیں گھر میں استعمال کریں گے۔نہیں دیتے ہم اپنی چیزیں کسی کو۔ کر لو جو کرنا۔

اچھا بجلی کو لے کر بھی بڑی اچھل کود کی جا رہی ہے۔ دنیا کے دو بہترین دماغ، جن میں سے ایک عابد شیر علی کی کھوپڑی میں اور دوسرا خواجہ آصف صاحب کے پاس۔ بجلی پر دن رات کام کرہے ہیں۔ چوبیس میں سے تئیس گھنٹے وہ کام کرتے ہیں۔ عابد شیر علی صاحب کو ٹویٹرتک استعمال کرنے کا وقت نہیں ملتا۔ پھر بھی مخالفین کہتے ہیں 2013 میں بجلی کا شارٹ فال 5000 میگاواٹ تھا جو 2017 میں بڑھ کر 7000 میگاواٹ تک جا پہنچا۔سچ کہا ہے کسی نے کہ حسد آنکھ پر پٹی باندھ دیتا ہے۔ حاسدوں نے سرکار اور سرکار راج دیکھی ہوتی تو انہیں پتا ہوتا کہ دور کا فائدہ حاصل کرنے کے لیئے نزدیکی نقصان کی پرواہ نہیں کرتے۔ ان لوگوں کو شیلا کی جوانی اور گاڈ فادر دیکھنے سے فرصت ملے تو کوئی کام کی فلم دیکھیں۔اچھا جی آگے چلتے ہیں۔ آج دشمنوں کو چھوڑیں گے نہیں۔ ان کے دانت کھٹے کردیں گے۔

کو ئی کہہ رہا تھا کہ 2013 میں بجلی کا بحران دور کرنے کے لیے 500 ارب روپے کی خطیر لاگت سے جن منصوبوں پر کام جاری تھا وہ بھی ایک ایک کر کے ناکام ہوگئے۔ مثلا نندی پور، قائداعظم سولر پارک اور نیلم جہلم وغیرہ۔ 500 ارب ڈوب گئے۔ارے بھائی اب انہیں کون سمجھائے کہ عقلمند آدمی جب دیکھتا ہے کہ دکان نہیں چل رہی تو اسے بند کر دیتا ہے بجائے ہر روز کا نقصان اٹھانے کے۔اور اس کی وجہ ہم پتا کر چکے ہیں۔ دشمنوں نے ان پراجیکٹس پر تعویز کروائے تھے تاکہ یہ کامیاب نہ ہوں اور انہیں واویلا کرنے کا موقع ملے۔ اب شیطانی عمل کا انسان کیا جواب دے۔ لیکن اللہ بھلا کرے گا ہم نے بھی بڑے تگڑے بابا جی سے توڑ کے تعویز منگوا لیئے ہیں۔ اور خدا خوش رکھے عابد شیر علی کو۔ وہ ذاتی طور پر ایک چلہ بھی کاٹ رہے ہیں۔ چلہ پورا ہوتے ہی ملک بقعہ نور بن جائے گا۔ اور حاسد بغلیں جھانکیں گے۔ منہ کی کھائیں گے۔ انشاءاللہ۔

مخالفین کے بعضے اعتراض تو بہت ہی طفلانہ قسم کے ہیں۔مثلا موجودہ دور میں عالمی منڈی میں تیل کم ترین قیمت پر دستیاب تھا۔اس کے باوجود عوام کو اس کا فائدہ نہیں پہنچایا گیا۔ ارے بھائی تو کیا کرتے؟ یہاں بھی تیل پٹرول سستا کر دیتے؟ کیا اس قابل ہیں یہاں کے لوگ۔ یہ لوگ منہ میں پٹرول رکھ کر پھرنے والے ہیں۔ بوتلوں میں پٹرول ڈال کر بم پھوڑنے والے ہیں۔ انہیں پٹرول سستا دینا تو اپنے ساتھ اس ملک کے ساتھ زیادتی ہے۔ اب بچہ چھرے مانگے تو والدین دیں گے کیا؟ اس روشن ضمیر اور دور اندیش حکومت کے ہر فیصلے کے پیچھے کارفرما ایک ہمدردانہ اور محبت بھری سوچ کیوں دکھائی نہیں دیتی آپ لوگوں کو؟ خدا را آنکھوں سے حسد اور بغض کے عینک اتار کر دیکھیئے۔

اور یہ کس نے کہا تھا۔ ذرا سامنے آئے کہ کل بھوشن یادوکی گرفتاری دنیا کو بھارت کا مکروہ چہرہ دکھانے کا ایک سنہری موقع تھا۔ لیکن حکومت نے نہ صرف یہ موقع گنوایا بلکہ مکمل طور پر چپ رہتے ہوئے مبینہ طور پر بھارت کو یہ معاملہ عالمی عدالت میں لے جانے کے لیے معاونت فراہم کی۔معاف کیجیئے گا مجھے تو آپ کے اسلامی عقائد پر شک ہو چلا ہے۔ پڑوسی کے بارے میں اسلامی احکامات کا کچھ علم ہے آپ کو یا نہیں۔ نہیں بھائی۔ دو دن کی زندگی کے لیئے عاقبت اور آخرت داﺅ پر لگانا کوئی عقلمندی نہیں۔ پڑوسی کے بڑے حقوق ہیں۔ بھائی ہے اپنا بھائی۔

کیا آپ لوگوں کو پاکستانی عوام کے چہروں پر اطمینان سکون اور چین نہیں دکھائی دیتا؟ کیا آپ نہیں دیکھ سکتے کہ سب کے چہرے کِھلے ہوئے ہیں۔ اندازو اطوار میں ایک تروتازگی ہے۔ آنکھوں میں طمانیت اور خوشی کے آنسوہیں۔جب سے یہ حکومت اقتدار میں آئی ہے لوگوں کی زندگیاں بدل گئی ہیں۔ آنے والی نسلوں تک کی قسمت سنورنے لگی ہے۔ وہ ہورہا ہے جو ملک کی تاریخ میں پہلے کبھی نہ ہوا۔ لیکن نہیں ۔ آپ سے برداشت نہیں ہو رہا ۔ ملک اور قوم کی بدلتی تقدیر آپ کو ایک آنکھ نہیں بھا رہی۔ بھلا ہو میاں صاحب کا ۔ جگ جگ جیئیں۔ میاں صاحب زندہ باد ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے